• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • حقیقت کی حقیقت ؟(“چار درویش اور ایک کچھوا “پر تبصرہ)۔۔۔آدم شیر

حقیقت کی حقیقت ؟(“چار درویش اور ایک کچھوا “پر تبصرہ)۔۔۔آدم شیر

ہمارے بڑے کہہ چکے ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں تاکہ ہم انسانوں کو اور بہتر جان سکیں اور ہماری جھوٹی کہانی اس سچائی سے کہی جانی چاہیے کہ قاری اسے جھوٹ جانتے ہوئے بھی سچ مان لے اور ہم نے یہ بھی پڑھا، سنا یا سوچا ہوگا کہ ایک کہانی میں کچھ اور ہو نہ ہو، دلچسپی ضرور ہونی چاہیے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب ایک جا ہو تو سرشاری سی سرشاری ہوتی ہے اور یہی کیفیت سید کاشف رضا کا ناول چار درویش اور ایک کچھوا پڑھتے ہوئے طاری ہوئی۔

آج کے شمارے میں شائع مسودے کے مطابق اس ناول میں چھ باب بنائے گئے ہیں اور ایک ابتدائیہ بھی ہے جسے آپ پیش لفظ سمجھ سکتے ہیں اور یہ ابتدائیہ بعینہ اہم ہے کہ یہ ناول نگار کے نظریہ فن پر روشنی ڈالتا ہے لیکن جملہ ¿ معترضہ یہ ہے کہ اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ناول میں بھی نظریہ فن واضح ہے۔ بہرکیف ابتدائیہ سے آگے یوں بڑھتے ہیں کہ اس کے چھ باب ہیں اور خوبی یہ ہے کہ یہ جز میں بھی کل ہیں۔ یہی بات ان کے مرکزی کرداروں کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ کردار جہاں مل ملا کر ایک ناول بناتے ہیں، وہیں ناول نگار نے انہیں اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ وہ کچھ کمی بیشی سے الگ الگ افسانے بھی ہیں۔

اس ناول کے مرکزی کردار کچھ یوں ہیں۔
تحصیل دار اقبال خان ہے جو منڈی بہاؤ الدین رہتا ہے، اس کی مختلف عورتوں سے اولاد ہے، ایک بیٹا جاوید اقبال ہے جو رپورٹر ہے اور کراچی رہتا ہے، پہلا بیٹا آفتاب اقبال ہے جو پروفیسر تھا اور اسلام آباد رہا اور تیسرا بیٹا بالا دی ویجی گاٹ ہے جو حرامدا مشہور ہے اور منڈی بہاؤ الدین رہا اور ایک کردار شرارتی کچھوا ہے جو راوی سے زیادہ جاننے کا دعوے دار ہے اور جاوید اقبال کے ساتھ رہتا ہے۔

تبصرہ نگار:آدم شیر

ناول نگار نے مزے کا کام یہ کیا ہے کہ اس نے ایک سطر میں نہیں بتایا کہ یہ باپ بیٹے ہیں بلکہ اس ناول میں کہانی چاروں اور سے آتی ہے اور یہ ناول نگار کی چابکدستی کا برجستہ اظہار ہے کہ وہ کہیں بھی کہانی کا کوئی بھی سرا ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے اگرچہ ایک باب کے متعلق لکھا گیا ہے کہ یہ غیر ضروری ہے اور یہ لکھنا دراصل قاری کے ساتھ شرارت ہے اور فکشن لکھنے والے قاری کے دماغ کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں جو اچھے سے کھیل پاتے ہیں، وہ امکانات کے در وا کرتے ہیں اور جو چوک جاتے ہیں، ان کا لکھا مہمل ہو جاتا ہے اور کاشف رضا اس حوالے سے کامیاب رہے ہیں کہ وہ ناول کو یک جہتی بننے سے بچاتے ہوئے کئی جہات بنا پائے ہیں۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے ایک بات آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ ناول نگار بھی شرارتی آدمی ہیں اور یہ اچھی بات ہے ورنہ وہ خواتین کے کردار کیسے تراش پاتے؟ خواتین کہنا شاید مناسب نہیں، لڑکیوں کے کہہ لیجیے۔ ایک لڑکی مشعال ہے جو جاوید اقبال کی رفیق کار ہے اور وہ پیچھے بیٹھا مشعال کی گردن کی ناڑ تکتا رہتا ہے اور ایک دن ہمت کر کے ایک فقرہ اچھالتا ہے۔
is your bum as cute as it looks
یہیں سے بات بڑھتی ہے اور بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس مقام تک پہنچتی ہے جب جاوید مشعال کو شادی کے لیے آمادہ کر لیتا ہے مگر اسی وقت مشعال کو ترقی مل جاتی ہے اور وہ رپورٹر سے اینکر بن جاتی ہے ا۔ پھر اس میں زرینہ بھابھی ہے جو جاوید کی جنسی مہم جوئی کا حاصل ہے اور اس میں کرینہ کپور بھی ہے اور کرینہ کی تصاویر کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں سراپا بیان کیا گیا ہے ، ناول نگار متاثر کرتا ہے، وہ عورت بدن کی تشریح کرنے بیٹھتا ہے تو چشم تخیل کیا کیا دیکھ لیتی ہے ، کیا کیا بتاؤں۔

چلیں پروفیسر آفتاب اقبال کی طرف چلتے ہیں جو منطق کا آدمی ہے اور فلسفے کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے اور اپنے باپ کی جنسی مہم جوئی یا رومانی ہڑک کا سبب جاننے کے لیے ڈائریاں بھی کھنگالتا ہے ، وہ اپنے کو سپائی نوزا سے کچھ نہ کچھ مماثل بھی پاتا ہے اور اس کی ایک باپردہ شاگرد ہے جو محبوبہ بنتی ہے اور جس کا نام ام سلمیٰ ہے جو پہلے آفتاب سے پروفیسری چھین لیتی ہے اور پھر اپنا آپ سونپ دیتی ہے مگر ایک کسک لیے پھرتی ہے کیونکہ وہ احمدی ماں کے بیٹے سے شادی کر بیٹھی ہے اور یوں وہ جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں مگر ایک کسک سینے میں ہے اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتی ہے ، اسے ماں یاد آتی ہے۔

اب بالا دی ویجی گاٹ کی طرف آتے ہیں ، وہ جسے سارا گاؤں حرامدہ کہتا ہے، جو مردودِ حرم ہے ، جسے سانس ملی، زندگی نہ ملی، وہ جس کی ماں عالمگیر ہے جو ایک گاؤں کی سادہ اور صحت مند عورت ہے جسے تحصیل دار اقبال خان نے حاملہ کر دیا اور گورا چٹا بچہ جنا گیا جبکہ اس کے کانسٹیبل شوہر سے سارے بچے گندمی ہیں اور وہ بالا دی ویجی گاٹ ایک اکیلا گورا چٹا لڑکا ۔۔۔ اور آپ تو جانتے ہیں گورے چٹے لڑکوں کو کیسے کیسے تنگ کیا جاتا ہے اور یہ تنگی ناول نگار نے کمال خوبی سے بیان کی ہے ۔

بالا دی ویجی گاٹ کی کردار نگاری میں کاشف رضا نے کمال ہنر مندی دکھائی ہے جو ایک درد مندی کی لہر بھی اٹھاتی ہے۔ یہ وہی کردار ہے جس پر زندگی چاروں اور سے تنگ کر دی گئی اور وہ ایک آدمی کو قتل کر کے پناہ کی تلاش میں انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ گیا جو ایک بڑے مولانا کے زیراستعمال آیا اور بڑے مولانا نے بالے کے پچھواڑے میں بارود بھر دیا اور انتہا پسندوں کے جتھے نے زندگی سے ملی نفرت کو مہمیز کیا اور جنت کا خواب دکھایا اور پہلے وہ کارساز میں پھٹنے پہنچتا ہے مگر بچ جاتا ہے اور پھر وہ پنڈی پہنچ جاتا ہے اور پہنچ جاتا ہے۔ یہ بالا ویجی گاٹ ایک نہیں بلکہ یہ بہت سارے ہیں جو انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں کیونکہ سماج انہیں دیتا کچھ نہیں، نفرت کے سوا ۔۔۔ اور وہی نفرت وہ سود سمیت واپس کر دیتے ہیں حالانکہ ناول نگار نے واضح کیا ہے کہ وہ زندگی کی رنگینیاں اپنے اندر اتارنا چاہتا ہے مگر کوئی اسے ایسا کرنے نہیں دیتا اور وہ کچھ ایسا کر جاتا ہے جو ضروری نہیں تھا۔

مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں بھٹک گیا ہوں لہٰذا میں اپنے تاثرات مختصر مختصر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے اقبال خان کی بات ضروری ہے جو عورتوں کے لیے دیوانہ رہا ہے اور ایک رات نہر میں اسے دل کا دورہ پڑتا ہے اور مر جاتا ہے اور مرنے سے پہلے وہ جاوید اقبال کی ماں سلطانہ کے متعلق سوچ رہا ہوتا ہے جو اسے مکمل ساتھی لگی، اسے آفتاب اقبال کی ماں امتل یاد آتی ہے جس کے حسن کے سامنے مذہب کی دیوار بھی ڈھیر ہو گئی تھی، پھر اسے بالے حرامدے کی صحت مند ماں عالمگیر یاد آتی ہے جو ایک سپاہی کی بیوی ہے اور ایک بار اس کے جی میں آتا ہے کہ کاش وہ سب مل کے رہ پاتے۔۔۔

اور اب رہ گیا کچھوا ، شرارتی کچھوا جو راوی کو آنکھیں دکھاتا ہے، جو پوجا جاتا ہے، جو حقیقت کی مختلف پرتیں اتار اتار دکھانے کا متمنی ہے اور انگریزی بھی جھاڑتا ہے ۔ انگریزی سے خیال آیا کہ اس ناول میں کاشف رضا نے مختلف زبانوں سے کینوس پر چھینٹے اڑائے ہیں جو منظر کی دلکشی بڑھاتے ہیں۔ کچھ جملے پشتو میں ہیں، کچھ پنجابی میں ہیں، کچھ انگریزی میں ہیں۔ مزے مزے کی گالیاں بھی ہیں اور زیر درختی اور تخلیقی فوطے جیسی دلچسپ تراکیب بھی ہیں۔ ناول نگار نے اردو بیانیہ میں بھی کہیں کہیں انگریزی کے لفظ ٹانک دیے ہیں جو کبھی کردار کی ذہنی کیفیت کے اظہار میں سچائی لاتے ہیں اور کبھی معلوم پڑتا ہے کہ ناول نگار نے اس سے زبان کو بول چال کے مزید قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش اس نے تکنیک کے حوالے سے بھی کی ہے۔ راوی بدل پروگرام سے ناول نگار نے بڑی مہارت سے دو کام لیے ہیں، ایک تو سنسنی سے دلچسپی بڑھتی ہے، دوسرا حقیقت کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ترغیب ملنے کے ساتھ ناول زندگی کے اور قریب آ جاتا ہے اور یوں اس ناول میں زندگی چاروں اور سے آتی ہے، کہانی کے لباس میں لپٹی، کہیں اشتہا انگیز حصے دکھاتی جاتی ہے اور کہیں کراہت بھی لاتی ہے جو حقیقت کا ایک اور رخ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ناول نگار کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ حقیقت تک رسائی کا متمنی ہے اور یہ اشارے جا بجا کرتا ہے کہ حقیقت بعینہ ویسی نہیں ہوتی، جیسی نظر آتی ہے، بلکہ یہ دیکھنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ حقیقت کے کس خانے میں بند ہیں اور انہیں کیسی حقیقت درکار ہے۔ اس ناول میں ہمیں حقیقت کی حقیقت اور تقدیر کی حقیقت کے دو مسائل پر بار بار سوال اٹھتے نظر آتے ہیں اور اگر آپ دیکھنا چاہیں تو آپ کو اس میں فلسفہ بھی نظر آئے گا، تاریخ نظر آئے گی، مذہب نظر آئے گا، فرقہ بندی نظر آئے گی، سیاست نظر آئے گی اور حالات حاضرہ بھی اپنی خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کے ساتھ ملیں گے۔ اس میں عورت اور مرد کی محبت، عورت اور مرد کا تعلق اور جنس کی نفسیات پر بھی عمدگی سے اظہار خیال ملے گا۔
سید کاشف رضا کی جزئیات نگاری پر گرفت، مشاہدے کا پھیلاؤ اور زبان کی تیزی ،انسانوں کے متعلق معلومات اور انسانوں کی صداقتوں اور منافقتوں کا بیان متاثر کن ہے اور اس سے بھی بڑھ کر مصنف کا اپنے الفاظ پر اعتماد خوشگوار حیرت سے آشنا کرتا ہے۔ سید کاشف رضا کی فنی حوالے سے دلچسپ اور فکری حوالے سے گہرا ناول لکھنے پر تحسین واجب ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ ہمیں اور فکر انگیز فسوں پارے دیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply