ایک ای میل نے سینکڑوں افراد کی جان خطرے میں ڈال دی

برطانیہ کی افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹنس پالیسی (اراپ) کی انچارج ٹیم کی طرف سے بھیجی گئی ایک ای میل نےدرجنوں افغان ترجمانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

اراپ طالبان کے گزشتہ ماہ ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ای میل ان مترجموں کو بھیجی گئی جو افغانستان میں رہتے ہیں یا دوسرے ممالک میں جانے میں کامیاب رہے ہیں۔

ٹیم نے ترجمانوں کو بتایا کہ وہ ان کو منتقل کرنے میں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اگر آپ کیلئے موجودہ مقام چھوڑنا ممکن نہیں تو اپنے آپ کو یا اپنے خاندان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

ایک مترجم جس نے ای میل موصول کی، اسے پتا چلا کہ 250 سے زائد افغانیوں کے ای میل ایڈریس جنہوں نے برطانوی افواج کے ساتھ کام کیا تھا ای میل میں لکھ دیئے گئے ہیں۔

ای میل وصول کرنے والے مترجم نے بی بی سی کو بتایا ’یہ غلطی مترجموں کی جان لے سکتی ہے ، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ابھی تک افغانستان میں ہیں۔‘

“کچھ مترجمین نے غلطی کو نوٹس نہیں کیا اور انہوں نے پہلے ہی تمام ای میلز کا جواب دیا اور انہوں نے اپنی صورتحال کی وضاحت کی جو کہ بہت خطرناک ہے۔ ای میل میں ان کی پروفائل تصاویر اور رابطے کی تفصیلات شامل ہیں۔”

تیس منٹ بعد ایک اور ای میل بھیجی گئی جس کا عنوان تھا “ارجنٹ – آرپ کیس رابطہ”۔ اس ای میل میں وصول کنندگان کو سابقہ ​​ای میل ڈلیٹ کرنے کا کہا گیا اور بتایا گیا کہ’آپ کے ای میل ایڈریس لیک ہوگئے ہیں‘۔

دوسری ای میل میں مترجمین کو اپنے ای میل ایڈریس تبدیل کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔

برطانیہ کے سیکرٹری دفاع بین والیس نے افغان ترجمانوں کی معلومات لیک ہونے پر تحقیقات کا اغاز کر دیا ہے۔

افغانستان میں برطانوی افواج کیلئے کام کرنے والے درجنوں افغان ترجمانوں کے ای میل پتے شامل ہیں۔ 250 سے زائد افراد برطانیہ منتقل ہونے کے خواہاں ہیں، جن میں سے بہت سے روپوش ہیں۔

غلطی سے وزارت دفاع کی ایک ای میل میں ان سب کے ای میل ایڈریس لکھ دیئے گئے تھے۔

ان کے ای میل ایڈریس تمام وصول کنندگان دیکھ سکتے ہیں، لوگوں کے نام اور کچھ کی متعلقہ پروفائل تصاویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔

مسٹر والیس نے اسے “ناقابل قبول خلاف ورزی” کہا ہے۔ انہوں نے کہا ، “ہم اس خلاف ورزی سے متاثر ہونے والے ہر ایک سے معافی مانگتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔”

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت دفاع اپنی معلومات اور ڈیٹا سنبھالنے کی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے۔وزارت دفاع نے ایک بیان میں معافی بھی مانگی ہے۔

سابق وزیر دفاع جانی مرسر نے کہا کہ ترجمانوں کے ساتھ سلوک “انتہائی شرمناک” رہا ہے اور بہت سے لوگ “آج رات پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں گے۔

لیبر شیڈو ڈیفنس سیکریٹری جان ہیلی نے کہا کہ ڈیٹا کی خلاف ورزی نے “غیر ضروری طور پر زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے” اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر برطانیہ میں ترجمانوں کو لانے کی کوششیں تیز کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دفاعی سلیکٹ کمیٹی کے سربراہ ٹوبیاس ایل ووڈ نے تحقیقات کا خیرمقدم کیا لیکن کہا کہ ترجمانوں کو جلد از جلد ملک سے باہر نکالنا زیادہ دباؤ کا باعث ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply