قومی دھارا یا اشنان گھاٹ۔صاحبزادہ امانت رسول

جماعتیں کیوں بنتی ہیں ؟ سیاسی اورمذہبی جماعتیں طے شدہ مقاصد اور ایجنڈے کے تحت وجود میں آتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ”جمہوری نظام“کے پیراڈائم اور فریم ورک میں تشکیل پاتی ہیں۔ وہ لوگوں کے لیے ملک و قوم کی ترقی اور بہتری کے لیے ایک بہتر آپشن کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ ان کے مقاصد میں جمہوری روایات کا استحکام اقتدار ملنے کی صورت میں داخلہ اور خارجہ معاملات کو صحیح سمت میں لے کر جانا تاکہ ملک وقوم ، بین الاقوامی برادری میں باعزت مقام پا سکے۔ معاشی مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کے لیے اقدامات ، صحت و تعلیم کے شعبوں میں عوام کو بہتر سے بہترین سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ اور اداروں کو کرپشن سے پاک کرنے کاعزم ایسے بہت سے مقاصد ہوتے ہیں ۔ سیاسی جماعت کے راہنماؤں کے خیال کے مطابق ،سابق اور موجودہ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے ، اپنی ذمہ داریاں ادانہیں کر سکیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے اگر عوام انہیں اقتدار سونپے گی تو وہ اِن ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے ادا کریں گے۔

مذہبی جماعتیں اُن مقاصد کے حصول کے لیے وجود میں آتی ہیں جن کا تعلق مذہب سے ہوتا ہے لیکن دباؤ اورتقاضے سماجی ،گروہی اورسیاسی ہوتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کاوجود حالات و ماحول کے مرہون منت ہوتا ہے جس میں گروہی شناخت اورفرقہ وارانہ عصبیت بنیادی عنصر کے طور پر شامل ہوتا ہے۔ مذہب کی بنیادی ساخت اور ہئیت کا ان سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  مذہب کا بنیادی مقصد انسان کا تزکیہ و تنزیہ ہے۔ ایک مسلمان کا سفرزندگی اسی تگ ودو اور کوشش میں گزرتا ہے ۔ اسیِ سفر میں اپنے خالق کی قربت اور تقرب کے لیے وہ وجودِ کائنات اور تخلیقِ عالم کو اپنے تدبر اور تفکر کاہدف بناتا ہے۔ اس کا یہ سفر گروہی اور سماجی اثرات کے مرہون منت نہیں ہوتا بلکہ وہ ان سب پہ اثرانداز ہوتا ہے۔

ایک شخص اپنی زندگی کے قیمتی سال اس میں خرچ کرنے اور’’حقیقت و سچائی‘‘ کو دریافت کرنے کے بعد لوگوں تک اسے پہنچاتا ہے۔ یہ طرزِ فکر اس سے بہت مختلف ہے جس میں ایک شخص مذہبی ، مسلکی،گروہی اور سیاسی مقاصد کے لیے ایک گروپ تشکیل دیتاہے ،مذہب کے نام پہ جماعتوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ہر فرقے میں بلامبالغہ سینکڑوں جماعتیں ہیں ۔ فقط ایک مسلک میں ہی نہیں بلکہ مسلک میں موجود جماعتوں میں بھی دھڑے بندیاں اور گروپس ہیں۔یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ ”دین“ کی تفہیم کے نتیجے میں نہیں بلکہ سیاسی ،مذہبی ، سماجی دباؤ اور ردِّ عمل سے پیدا ہوئی ہیں جن کی منزل دنیا میں اپنے وجود کو زندہ رکھنے کی کوشش اور اقتدار وقوت کا حصول ہے۔

چند سال قبل پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا سیاست میں آنے کا رحجان اس پہلو سے تھا کہ جب وہ اپنے آپ کو ملکی سطح پہ منظم کر لیتے اور مختلف شہروں میں دروس قرآن اور محافل میلادوسیرت کے ذریعہ افرادی قوت حاصل کرنے کے بعد ان کا اگلا ہدف سیاست ہوتا تھا لیکن اب ایک اور رحجان بھی سامنے آیا ہے، وہ جماعتیں جو کالعدم قرار دی گئی تھیں وہ نام بدل کر سیاست میں آ گئیں۔ جیسے سپاہ صحابہ، اہلسنت و الجماعت بن کر ، لشکر طیبہ ،جماعة الدعوة اور اب ملی مسلم لیگ بن کر اور یہ سب کچھ عوام، حکومت اور اداروں کی ناک تلے ہورہاہے۔ہم بحیثیت قوم”تماشا دیکھ“ والی پالیسی مسلسل اختیار کیے رکھتے ہیں اور اس وقت تک اختیار کیے رکھتے ہیں جب تک عالمی برادری چیختی نہیں یاامریکہ ہمیں دھمکیاں نہیں دیتا۔ جب ہم اپنے ”بغل بچوں“ سے برا ت کا اعلان کرتے ہیں اس وقت تک بہت ہی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

گویاسیاست کو ہم نے “اشنان گھاٹ”بنایا ہوا ہے جتنی دہشتگردی کر لو ، بندے مار لو، ریاست وعدالت کے اندر ریاست و عدالت بنا لو۔ 15 سال عوام کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ غریب عوام کو ذبح کرو، اس کے بعد اپناروپ بدلو، سیاسی جماعت بناؤ اور قومی دھارے میں آ جاؤ۔ہم نے یہی پیش کش طالبان کو بھی کی تھی لیکن انہوں نے اس کافر نظام کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔
ایک جماعت جو کالعدم نہیں لیکن اس کا مزاج کالعدم سے کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی قومی دھارے میں آ گئی ہے ۔

حلقہ این اے 120میں 000 5سے زائد ووٹ لے کراس کے رہنما خوش ہیں کہ آئندہ الیکشن میں ہم پورے پاکستان اور آزاد کشمیر سے امیدوار کھڑے کریں گے۔ اس جماعت کی بنیاد ممتاز قادری کی پھانسی ہے، انہوں نے اس کے جنازے میں شریک عوام کو پارلیمنٹ اور ڈی چوک پہ حملے کے لیے اکسانے کی کوشش کی لیکن اندرونی اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے لیکن چالیسویں پہ انہوں نے یہ سب کچھ کر دکھایا۔ جس کے ایک اہم رکن کا یہ بیان سامنے آیاہے کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کر نے کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن میں اعلان کرتا ہوں کہ نواز شریف میرے سامنے جب بھی آیا تو میں اسے قتل کر دوں گا کیونکہ وہ ایک مرتدہے۔ ایسی جماعت بھی اب قومی دھارے میں شامل ہو چکی ہے۔

انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مذہب ہمیشہ ایک آلہ کے طور پر استعمال ہوا ہے معاشرے کے چند ہوشیار چالاک اور ذہین لوگوں نے مذہب کے ذریعے لوگوں کے دل جیتے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کیں تاکہ جو پروگرام اور منصوبہ ان کے دماغ میں مشکّل ہے اسے منصہ شہودپہ لایا جا سکے انہوں نے مذہب کو ہمیشہ ’’موم کی ناک‘‘کی طرح استعمال کیا ۔ جب چاہا اور جس طرح چاہا اسے اپنے عزائم ، خواہشات اور اہداف کےمطابق ڈھال لیا۔

میرے مطابق، جو شخص دین کو سمجھنے کے لیے زندگی وقف کرتا اور حق کودریافت کرنے کی جستجو میں رہتا ہے، ایک تو وہ کسی گروہ، جماعت اور فرقے سے وابستہ نہیں ہوتا، دوسرا اس کا مزاج اور مذاق کبھی جماعتی اور گروہی نہیں ہوتا وہ جس فکروعمل سے Convincedہوتا اور نتیجے تک پہنچتا ہے۔اسے لوگوں تک من و عن پہنچادیتاہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سماج اورافراد کی تشکیل ہر گز ایسے ممکن نہیں ہوسکتی کہ آئے روزہم انقلاب اور تحریکوں کے نام پہ نئے سے نئے گروہ تشکیل دیتے رہیں بلکہ یہ اس وقت ممکن ہے جب ایسے ’’رجال‘‘ پیدا ہوں جو’’دین‘‘ کو گہرائی اور گیرائی سے سمجھیں ،دریافت کا جذبہ رکھیں اور ان کی زندگی اسی جستجو میں بسر ہو۔ چند سیاسی مقاصد اور حکومتوں کادھڑن تختہ کرنے اور لیلیٰ اقتدار کے عشق میں مجنوں بننے کے بجائے وہ خاموشی ،پختگی اوراپنے اعلیٰ کردار کےساتھ اللہ کے دین کے طالب اور مخلوق خدا کے خادم بن جائیں۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply