مایا کو ڈھونڈ نکالا/ ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے

سالہا سال بیت جانے کے بعد ایک رات مجھے مایا بہت یاد آئی تھی۔ اس کا حال جاننے کی شدید خواہش نے مجھے بے چین کر دیا تھا۔ میں نے مختلف ٹیلیفون نمبر دھونڈنے کی خاطر پرانی ” فون بکس” کھنگال ڈالی تھیں۔ ملک ملک فون کیے تھے اور چند گھنٹوں میں مایا کو سویڈن میں ڈھونڈ نکالا تھا۔ ماسکو میں رات ڈھل چکی تھی لیکن شکر ہے کہ سویڈن کا وقت ماسکو سے تین گھنٹے پیچھے تھا۔ وہ فون پر میری آواز سن کر حیران ہونے کی بجائے بہت زیادہ خوش ہوئی تھی۔ پھر جب میں نے اسے بتایا تھا کہ میں نے کہاں کہاں فون کیے اور کس طرح اسے ڈھونڈا تھا تو اس نے تحیر کا اظہار اپنی مخصوص کھنکھناتی ہوئی ہنسی کے ساتھ کیا تھا، کہا کچھ نہیں تھا۔ تب غالبا” اس کا سویڈ شوہر نزدیک بیٹھا تھا جو یقینا” انگریزی میں بھی شد بد رکھتا ہوگا۔ شوہر کے بارے میں مایا بتا چکی تھی کہ وہ عمر میں اس سے خاصا بڑا تھا، پیشے کے حوالے سے ماہر امراض دماغی تھا اور “بہت اچھا” ۔

اس کے بعد بھی میری مایا کے ساتھ گاہے بگاہے فون پر بات ہوتی رہی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر کا ایک سکھ دوست بھی ہے۔ جو تب اس کے خاوند کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ مایا نے کہا تھا کہ میں اپنے ہم زبان سے بات کروں لیکن ساتھ ہی دبی زبان سے کہا تھا کہ ” اس کو میرے اور اپنے جسمانی تعلقات کے بارے میں مت بتانا “۔ اس روز مجھے احساس ہوا تھا کہ مرد عورتوں کی نسبت زیادہ حاسد ہوتے ہیں مگر اس کا اظہار زبان سےکم کرتے ہیں البتہ کسی نہ کسی بہانے اس کا نزلہ عورت پر ضرور گراتے ہیں چنانچہ میں نے مایا سے رابطہ رکھنا چھوڑ دیا تھا۔

جن دنوں مایا سے مراسم تھے اس نے مجھ سے کبھی میری زندگی میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔ مایا کی والدہ جو ایک شفیق بوڑھی خاتون تھیں وہ بھی ان دنوں ماسکو میں مقیم تھیں مگر مایا کسی اور رشتے دار کے ہاں رہ رہی تھی۔ جارجیا کے سیاسی و معاشی حالات اچھے نہیں تھے۔ اس کی والدہ میرے دفتر سے مال لے کر یا تو کسی اور کو فراہم کرتی تھیں یا خود کہیں بیچتی تھیں لیکن جارجیائی عادت کے مطابق وہ میرے لیے دیگچے بھر بھر کے گوشت سے تیار کردہ لذید سالن مجھے دفتر میں پہنچا دیا کرتی تھیں جس پر ان کے اس مبینہ منافع کا ایک خاطر خواہ حصہ خرچ ہو جاتا ہوگا جو وہ مجھ سے حاصل کردہ مال سے حاصل کرتی ہونگی

اس کی والدہ کو یقینا” علم نہیں تھا کہ مایا میرے ساتھ راتیں بتانے کی غرض سے اکثر و بیشتر شام ڈھلے میرے دفتر پہنچ جاتی تھی۔ مجھے مایا کے ساتھ گذاری راتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ضروری نہیں کہ حسن چہرے اور بدن میں ہی ہو، حسن حسن سلوک میں ہوتا ہے۔ مایا کا حسن سلوک باکمال اور لازوال تھا۔ مایا کبھی کبھار بہت اداس ہو جاتی تھی۔ میں نے اس سے جب بھی پوچھا کہ وہ اداس کیوں ہے، اس نے ہمیشہ قہقہہ لگا کر کہا تھا نہیں تو، میں بھلا اداس ہونے والی چیز ہوں کیا؟ مجھے تب احساس نہیں ہوا تھا لیکن عرصہ دراز کے بعد سوچا تھا کہ ان دنوں مایا کی اداسی کی وجہ ایک ہی ہو سکتی تھی کہ میں نے کبھی مذاق میں بھی مایا کو اپنی زندگی میں شامل ہونے کی پیشکش نہیں کی تھی۔

مایا کو نینا کے ساتھ میرے گہرے مراسم کا گیان تھا۔ ایسے مراسم جنہیں روس میں میاں بیوی کے مراسم کے طور پر لیا جاتا ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے دوستوں اور رشتوں داروں سے نہ صرف شناسا ہوتے ہیں بلکہ ان کی تقریبات میں بھی مل کر شرکت کرتے ہیں۔ جتنی نینا اچھی تھی مایا اس سے کچھ بڑھ کر اچھی محسوس ہوتی تھی یا شاید اس لیے ایسا لگتا تھا کہ اس کے ساتھ اور طرح کا بندھن تھا۔ میں بہت چاہتا تھا کہ اسے نینا سے ملواوں۔ ایک روز میں مایا کو اپنے ہمراہ نینا کے ہاں لے ہی آیا تھا۔ مایا کے بارے میں میں نینا کو بتاتا ہی رہتا تھا۔ وہ ہمارے تعلقات کی گہرائی بارے استفسار بھی کرتی تھی لیکن میں اسے یقین دلا دیتا کہ مایا صرف فرینڈ ہے گرل فرینڈ نہیں۔ نینا کو اس بارے میں کبھی معلوم نہیں ہو پایا۔ مایا کے شادی شدہ ہونے کے بارے میں جان کر نینا نے میرے کہنے پر مایا سے فون پر بات بھی کی تھی۔ کسی بات پر مایا نے نینا سے کہا تھا کہ مرزا تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بات اس نے میرے ساتھ مراسم کے ختم ہونے کے سولہ سال بعد کہی تھی۔

تب نینا نے مایا سے مل کر خوشی کا اظہار کیا تھا اور خاطر تواضع بھی کی تھی لیکن مشکوک رہی تھی۔ شک تب فزوں تر ہو گیا تھا جب ہم تینوں کہیں جانے کے لیے اکٹھے نکلے تھے اور میں مایا کا ہاتھ پکڑے چلنے ہوئے نینا کو بار بار پیچھے چھوڑ جاتا تھا۔ نینا مجھ سے یہ گلہ دو دہائیاں گذر جانے کے بعد بھی کرتی تھی۔
مایا سے تعلقات ابھی منڈھے نہیں چڑھے تھے کہ میرے حالات بالکل خراب ہونے لگے تھے۔ آمدنی صفر ہو گئی تھی۔ اخراجات بہر طور پورے کرنے ہوتے تھے۔ مینیجر تاجک کی تنخواہ بڑی مشکل سے دی جاتی تھی۔ ظفر نے بھی اجازت مانگ لی تھی کہ اگر مجھے ناگوار نہ گذرے تو وہ کمار نامی ایک ہندوستانی کے دفتر میں جزوی طور پر ہو آیا کرے۔ ظفر براہ راست کوئی معاوضہ یا مشاہرہ موصول نہیں کرتا تھا اس لیے میں نے اسے بخوشی اجازت دے دی تھی۔ وہ دن کے بارہ ایک بجے چلا جاتا تھا اور شام کو لوٹ آتا تھا تاکہ مجھے تھوڑی سی کمپنی دے دے۔ اس کا کزن کہیں اور جا کر رہنے لگا تھا البتہ اس کا سب سے چھوٹا بھائی میری خدمت کے لیے میرے ساتھ دفتر میں رہتا تھا۔

ایک روز شراب نوشی کے بعد میری طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے طور پر کوئی دوائی لی تھی لیکن طبیعت بحال نہ ہو سکی تھی۔ میں نے ظفر کے چھوٹے بھائی اسد کو کہا تھا کہ وہ ظفر کو بلا لائے۔ اس اثنا میں میں ایمرجنسی سروس کو بھی فون کر چکا تھا۔ جب تک ظفر پہنچا تو میری طبیعت خاصی سنبھل گئی تھی۔ میں نے ظفر سے کہا تھا کہ مجھےے غالبا” ” پینیک اٹیک” ہوا تھا جو شدید پریشانی سے ہوجایا کرتا ہے، اسے عرف عام میں “تبخیر معدہ” کہتے ہیں۔ ظفر نے بہت سنجیدگی کے ساتھ گمبھیر لہجے میں کہا تھا، ” ڈاکٹر صاحب، میرا نانا بھی یونہی فوت ہو گیا تھا۔ ہم سمجھتے رہے کہ تبخیر ہے لیکن اسے دل کا دورہ پڑا تھا”۔ میں نے دل ہی دل میں کہا تھا کہ میں نے اچھا اسے اپنی دلجوئی کی خاطر بلایا۔

کوئی ایک گھنٹے بعد ایمرجنسی ٹیم بھی پہنچ گئی تھی۔ ادھیڑ عمر ڈاکٹر مخمور تھا اور پینتیس چھتیس سال کی بھرے بھرے جسم والی خوبرو طویل قامت نرس کے بدن پر صرف “اوورآل” تھا، بیچاری انگیا اور بلاؤز جہاں اتارے ہونگے وہیں بھول آئی تھی۔ میں نے ہلکے ہلکے ڈگمگاتے ہوئے ڈاکٹر سے کہا تھا کہ میری طبیعت یکسر بحال ہو چکی ہے پھر یہ کہ ٹیم نے آنے میں دیر ہی اتنی کر دی تھی کہ اگر خدانخواستہ مجھےے کچھ ہوا ہوتا تو اب تک کچھ کا کچھ ہو چکا ہوتا۔ ڈاکٹر موصوف نے سنی ان سنی کرکے کہا تھا،” تم ڈاکٹر ہو یا میں، فیصلہ مجھے کرنا ہے”۔ یہ کہہ کر اس نے نرس کو دس سی سی کی سرنج میں کوئی چار انجیکشن بھرنے کی ہدایت کی تھی اور بھری سرنج نرس نے میرے سرین میں اتار دی تھی۔ میں نے ڈاکٹر کو بازو پکڑ کر بٹھا لیا تھا کہ آپ دس منٹ تک نہیں جا سکتے کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ اتنی زیادہ دوائی جسم میں اتارنے سے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔

اگلے روز مجھے اتنی نقاہت تھی کہ اٹھنا دشوار تھا۔ خیر میں گاڑی چلا کر نینا کے گھر کے نزدیک ایک ہسپتال پہنچا تھا جو تھا تو سرکاری لیکن اس میں معاوضے پر نجی طبی سروس بھی میسّر تھی۔ میں نے رات کے انجکشنوں کے خالی امپول محفوظ کر لیے تھے جو میں نے ڈاکٹر کو دکھائے تو اس نے پوچھا تھا ” کس احمق نے اتنے ٹیکے اکٹھے لگا دیے؟”

Advertisements
julia rana solicitors

میں بھلا کیا کہتا کیونکہ یہ ان کے ملک کی ایمرجنسی سروس کے ڈاکٹر کا کمال تھا۔ اس ڈاکٹر نے صرف آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ ایمرجنسی ٹیم کے مخمور ڈاکٹر نے غالبا” دوا کی زیادہ مقدار تزریق کروا دی تھی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply