ناصر عباس نیر کی “راکھ سے لکھی گئی کتاب”/ فیضان الحق

ناصر عباس نیر کی تنقیدی بصیرت سے استفادہ کرنے کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ چند مہینے قبل ہی ان کی تازہ تصنیف “نئے نقاد کے نام خطوط” مطالعے کا حصہ بنی، جس پر غالب انسٹیٹیوٹ، نئی دہلی کی جانب سے ایک مذاکرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام کی نظامت کا بار میرے ہی دوش ناتواں پر تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب ان کی تخلیقی نگارشات کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اس سے قبل فیس بک پر تخلیقی نوعیت کی ان کی متعدد تحریریں مطالعے میں ضرور آئیں،لیکن کسی مکمل تخلیقی کتاب کو پڑھنے کا تجربہ یکسر مختلف ہے۔ ویسے بھی بہت دنوں تک میں خالص تحقیق و تنقید یا خالص تخلیق کا مطالعہ نہیں کر سکتا۔ تنقید کب میرے ذہن کو تخلیق کی سمت موڑ دیتی ہے اور کوئی تخلیق کب میرے ذہن میں تنقیدی رویے کی تشکیل کرتی ہے اس کا فیصلہ کرنا خود میرے لیے بھی مشکل ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال تھی جب میں ناصر عباس نیر کے افسانوی مجموعہ “راکھ سے لکھی گئی کتاب” کی جانب متوجہ ہوا۔ کتاب کا عنوان اس اعتبار سے بھی میرے لیے بہت ہی معنی خیز اور پرکشش تھا کہ میں نے راکھ کو خود سے بہت قریب محسوس کیا ہے۔ پورا بچپن چولہے کی روٹیاں کھاتے ہوئے اور سردی کے موسم میں الاؤ کے گرد بیٹھتے ہوئے گزرا ہے۔ کھانا بننے کے بعد یا الاؤ بجھنے کے بعد جو راکھ نکلتی ہے، سگریٹ کی راکھ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چولہے کی راکھ کا ایک ذائقہ بھی ہے جو روٹیوں کے ساتھ کچھ اس طرح آمیز ہو جاتا ہے کہ کھانے والا اسے کراہت کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ کتاب کا عنوان اس را کھ کے ساتھ میرے ذہن کو سیاہ روشنائی کی جانب بھی منتقل کرتا ہے۔ مکتب کے دوران لکھنے کے لیے سیاہ روشنائی کا استعمال ہم سب کی یادداشت کا حصہ ہے۔ اس سیاہی کا راکھ سے بھی ایک گہرا تعلق ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی روشنائی ختم ہونے کے بعد ہم لوگ کاغذ کے کچھ ٹکڑوں کو جلا کر بچی ہوئی راکھ کو قلم دان میں ڈال دیتے تھے اور اس میں پانی ملا کر روشنائی کا کام لیتے تھے۔ اس اعتبار سے راکھ سے لکھنے کا تجربہ میرے لیے یکسر نیا نہیں، لیکن میرا تجسس یہ ہے کی روشنائی بنانے کے لیے کن اشیاء کو نذر آتش کیا گیا اور ایسی صورت حال کیوں کر پیش آئی؟ ناصر عباس نیر کے افسانوی مجموعے میں “راکھ سے لکھی گئی کتاب” کے عنوان سے موجود کہانی میرے اسی تجسس کا معنی خیز بیانیہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہانی کا زمانی ڈھانچہ حال کو ماضی بعید سے جوڑنے والے ایسے انسلاکات سے تیار کیا گیا ہے جو خالص حیرت اور تجسس سے پیدا ہوئے ہیں۔ علم دشمنی اور مذہبی شدت پسندی مثبت انسانی تعمیر کے لیے کتنی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، اس کا اندازہ افسانے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حقائق کو محفوظ رکھنے اور اسے اگلی نسل تک پہنچانے میں کتابوں کا نہایت اہم کردار ہے۔ اس افسانے سے واضح ہوتا ہے کہ شر پسند عناصر حقائق کو مسخ کرنے اور تمام ممکنہ ذرائع کو نیست و نابود کرنے کے لیے کس طرح کوشاں ہیں۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے شر پسندوں اور انسان دشمنوں کی اس روش کے باوجود ایک ایسی روایت کی بازیافت کی ہے جو اپنی جان کی بازی لگا کر اور خاک و خون کو روشنائی بنا کر روایت کو آگے بڑھانے میں سرگرم ہے۔ علم، تہذیب، تاریخ، حقائق اور باقیات کے تحفظ و احترام کا جو جذبہ اس افسانے میں نظر آتا ہے، اور اس کے لیے جو بیانیہ خلق کیا گیا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
باقیات کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہوتی ہے، لیکن ان باقیات سے پوری تاریخ کو دریافت کرنا اور ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو جوڑ کر ایک مربوط حقیقت تشکیل دینا مشکل امر ہے۔ یہ کام وہی انجام دے سکتا ہے جو اپنے گرد و پیش پر سوالیہ نگاہیں ڈالتا ہے اور نامکمل اشیاء سے ان کی عدم تکمیل کا سبب دریافت کرنا چاہتا ہے۔ افسانہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مشکل سے مشکل دور میں بھی کچھ اذہان خاموشی کے ساتھ اپنی روایت کو دریافت کرنے اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں مشغول رہتے ہیں۔
کہانی کے تین مرکزی کردار، کبیر، انصاری اور راوی میں سے یہ سعادت صرف راوی کے حصے میں آئی ہے۔ تین ماہ کی ایک عارضی ملازمت نے ان تینوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ایک کتب خانے میں آگ لگ جانے کے سبب کتابیں خاکستر ہو گئی ہیں۔ کبیر اور انصاری کا کام جلنے سے محفوظ رہ گئے اوراق اور راکھ کو الگ کرنا ہے۔ راوی کا کام ان دونوں سے مختلف ہے۔ اس کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ان ادھ جلے اور بچے کھچے اوراق کو ترتیب دے کر ایک ایسی کتاب تیار کرے جو مکمل ہو۔ کتاب خانے کی یہ تمام کتابیں مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں اور راوی ان تمام زبانوں سے واقف ہے۔ اس کے لیے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ ان اوراق کے درمیان ربط تلاش نہیں کر سکتا بلکہ اس کی اصل پریشانی ان کے درمیان تسلسل کو دریافت کرنے کی ہے۔ راوی اسی تسلسل کی دریافت میں تین مہینے صرف کرتا ہے۔اس کے ذہن میں پہلے دن سے یہ سوال گردش کر رہا تھا کہ کتاب خانے کو آگ کیسے لگی؟ ایسا بھی نہیں کہ اس نے کتابوں کو جلتے ہوئے پہلی بار دیکھا تھا بلکہ وہ اپنے علاقے میں متعدد بار کتابوں کو جلتے یا جلائی جاتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کتاب خانے اس طریقے سے اتفاقاً آگ کی لپیٹ میں نہیں آتے۔
ادھ جلے اوراق کو دیکھ کر راوی کو پہلا خیال یہ آتا ہے کہ جیسے کسی مصروف جگہ پر بم دھماکہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے اجسام جل کٹ کر بکھر گئے ہیں۔ جتنا مشکل کام ان بکھرے ہوئے اعضاء کو جوڑ کر کسی ایک جسم کو تیار کرنا ہے، اتنا ہی مشکل ادھ جلے اوراق کو مرتب کر کے ایک کتاب تشکیل دینا ہے۔ ناصر عباس نیر نے اس موقع پر کٹے ہوئے اعضاء کو دوبارہ جوڑنے کے سلسلے میں جس قسم کا بیانیہ اختیار کیا ہے اس کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے انور عظیم کا افسانہ “قصہ رات کا” یاد آتا ہے۔ گو کہ “راکھ سے لکھی گئی کتاب” میں بہت دیر تک یہ منظر موجود نہیں رہتا اور یہ ضروری بھی نہیں، لیکن انور عظیم کا مذکورہ افسانہ ایسی ہی صورت حال کو مد نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہے۔ جس پر میں نے اپنی کتاب “انور عظیم کی ادبی کائنات” (مطبوعہ، انجمن ترقی اردو،ہند،2023) میں اظہار خیال کیا ہے۔
افسانے میں ادھ جلے اوراق کا پہلا رشتہ بم دھماکے میں کٹے پھٹے جسموں سے قائم ہوتا ہے۔ لیکن اس خیال سے بھی کتاب کی ترتیب میں راوی کو کوئی خاص مدد نہیں ملتی۔ البتہ ایک مہینے کی ریاضت کے بعد اسے اتنا علم ضرور ہو گیا تھا کہ یہ اوراق قصہ، تاریخ، سفرنامہ اور مذہبی کتابوں سے دلچسپی رکھنے والے کسی باذوق آدمی کے ذریعے جمع کیے گئے تھے۔ جو خاموشی کے ساتھ اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ ان کو دوبارہ جمع کرنے کے لیے کسی ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے۔ اتفاق سے یہ کام افسانے کے راوی کے سپرد ہوا جو کہ تاریخ تہذیب اور مذہب سے واقفیت کے ساتھ بلا کا متجسس بھی ہے۔ یہ تجسس ہی اسے زمانۂ حال سے ماضی میں لے جاتا ہے اور یہیں سے افسانہ ایک داستانوی فضا اختیار کر لیتا ہے۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے ایک معمولی ملازم کو اس کی حساسیت اور علم دوستی کے سبب ایسی دنیا میں داخل کر دیا ہے جو تلاش و تعبیر کی جنت سے کم نہیں۔ کتابوں کا قدردان یہ شخص ایک آوارہ گرد سیاح ہے۔ کتابوں سے علم حاصل کرنے کے ساتھ تاریخی مقامات، کھنڈر اور باقیات سے براہ راست نتائج اخذ کرنے میں بھی اسے ملکہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے گفتگو کرنا بالکل بند کر دیتا ہے۔ خاموش جستجو اور سیاحت کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ پہلے پہل اپنے علاقے سے کچھ میل فاصلے پر موجود ایک پرانے قلعے میں وقت صرف کرتا ہے۔ قلعے کے سلسلے میں اسے کتابی معلومات سے زیادہ یہ جاننے میں تجسس ہوتا ہے کہ بادشاہ اپنے محل میں اپنی خلوت میں کیا کرتا تھا؟ جب ایک دوسرا سیاح اس سے کہتا ہے کہ بادشاہ خلوت میں تو بادشاہ ہی نہیں ہوتا! تو راوی جواب دیتا ہے کہ تبھی تو وہ آدمی ہوتا ہے۔ گویا راوی بادشاہت میں آدمیت کے عناصر تلاش کر رہا تھا، اور غیر مذکور طور پر اسے حیرت ہو رہی تھی کہ ایک آدمی اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، تعمیر کے وقت اسی قلعے کی دیوار میں کتنے ہی مزدوروں اور کسانوں کو چنوا دیتا ہے۔
راوی کی بادشاہت میں آدمیت کی تلاش اس وقت مکمل ہوتی ہے جب وہ خلوت کے مقام پر کئی دنوں تک تنہا وقت گزارتا ہے اور پھر کچھ عورتیں آ کر اس کے دائیں بائیں پہلو سے پہلو ملا کر اور حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر ان عورتوں کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ پہلا غیر یقینی واقعہ ہے جو راوی کو داستان کے کسی کردار سے قریب کر دیتا ہے۔ یہ قربت مزید بڑھتی ہے اور راوی کی خاموشی نامعلوم آوازوں کی سماعت کی نذر ہو جاتی ہے۔ ادھ جلے اوراق کی ترتیب کا کام ابھی نامکمل ہے اور اس کا تجسس اسے کسی نامعلوم غار کی سمت لے جاتا ہے۔ یہ غار طلسمات کا نگار خانہ ہے۔ سر شام غار کے دہانے پر کندہ تصویریں بولتی ہیں، اور ان سب کے مجموعے سے کسی ایک ہی آدمی کی پیدائش،بچپن ، جوانی، بڑھاپا ، موت اور موت کے بعد زندگی کی تصویر برآمد ہوتی ہے۔ غار سے آنے والی سرگوشیوں کو سمجھنے کی کوشش میں راوی خاموشی کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور وہ کسی عجیب سی دنیا میں میں محو ہو جاتا ہے۔ جب آنکھ کھلتی ہے تو اس کے سامنے ایک نیا انکشاف ہوتا ہے۔ کوئی اس سے کہہ رہا ہوتا ہے: “دنیا غار نہیں ہے۔ غار دنیا نہیں ہے۔ غار دنیا میں نہیں ہے۔ آدمی غار سے نہیں نکلا۔ غار آدمی سے نہیں نکلا۔ کوئی غار میں ہے، نہ غار میں کچھ ہے۔ جو کچھ ہے، وہ کچھ نہیں ہے۔”
افسانے میں یہی وہ لمحہ ہے جو راوی کے مہینوں کے تجسس اور تلاش کو ایک کشف کی صورت حل کرتا نظر آتا ہے۔ اس واقعے کے بعد ہی راوی محسوس کرتا ہے کہ ادھ جلے اوراق وہی باتیں کر رہے ہیں جو باتیں اسے غار میں سنائی دے رہی تھیں۔ اب اس کے سامنے کوئی ورق بے ربط نہیں تھا اور نہ ہی ان کے درمیان تسلسل کے دریافت میں اسے کوئی مشکل درپیش تھی۔ اس واقعے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راوی وہ ساری باتیں غار میں سن چکا ہے جو ان اوراق میں بکھری پڑی ہیں۔ اب اس کا کام بس اتنا ہے کہ اوراق کو یکجا کر دیا جائے۔ اوراق سے بیان ہوتی داستان جہاں ادھوری رہ جاتی ہے راوی کی یادداشت اسے مکمل کرنے لگتی ہے۔ راوی نہ صرف ان اوراق کے درمیان تسلسل کو دریافت کرتا ہے بلکہ اس کے سامنے یہ نقطہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ دنیا کی ہر کتاب ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ تعلق کس قسم کا ہے۔
اس راز کو دریافت کر لینا راوی کی الجھنوں کو ختم نہیں کرتا۔ حیرت اور استعجاب کا اگلا در اس وقت وا ہوتا ہے جب راوی کتاب مرتب کرنے کے بعد اسے سنانا شروع کرتا ہے، اور سناتے ہوئے ایک دن وہ غیر معمولی واقعات سے دوچار ہوتا ہے۔ پہلا واقعہ مہینوں کی ریاضت کے بعد مرتب کی گئی اس کتاب پر دیے کے گر جانے یا گرا دینے کا ہے۔ گویا آگ سے محفوظ رہ گئے اوراق بھی محفوظ نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ کتاب کا سننے والا خود وہ شخص ہے جس نے راوی کو ملازمت پر رکھا تھا۔ ملازمت پر رکھنے والا یہ شخص کتاب سننے کے بعد اپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کی خوشی محض عارضی تھی۔ اگلے دن معلوم ہوتا ہے کہ جلی ہوئی کتابوں کی راکھ کے علاوہ کمرے میں بھی راکھ کا ایک ڈھیر پڑا ہوا ہے۔ اور وہ شخص غائب ہے۔ راکھ کے گرد ایک پلندہ بھی ملتا ہے جسے کھولنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو ایک مکمل کتاب ہے۔
افسانہ اس مقام پر اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے لیکن راوی کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن کو بھی دوبارہ اس سمت موڑ دیتا ہے جہاں راوی کہتا ہے کہ مخصوص طبقے کی کتابیں مخصوص لوگ جلا دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کتابوں سے چھٹکارا تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب کتاب لکھنے والوں کے ہی ہاتھ قلم کر دئیے جائیں اور جس گھر میں کتابیں رکھی ہوں انھیں نذر آتش کر دیا جائے۔ افسانہ کے اختتام پر وہ شخص غائب ہے جس نے جلے ہوئے اوراق کو مرتب کرانے کا کام کیا ہے، البتہ ایک پلندہ ملتا ہے، یعنی وہ شخص بھی راکھ میں تبدیل کر دیا گیا۔ لیکن اس کی راکھ ہوا میں اڑنے کے بجائے ایک کتاب کی روشنائی ثابت ہوئی۔ اور یہی کتاب “راکھ سے لکھی گئی کتاب” ہے۔ گویا راکھ سے لکھی گئی کتاب کوئی عام کتاب نہیں بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت اور علم و فن کو محفوظ رکھنے کے لیے مصنف کے خاک و خون سے لکھی گئی کتاب ہے، جو علم اور روایت کو محفوظ رکھنے کے لیے دی جانے والی قربانی کا بیانیہ ہے۔
ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply