غلبہ اسلام, طاق رات اور تاریک منزلوں کے راہی۔۔۔عدیل عزیز

سن 1095 پوپ اربن دوئم نے ‘یروشلم چلو’ کا نعرہ بلند کیا اور مسیحی دنیا میں جہاد کا بگل بج گیا, شہزادوں نے اپنی دھن دولت , امراء نے اپنی جاگیریں اور عام طبقے نے گھر کی ہر قیمتی چیز بیچ دی اور صلیبیوں کا لشکر جرار یروشلم پر چڑھ دوڑا۔۔یوں پہلی صلیبی جنگ کی ابتداء ہوئی اور یروشلم پر مسیحیوں کا قبضہ ہوگیا اگلے اسی سال تک یروشلم  کی فضاوں میں اذان کی صدا کی جگہ گرجا گھروں کی گھنٹیاں سنائی دیتی تھیں۔ مسجد عمر (رض) کے گنبد پر صلیب لگا کر اسے قربان گاہ بنادیا گیا تھا۔ اور دریائے اردن مسلمانوں اور صلیبیوں کے درمیان حد فاضل قرار پایا۔ ان آٹھ عشروں میں کوئی مسلم فدائی تلوار سونت کر یروشلم میں داخل نہ ہوا۔ نہ پتھر بازی کی اور نہ ہی غلیل سے نشانہ باندھنے کے ہنر دکھائے بلکہ مسلمانوں نے اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کیا۔ اپنا وقت آنے کا انتظار کیا اور تیاری میں لگے رہے۔ یہاں تک سن 1187 میں معرکہ حطین میں مسلم فوجوں نے دوبارہ یروشلم فتح کیا اور اللہ اکبر کی صدائیں پھر سے گونجنی لگیں۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی صلیبی کم سے کم سات بار لشکر جرار لئے مسلمانوں سے ٹکرائے, یورپ کے بادشاہوں نے اپنے باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر یروشلم کی راہ لی, جہاد یروشلم میں شمولیت پر مجرموں کے تمام گناہوں کی معافی اور جنت کی نوید بھی سنائی گئی مگر اسلامی تہذیب کی برتری کے آگے تاریک دور میں جینے والے مغربی نہ ٹھہر سکے اور کبھی سلجوق تو کبھی مملوک امت کی شمشیر زن بن گئے ۔مشہور مورخ ہیرلڈ لیم لکھتا ہے کہ مسیحیوں کی بہادری و استقامت اور اخلاص اور ثابت قدمی کے باجود ان کی پہ در پہ شکستوں سے یورپ کے امراء و عوام تنگ آ گئے اور صلیبی جہادیوں نائٹس ٹملپرز و دیگر جنگجو تنظیموں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا اور اس کے بعد اہل یورپ نے اگلے دو سو سال مسلم تہذیب کے پھلنے پھولنے اور ترقی کے اسباب پر غور و فکر کیا۔ ان کے جدید علوم کو پڑھا اور سمجھا اور یوں مغرب میں تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور حیات نو کا آغاز ہوا۔ جس کا پہلا نتیجہ 1492 میں سقوط غرناطہ اور اسی سال کولمبس کی نئی دنیا کی دریافت کی صورت میں نکلا۔ کیا یہی حالت جو آٹھ سو برس قبل اہل مغرب کی تھی آج مسلم دنیا کی نہیں ہے۔ کیا آج مسلم جہادیوں کو ان کے اپنوں ہی نے بوسنیا سے پاکستان تک ان کے انجام سے دوچار نہیں کیا۔۔ تو ہم کیوں مغربی تہذیب کی برتری کے اسباب پر غور نہیں کرتے ؟کیوں اپنی شکستوں و ناکامیوں کا ادراک نہیں رکھتے؟ کیوں جدید علوم کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بناتے؟۔
کم آبادی والے نیم صنعتی علاقے میں قائم عالی شان مسجد جو شاید کسی سرمایہ دار کے جنت میں محل کی کنجی تھی۔اس میں موجود بیس پچیس نوجوان رمضان المبارک کی طاق رات میں شب بیداری کے پروگرام میں یہ باتیں غور سے سن رہے تھے۔ یہ ایک اسلامی طلبہ تنظیم کے عصری و دینی درسگاہوں سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ذمہ دار تھے جو جاگتی آنکھوں سے غلبہ اسلام کا خواب دیکھتے تھے اور اس محفل میں چند مشترکہ دوستوں کی دعوت پر میں بطور مقرر مدعو تھا۔۔ بات یہاں تک بھی قابل برداشت تھی مگر جب آگے بڑھتے ہوئے کافر لبوں سے یہ نکلا کہ بیسویں صدی کے آغاز  سے اب تک یعنی پچھلے ایک 119 سالوں میں مسلم فوجیں ایک بھی جنگ نہیں جیت سکیں۔ پھر چاہے وہ جنگ بلقان و طرابلس ہو یا جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ, عرب اسرائیل تنازعے پر ہونے والی 1948,1967,1973 کی جنگ ہو کہ پاک بھارت جنگیں, عراق کی دونوں جنگیں ہوں یا جہاد افغانستان و شسم تو غیور نوجوانوں کی سرگوشیاں مجھے سنائی دینی لگیں شاید انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ ہمیں عزیمت کی داستانیں اور علماء ہند کا شاندار ماضی سے اقتباسات سننے کو ملیں گے۔ سرخ ہوتی جبینوں اور کن اکِھیوں سے چلنے والی نشتریات  روکنے کے لئے بات کا رخ تبدیل کیا اور جناب آصف محمود صاحب کی بات کی تصدیق کے لئے سوال و جواب کے سلسلے کا  آغا زکیا ،کہ آپ حضرات کے خیال میں غلبہ اسلام کیسے ممکن ہے تو کسی نوجوان نے جہاد کو واحد حل بتایا تو کسی نے تبلیغ کی برکتیں گنوائی اور اسلاف کے حوالے دیے اور کچھ نے ریشمی رومال تاریخ کی ناکامی کے بعد شیخ الہند کی پیروی میں جمہوریت اور پر امن جدوجہد کو غلبہ اسلام کی منزل جانا۔
بھلے وقتوں میں منبر سے صدائے حق بلند ہوا کرتی تھی اسی لئے منبر پر کھڑا میں ایک بار پھر گویا ہوا۔۔۔ پچھلے سو سال میں ہم نے قفقاز کے پرستانوں سے لے کر عرب کے صحراوں تک جہاد کیا, افریقہ کے جنگلات سے لے کر کشمیر کی برف پوش وادیوں تک صدائے جہاد بلند کی, نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر ہم نے رزم گاہیں سجائیں۔ شوق جہاد ہمیں بحر اوقیانوس کے پار تک لے گیا ۔۔۔مگر کسی جگہ ہمیں کامیابی نہ ملی۔ تبلیغ کا فریضہ بھی صدیوں پہلے سے اب تک ہم نے ادا کیا مگر اس کی بدولت امیر تیمور جیسے فاتحین ہی میسر آئے جن کی تلوار دہلی سے  لے کر انگورہ تک ہمیشہ کلمہ گو کے خلاف ہی اٹھی, پچھلے سو ڈیڑھ سو سال میں جتنی بھی اصلاحی تحریکیں اٹھیں وہ بھی غلبہ اسلام کی منزل حاصل نہ کرسکیں  ۔پھر چاہے وہ جمال الدین افغانی کی تحریک ہو یا ان کے نظریاتی شاگردوں راشد ردا اور محمد عبدہ کی کوششیں, ہند سے اٹھنے والی ّمولانا الیاس کی تبلیغی جماعت ہو یا جماعت اسلامی و ندوۃ العلماء۔
جمہوریت کی بات کریں تو پچھلی ایک صدی میں تین بار اسلام پسند جمہور کی طاقت کے ذریعے کامیاب ہوئے مگر الجزائر و مصر میں مارشل لاء لگا اور اسلامک سالویشن فرنٹ اور اخوان المسلمین خلاف قانون قرار پائی اور حماس کے منتخب وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ بھی معتوب ٹھہرے اور بجائے اتفاق و یگانت کے الفتح و حماس کی باہمی لڑائیوں کا آغاز ہوا۔ غرض یہ کہ جہاد و قتال ہو یا دین کی دعوت و اشاعت یا پھر جمہور کی طاقت کسی بھی راستے سے غلبہ اسلام کی کوشش بر آور نہیں ہوئیں تو بتائیے موجودہ دور میں غلبہ اسلام کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اب نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا حقارت و نفرت بغیر کچھ کہے بھی رویوں سے عیاں تھی۔۔۔۔آخر میں خطاب کرنے والے نامی گرامی مقرر حضرات کے چہرے بھی لال ہورہے تھے, امت مرحومہ کے چنیدہ نوجوانوں کا اجتماع, رمضان کی طاق رات, نصرت دین کے لئے شب بیداری اور یہ ہمارے اکابر کے خلاف بات کر رہا ہے۔ ان کی منزل شہادت تھی لہذاء وہ کامیاب ٹھہرے۔۔ اب یہ دو ٹکے کا صحافی سکھائے گا ہمیں۔ ابھی میری بات ادھوری تھی کہ عزیزم سٹیج سیکڑی حالات کی نزاکت بھانپ گیا اور وقت ختم ہوجانے کا اعلان کیا۔۔میں ایک جانب سے نیچے اترا اور منبر اس کے حق دار کو مل گیا ۔ موضوع ان کا منیجمنٹ تھا مگر غیرت ایمانی کےجوش میں موصوف نے آغاز ہی شریعت کا سہارا لے کر غلبہ اسلام کی جدوجہد میں تاریخ و دیگر تحریکوں کے مطالعے اور قوموں کے عروج و زوال کے فلسفے کو حرام بتانے سے کیا اور کفار کے مرض کا ایک ہی شافی علاج بتایا۔ حالانکہ وہ صاحب خود ایک نجی یونیورسٹی میں ایم بی اے ایگزیکٹو کو پڑھاتے تھے اور فخر سے بتاتے تھے۔
میں سوچ میں پڑ  گیا کہ چند ہزار کی نوکری کے لئے مغربی علوم میں ڈگری حاصل کی جاسکتی ہے مگر غلبہ اسلام کے لئے دنیا کے دیگر انقلابات سے استفادہ  حاصل کرنا حرام ٹھہرا۔۔ وہ بولتے گئے اور نوجوانوں کے مرجھائے چہرے کھلتے گئے۔ ان کی تائید میں مسجد میں بیٹھے چند بزرگ بھی اٹھے اور امت کے زوال کی وجہ موبائل فون کے بے جا استعمال اور انٹرنیٹ کی تباہ کاریوں کو بتایا پھر میری جانب شفقت فرمائی اور دین کی بات کرنے سے پہلے میرے لباس پر اعتراض کیا اور شریعت کی بات کرنے سے پہلے اپنے چہرے پر شریعت اگانے کا حکم نما مشورہ دیتے ہوئے مسجد سے باہر لے آئے۔ منبر سے اٹھنے والی گرج دار آواز اب بھی میرا پیچھا کر رہی تھی
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ  گے
خواب ہوجاؤ گے ،افسانوں میں ڈھل جاؤگے۔۔
دلسوز انداز میں مقرر نے اقبال عظیم کے شعر کو علامہ اقبال سے منسوب کر کے زہریلی گفتگو کے رد میں پڑھا اور میں اللہ کے گھر اور اسلام کے غیور جوانوں کی محفل سے بوجھل قدموں سے باہر کی جانب یہ سوچتے ہوئے بڑھتا رہا کہ طاق راتوں میں بھی ایسے رہبر غلبہ اسلام کے لئے نوجوانوں کو تاریک راہوں کا رستہ دکھاتے ہیں۔ شاید اسی لئے کوئی دوسرا امام الہند , مولانا آزاد سبحانی اور مولانا عبید اللہ سندھی ہم میں پیدا نہیں ہوتا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply