مُچھ نہیں تے کُچھ نہیں/عاصم کلیار

کتاب کوئی بھی ہو ہمارے حاضر علم سے بہتر ہوتی ہے ۔میں ادب کے طالبعلم کی حیثیت سے یہ بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ کتاب کو صرف علم میں اضافے کے لیے  پڑھنا کیا ایک ادبی بددیانتی نہیں ؟رات دن ٹی۔وی پر تیسرے درجے کی مضحکہ خیز حد تک جانبدار خبریں سننے اور الزام تراشی اور ہنگاموں پر مشتمل نیم سیاسی ٹاک شو دیکھنے کے بعد ہمارے ہاں بحث براۓ بحث کے لیے  خود کو اعداد و شمار سے لیس رکھنے کے لیے  سماجی علوم اور حالات حاضرہ کے بارے لکھی جانے والی کتابیں خوب بِکتی ہیں ۔شیخ رشید اور چوہدری شجاعت حسین کی خودنوشت کا بھی دوسرا ایڈیشن یقیناً چھپنے والا ہو گا مگر “ناممکن کی جستجو” کو پڑھنے والے کتنے لوگ ہوں گے؟ پیرِ کامل نےفروخت کے لحاظ سے راجہ گدھ اور پیار  کا پہلا شہر کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ،مگر آج کے سماجی و معاشرتی حالات کو سمجھنے کے لیے  “ہاؤسنگ سوسائٹی” سے کتنے لوگوں نے مستفید ہونے کی کوشش کی ہوگی۔

تصورِ جاناں کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب میں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے ایک اور تمنّا کی چاہت بھی رکھتے تھے۔
دو یارِ زیرک و از بادۂ کہن دو منی
فراغتی و کتابی و گوشۂ چمنی
من این مقام بہ دنیا و آخرت ندہم
اگرچہ در پی ام افتند ہر دم انجمنی
(حفظ شیرازی)
دو دانا دوست، پرانی شراب کی معقول مقدار، کچھ فراغت، کوئی اچھی کتاب اور چمن کا کوئی گوشہ

مَیں دنیا اور آخرت کے بدلے میں بھی ایسے مقام کا سودا نہ کروں گا، خواہ لمحہ بہ لمحہ ایک سے ایک پُرکشش محفل بھی میرے در پے کیوں نہ ہو۔
(ترجمہ معین نظامی)

شراب کہن کے ساتھ کسی یار دلپذیر کی مجلس میں کتابوں سے اٹھنے والی باس کو محسوس کرتے ہوۓ بوسیدہ اوراق پلٹنے کا تصور ہی کیسا سحر آفرین ہے۔
ایک اور صورت بھی تو ہو سکتی ہے کہ کسی یار گزشتہ کے تصور کو دل و دماغ میں بساۓ ہوۓ سارے سخن ہمارے یا پھر دیوان غالب کو گود کے رحل میں رکھ کر پڑھا جاۓ۔

اس عہد نا مراد جس میں ہر سو پیسے کی لگن نے سوچ و افکار کو صرف جمع کرنے کا ہنر سکھایا ہے جہاں مادی ترقی کے لیے رشتوں کے تقدس کو ختم کرنے کا چلن عام ہو وہاں Laurie reading کسی نعمت سے کم بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟

میں نے پچھلے دنوں میں سپین کے مصور ڈالی کی مونچھوں کے بارے کتاب پڑھتے ہوۓ اس نعمت یعنی Laurier reading سے خوب لطف اٹھایا۔

ڈالی اپنے ایک سے زائد جنموں پر یقین رکھتا تھا مگر بقا صرف اسی ڈالی کو نصیب ہوئی جس نے تخلیق کے ذریعے دوام حاصل کیا ۔ڈالی کے فن پر تو دفتروں کے دفتر لکھے جا چکے ہیں مگر شاید یہ صرف واحد مصور ہی نہیں بلکہ روۓ زمین پر اکیلا آدمی ہی ہو جس کی مونچھوں کے بارے ایک سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

ڈالی بارشوں کی رت میں long coat پہنتا اور شدید سردیاں نیکر میں گزار دیتا۔
کیا ڈالی مونچھیں رکھ کر بھی صرف منفرد نظر آنا چاہتا تھا؟

شاید ایسا ہی ہو۔
مگر ڈالی کا انداز زندگی تو اس بات کا عکاس ہے کہ وہ اپنے اندر نسوانی جذبات اور طور طریقے رکھتا تھا یہ تو کوئی ماہر نفسیات ہی بتا سکتا ہے اس کے علاوہ وہ کیا محرکات تھے کہ ایک پینٹگ میں مونالیزا کے چہرے پر ڈالی نے مونچھیں سجا دیں؟اپنی بیوی گالا کے ساتھ اس نے ایک سے کپڑے پہن کر تصویر بھی بنوائی اور زندگی میں اس کے کئی  مردوں کے ساتھ تعلقات بھی رہے۔

اس کو سکول کے زمانے سے ہی اپنے اوپر بھروسہ تھا کہ زندگی میں ہی دنیا ایک دن عظیم مصور کے طور پر اسے تسلیم کرے  گی، اسں نے مصوری کی تعلیم کے دوران ہی اپنے استاتذہ سے اختلاف کر کے اپنے لیے  افکارِ تازہ کے ساتھ الگ راہ کا انتخاب کیا ،شروع میں وہ عظیم مصور رافیل سے متاثر تھا پھر اس نے نیٹشے سے متاثر ہو کر اسی کی طرح مونچھیں رکھنے کا فیصلہ کیا مگر ہمارا عظیم مصور سیریلزم کی تحریک سے کسی طور ساری عمر وابستہ رہا۔

سیاست اور مارکسزم کے بارے ڈالی نے ایک انٹرویو میں کہا۔
‏Marxism to me was no more important than a fart, except that a fart relieves me and inspires me. Politics seemed to me a cancer on the body poetic

ڈالی نے کئی  بار فلم بنانے کا منصوبہ بنایا ،اس نے لینڈ اسکیپ کی صورت میں ہٹلر کی مونچھیں بھی بنائیں۔

وہ شاعر اور ڈرامہ نگار Lorca کا بھی دوست تھا مگر ڈالی نے اس کے ڈرامے پر تنقید کرتے ہوۓ اسے  ڈرامہ نگار ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ woman of Paris جیسی فلم دیکھنے کے بعد کئی  لوگ پیرس دیکھنے کی حسرت دل میں لے کر ملک راہی عدم ہوۓ مگر کشادہ دل پیرس ڈالی کا منتظر تھا، جہاں اس کی فلمساز Luis bunuel سے مثالی دوستی قائم ہوئی۔

ڈالی نے جِلاوطنی کا کچھ عرصہ امریکہ میں بھی گزارا، جہاں اس کی دوستی مشہور فوٹوگرافر فلیپ ہالسمین سے ہوئی اگر ماہ و سال کے حوالے سے دیکھا جاۓ تو 1904 میں پیدا ہونے والے ڈالی کی 1954 میں مونچھوں کی لمبائی سب سے زیادہ تھی ۔اسی سال فلیپ ہالسمین نے امریکن کرنسی نوٹوں میں سوراخ کر کے ڈالی کی مونچھوں میں لٹکا کر تصویر بنائی، فلیپ کی کھینچی ہوئی ڈالی کی مونچھوں کی تصویروں کو دیکھ کر امریکن معروف اشاعتی ادارے کے مالک نے کہا ،نہ رافیل جیسے مصور کی ناک اور نہ ہی پکاسو کے پاؤں کے بارے کوئی کتاب ہے مگر ڈالی کی مونچھوں پر کتاب ایک اُچھوتا خیال ہو گا ۔یوں 1954 میں ڈالی کی مونچھوں پر پہلی کتاب شائع ہوئی۔

اس کے گھر میں لگنے والی آگ میں وہ  جھلس   گیا۔ 1989 میں مرنے والے ڈالی کو تو شاید لوگ جلد ہی بھول جاتے مگر اس کی مونچھوں کے تذکرے  نے اب تک اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔

ڈالی اکثر اعلان کرتا رہتا کہ وہ کچھ دنوں تک اپنی مونچھیں تراش دے گا مگر وہ زندگی بھر ایسا نہ کر سکا ۔ایک دو بار اس کے دوستوں نے ڈالی کو بتاۓ بغیر اس کی مونچھیں ضرور کاٹ لیں، وہ اپنی مونچھوں کے حوالے سے نا  صرف خبروں کی دنیا میں رہنے کے فن سے آگاہ تھا بلکہ اس کو اپنی مونچھوں کی قدر و قیمت کا بھی پورا اندازہ تھا۔ lanvin چاکلیٹ نے 1968 میں ڈالی کی دس منٹ کی فلم بنائی۔ ڈالی نے ایک منٹ کا ایک ملین ڈالر لیا ۔ڈیلٹا ایئرلائن نے ایک خاص موقع پر اپنے جہازوں پر ڈالی کی مونچھوں کو پینٹ کیا، فلیپ ٹرے سی جیسے فیشن ڈیزائنر نے ملبوسات میں ڈالی کی مونچھوں کو استعمال کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم اہل پنجاب کا محاروہ “مُچھ نہیں تے کچھ نہیں” شاید صرف ڈالی پر ہی صادق آتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply