” تاریخ خوش پور ” کا مطالعاتی تجزیہ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد  

کتاب جہاں انسان کی بہترین دوست ہے وہاں معلومات اور تاریخ انسانیت سے روشناس کروانے میں اہم کردار بھی ادا کرتی ہے۔
ہر لکھاری کا اپنا مزاج دلچسپی اور اسلوب ہوتا ہے جو اسے دوسرے لکھاریوں سے منفرد بناتا ہے۔ اسے پذیرائی اور داد و تحسین کا مستحق بناتا ہے۔شہرت اور نیک نامی بھی عطا کرتا ہے ۔
کتابیں جو ہمیں مختلف علوم و اصناف جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔اس سے لکھاری کی محنت ، لیاقت جذبہ ، اور دلچسپی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، آیا وہ نثری ادب لکھنے کی صلاحیتوں کا مالک ہے یا شعر و شاعری کا دلدادہ ہے۔
یہ ایک فطری آمادگی ہے جہاں لکھاری اپنی دلچسپی و گرفت کے مطابق اصناف کا چناؤ کرتا ہے۔بلاشبہ لکھنے کا رواج صدیوں پرانا ہے۔ یہ اظہار کا خوبصورت اور ناقابل فراموش جذبہ ہے جو ایک لکھاری کو تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پر زندہ رکھتا ہے۔دنیا بھر میں مختلف علوم و فنون پر کتب لکھنے کا سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔مصنف کتاب لکھنے کے لیے جتنے جتن اور تگ و دو اور مشکل حالات سے گزر تا ہے اسی کا جسم و روح جانتا ہے۔
اس کے حسی اعضاء کو کتنا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے؟
کتنی محنت اور کتنی عرق ریزی کرنا پڑتی ہے؟
یہ اسی کے دل، گردے اور جگر کا کام ہے اور اس سے بڑھ کر اس کے ذہن و قلب پر اثر انداز ہونے والے عوامل ، ماحول، اقداروروایات،اثر قبولیت اور تہذیب و تمدن اسے کس طرح لکھنے پر تحریک دیتے ہیں؟ ریسرچ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہے۔تحقیق و جستجو کا خوبصورت بندھن ہے اور محنت و ریاضت کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں اور نہ ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔
آج میرے ہاتھ میں جو کتاب ہے۔
اس کا عنوان * تاریخ خوش پور* ہے۔
بلاشبہ کتاب کا نام قاری کی توجہ کا مستحق ہوتا ہےاور اسے شغف مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔سوچ بچار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔اس سے قبل کتاب کی افادیت پر روشنی ڈالی جائے پہلے مصنف کا مختصر احوال و تعارف بخوشی جان لیتے ہیں۔فاضل دوست کا پورا نام جارج پال ہے۔
وہ علامہ پال ارنسٹ کے فرزند ارجمند ہیں۔اپنے خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ساری زندگی درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ اس لیے لکھنے پڑھنے ، اور تحقیق و جستجو ان کے منشور میں شامل ہے۔ مصنف کا آبائی گاؤں چک نمبر 51 گ۔ ب خوش پور تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد ہے۔ آج کل بلکہ عرصہ دراز سے لاہور( یوحنا آباد) میں مقیم ہیں۔چونکہ خوش پور سے ان کے آباء و اجداد کا تعلق و وابستگی ہے۔اس لیے اس مٹی کی خوشبو انہیں بھاتی ہے۔
انہوں نے کانٹوں پر چل کر ایک تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیا ہے جسے اہل قلم اور تاریخ سے محبت رکھنے والوں نے سراہا ہے۔آبائی جگہ سے محبت ، حالات و واقعات کا علم ، تہذیب و تمدن ، اقدار و روایات ، ثقافتی ورثہ، ایک فطری عمل ہے جو قلب و ذہن میں قدرتی طور پر پرورش پاتا رہتا ہے جسے فاضل دوست نے وقت کو غنیمت جان کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔
فاضل دو ست سے میری پہلی ملاقات 2021 کو نومبر میں پروفیسر جیکب پال کے دولت خانہ پر ہوئی۔پہلی دفعہ ملنے سے اندازہ ہوا وہ ایک کتاب دوست ، ملنسار بھائی ، فن گفتگو اور میل ملاپ کے شیدائی ہیں۔ ملاقات کے بعد انہوں نے مجھے اپنی چھ کتابیں پیش کیں۔یہ میری کوتاہی سمجھ لیں یا وقت کی سزا جس نے مجھے ورق گردانی کا موقع نہیں دیا۔البتہ ہوتا وہی ہے جو قدرت کو منظور نظر ہو۔ انسان وقت کو کبھی بھی اپنے تابع نہیں کر سکتا بلکہ اسے خود وقت کے تابع کرنا پڑتا ہے۔رہنما اور قدرتی اصول ہمیشہ دیرپا اور اٹل ہوتے ہیں۔
اکثر روز مرہ زندگی میں میرے ارد گرد کتابوں اور جرائد و رسائل کا ہجوم رہتا ہے، جس کی وجہ سے میرے بہت سے ذاتی کام بھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اس امر کے باوجود بھی بہت سے دوستوں کی کتابوں کا قرض تبصروں کی صورت میں اتار چکا ہوں۔البتہ جن کا باقی رہ گیا ہے وقت کے ساتھ ساتھ ان کا بھی بہت جلد اتار دوں گا۔
میں سب سے پہلے جناب جارج پال صاحب کو بے شمار کتب تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ان کی شائع شدہ کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ایمان کا محافظ ، گل بہشت ، کہانت کی عظمت ، میں بھی پاکستان ہوں ، حرف حرف سچ، رسولوں کا عقیدہ ، عصر حاضر کی بدعتیں ، گزرے زمانوں کی جستجو ، بین المذاہب ہم آہنگی ، تاریخ خوش پور اور خدا کے دس حکم شائع ہو کر ادبی حلقوں میں پذیرائی اور بہت سے ایورڈ حاصل کر چکی ہیں۔
مصنف نے نثری ادب تخلیق کرنے میں زندگی کے تقریبا چالیس سال صرف کیے ہیں۔ جو ان کی کامیابی و کامرانی کم بولتا ثبوت ہیں۔ ماضی حال اور مستقبل میں انہیں مضمون نویسی اور کالم نگاری نے کتابیں لکھنے پر آمادہ کیا۔اگرچہ انہوں نے مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے مگر ان کی حقیقی پہچان اور رنگ مضمون نویسی میں ہی پوشیدہ ہے۔ اس سے ان کی لگن ، فن اور محنت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کتب لکھنے کے لیے جسم و روح کو کتنا جلایا ہے۔کیونکہ لکھنا ایک اعصاب شکن کام ہے۔ بے شمار کتب کی ورق گردانی کرنا پڑتی ہے، وقت کی قربانی دینا پڑتی ہے ، مطالعہ و مشاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ مختلف لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔اعدادوشمار کے متعلق تحقیق کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر کتاب پایا تکمیل کو پہنچتی ہے۔
کتاب* تاریخ خوش پور * ایک تحقیقی اور ریسرچ پر مبنی کتاب ہے جس میں فاضل دوست نے بڑی محنت، شائستگی ، قرینے اور دلجمی کے ساتھ اس فرض کو نبھایا ہے۔ بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے جس سے خوش پور کی تاریخ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے ایک بڑا، عمدہ ، باوقار اور باکمال کام کیا ہے۔
کتاب گوناں گوں خوبیوں کی مالک ہے۔مصنف نے تاریخ خوش پور کی تاریخ کو آنے والی صدیوں کے لیے امر کیا ہے۔میں انہیں اس نیک، خوبصورت، اچھوتے ، مثالی، تاریخی ، ثقافتی اور نایاب کام پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔انہوں نے اس کتاب میں 1901سے 2020 تک تعلیم ادب ،ثقافت ، معاشرت ، سیاست روحانیت اور الہیات پر منفرد اور حقائق پر مبنی معلومات کو جس خوبصورتی اور ایمانداری کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ تاریخ میں اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ کتاب آنے والی نسلوں کو شعور و آگاہی دے گی ،اپنے آباؤ اجداد کے متعلق معلومات فراہم کرے گی ، مزید تحقیق و جستجو کا چراغ جلائے گی، اپنے گاؤں کی یادوں کا چراغ جلائے گی جس سے ذہنی ، قلبی ، سماجی ، معاشرتی ، ادبی، زمینی ، ثقافتی اور ارتقائی رشتہ بحال رہے گا۔
بلاشبہ جارج پال نے 120 سالوں پر پھیلی ہوئی تاریخ و ثقافت کو اوراق پر منتقل کرکے انفرادیت کا چراغ جلایا ہے۔ شاید یہ شرف مقبولیت اور قلمی استحقاق ان کی مثبت سوچ کا بہترین ترجمان ہے۔میں اس سلسلے میں انہیں خوش پور کا عظیم سپوت ، وفادار بیٹا ، ایماندار نوکر اور نسلوں کا معمار کہوں گا جس نے پوری لگن، توجہ اور تحقیق کا چراغ جلا کر ان لوگوں کو بھی تاریخ میں امر کر دیا ہےجنہوں نے اس گاؤں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔بلاشبہ اس گاؤں سے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے جنم لیا ہے۔بات تعلیم کی ہو یا طب کی، مذہب کی ہو یا سیاست کی ، زراعت کی ہو یا بزنس کی۔ اس میں خوش پور کے لوگوں کا عظیم کردار ہے۔
میں جارج پال صاحب کو اس خوبصورت کاوش پر دل کی اتھاہ گہرائیوں پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔دعا گو ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں علم و ادب کے میدان میں مزید سرخرو کرے۔
ان کے اس تاریخی کام سے خوش پور کی تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply