ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(2)-زید محسن حفید سلطان

ہم سوتے رہے ، رات گہری ہوتی رہی ، آہستہ آہستہ باغات جنگل کا منظر پیش کرنے لگے ، ستارے چاند کے گرد محفل جمانے لگے اور چہار سو خاموشی نے ڈیرا جما لیا ۔۔اور یہی اس دنیا کا قانون ہے کہ یہاں ہر چیز کی ایک خاص مدت ہے ، اور اس مدت کے بعد وہ اپنا رنگ و روپ بدل لیتی ہے ، اگر کہیں دن کی روشنی میں نظر آتے خوبصورت باغات ہیں جن میں بچے کھیلیں اور تتلیاں مسکراہٹیں بکھیریں ، تو رات تک وہی کسی وحشت ناک جنگل کا سما پیش کرتے ہیں جن کے قریب جانے سے بھی خوف آئے ، یہی حال چاند ستاروں کی محفل کا ہے جو رات کے اندھیرے میں دلکش منظر پیش کرتے ہیں لیکن سورج کی چند کرنیں ان کو بے نور کر دیتی ہیں ، اور یہی حال رات کی خاموشی کا ہے جو ہر نئی صبح ایک تازہ نغمے کے ساتھ ٹوٹ جاتی ہے ، پھر یہی چرخہ روز گھومتا چلا جاتا ہے ، اور ببانگِ دہل یہ صدا بلند کرتا چلا جاتا ہے کہ:
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے!
اسی گہرے اندھیرے میں یک دم ٹمٹماتی قندیلوں کے جھرمٹ نظر آئے تو ہماری نظروں نے بھی تختیوں کا تعاقب کیا کہ پتا کریں کون سا شہر آ رہا ہے۔۔
اس سے پہلے کہ  کوئی تختی ہم پڑھ پاتے ، کیپٹن نے لال بتی کو پڑھ لیا اور پھر ایک طویل بریک لگا اور ریل رک گئی ، “ہاں بھئی چائے والا چائے ، کباب کی ٹکیہ لے لو بھائی ، لو جی ٹھنڈا پانی ، یہ آگئی سندھ جو ثقافت ، پرس والا ٹوپی والا اجرک والا بھائی” اور اس طرح کی دیگر صداؤں نے روہڑی جنکشن پر ہمارا استقبال کیا۔

روہڑی جنکشن کوئی عام سا اسٹیشن نہیں بلکہ کراچی سے بالائی علاقوں میں جانے اور بالائی علاقوں سے کراچی آنے تک کی تمام ہی مسافر و مال گاڑیوں کا صدر مقام بھی ہے ، تمام مسافر گاڑیاں اس اسٹیشن پر تقریباً آدھا گھنٹہ اور مال گاڑیاں ایک گھنٹہ رُکتی ہیں ، اسی لئے جون ایلیا کو جب برطانیہ کے ریلوے نظام کی تعریفیں کرتے ہوئے پایا گیا تو کسی نے کہا ، ہم بھی وہاں گئے ہیں لیکن ہمیں تو کوئی ایسی خصوصیت نظر نہ آئی   کہ گن گنگناتے رہیں ، اس پر جون ؔنے کہا: “آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ آپ انگلینڈ میں ریل سے کہیں بھی جاؤ یہ سسرا روہڑی بیچ میں نہیں آئے گا۔”

اس سے آپ روہڑی اسٹیشن کے استعمال کا اندازہ کر سکتے ہیں ، یہ اسٹیشن یوں تو ۱۸۸۹ء کے بعد تعمیر ہو چکا تھا ، لیکن اس کا پالا کراچی سے اس وقت پڑا جب ۱۹۰۰ میں کوٹری اور حیدرآباد کے درمیان دریاء سندھ پر پُل تعمیر ہوا ، اور یوں کراچی کی پٹڑی روہڑی سے متصل ہو گئی ، جس نے اس وصل کے بعد آج تک فراق کی زحمت نہ اٹھائی۔۔ بقولِ شاعر:
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے

یہ اسٹیشن سندھ کے گرم علاقے میں ایک پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ،جسے کسی زمانے میں “لاہوری ٹکڑی” بھی کہا جاتا تھا ، آج بھی اس پہاڑی کے آثار اسٹیشن کے دونوں جانب دیکھے جا سکتے ہیں ، یہ سندھ سے نکلتے ہوئے آخری بڑا اسٹیشن جہاں ہر وقت نا  صرف عملہ موجود رہتا بلکہ ساتھ ہی مسافروں کیلئے بھرنے سے لے کر ٹیکنیکل چیکنگ بھی یہیں ہوتی ہے ، اس کے پلیٹ فارم نمبر ۳ کو آج بھی ملک کے سب سے طویل پلیٹ فارم ہونے کا اعزاز حاصل ہے ، یہاں پر ایک لوکو شیڈ بھی موجود ہے جہاں انجنوں کی  مینٹیننس کا کام بھی ہوتا ہے اور ریلیف ٹرین بھی ہمہ وقت موجود ہوتی ہے ، یوں یہ پاکستان کا اہم ترین ریلوے اسٹیشن ہے جس کو جہاں مزیّن کرنے کی ضرورت ہے وہیں سہولیات کی طرف بھی توجہ کرنا لازمی امر ہے تاکہ مسافر اپنے سفر کے آدھے گھنٹے کو ایک خوبصورت مقام پر گزار سکیں۔

ہم بھی اس اسٹیشن پر اترے ، تھوڑی ٹانگیں سیدھی کیں ، نلکوں سے پانی بھرا اور واپسی ڈبے کا رخ کیا ، کیبن میں پہنچے تو ابراہیم یا عبدالباسط کو ایک کپ چائے کا ہاتھ میں لئے پیٹھا پایا ، کہنے لگے “کوئی پی لو یار” ہم سب ایک ایک گھونٹ لیتے رہے لیکن پھر بھی ۹ افراد کی محنتِ شاقہ سے یہ ایک کپ چائے کا ختم نہ ہو سکا اور بالآخر اس کو روہڑی کی زمین کے سپرد ہی کرنا پڑا۔”

انسان پر کسی بھی حادثے کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے ہر چیز میں وہی حادثاتی عنصر نظر آنے لگتا ہے ، ہم ابھی “چائے” کے حادثے سے گزرے ہی تھے کہ ہماری نظر پانی کی بوتلوں پر پڑی تو اس میں بھی ہمیں “چائے” ہی نظر آئی ، ہم نے اسے وہی حادثاتی عنصر سمجھا ، لیکن جب ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ واقعتا ًپانی “چائے کے رنگ” کا ہی ہے۔
یہ وہ خصوصیت ہے جو روہڑی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کم و بیش ہر اسٹیشن پر لگے پانی کے نلکے چائے کی نہریں ہی بہا رہے ہیں۔

ویسے ہمارے ایک وزیر صاحب نے چائے کی ایک پیالی کم کرنے کی نصیحت کی تھی اگر وہ ذرا توجہ دیں تو پیالی کم کروانے کے بجائے بڑھوانا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ، بس حل یہی ہو کہ انہیں نلکوں سے چائے فراہم کی جائے ، شاید اس طرح یہ چائے نما پانی کی نہریں سوکھ جائیں اور پھر صاف پانی کا انتظام ہو سکے۔

خیر جی! انتظامات کریں منتظمین ، ہماری ریل نے تو دوسرا سائرن بجا دیا ہے تو ہم کرتے ہیں ایک بار پھر سونے کی تیاری ، اور اب ملیں گے اگلی صبح کی ایک عجیب و غریب داستان کے ساتھ۔ ۔۔
جب آگ لگ گئی!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply