سفید چادر/ پروفیسر فضل تنہا غرشین

بچپن میں ہم دونوں قاری ولی صاحب کے حجرے اور ماسٹر ریحان صاحب کے سکول میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ہمیں شرارت اور چھیڑ چھاڑ کرنے پر ہمیشہ مار بھی کھانی پڑتی تھی۔ اس نے جماعت پنجم کے بعد سکول کو خیر باد کہا، جب کہ میں نے میٹرک تک اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران میں اس کے محلے میں سر بلال سے انگلش سیکھنے کے بہانے روزانہ اس سے ملاقاتیں اور آنکھ مچولیاں جاری رہیں، مگر اس کی صوفیہ نانی سے مجھے چڑ تھی۔ اباجان چاہتے تھے کہ میٹرک کے بعد کالج پڑھنے کے لیے میں شہر سدھار جاؤں، مگر میں کسی قیمت پر گاؤں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اباجان کے فیصلے نے میرا اضطراب بڑھا دیا تھا اور میرا دلی سکون ہر گزرتے دن کے ساتھ عنقا ہورہا تھا۔ میٹرک کے نتائج اعلان ہونے میں ابھی تین مہینے باقی تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا گاؤں شہر سے کوسوں دور تھا۔ ذرائع ابلاغ اور ذرائع نقل و حمل کافی قدیم تھے۔ دیہاتی ضروریات و دیگر ایمرجنسی ضرورتوں کے لیے ہفتے میں ایک یا دو دفعہ ملک گاور خان کی مزدا شہر جاتی تھی۔ باقی گھریلو چھوٹی چھوٹی ضرورتیں قصبے کی دکانوں سے پوری کی جاتی تھیں۔ ملک گاور خان آسان سودی شرائط کے ساتھ گاؤں میں ضرورت مندوں کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔ وہ ایک امیر کبیر انسان تھے۔ سارے گاؤں والے ان کے اٹھنے، بیٹھنے، لباس، پوشاک اور طرز زندگی سے نہ صرف متاثر تھے بل کہ محدود آمدنی میں بھی ان کی جیسی زندگی گزارنے اور لباس پہننے کی ناکام کوشش بھی کرتے تھے۔ ملک گاور خان کو ہمارے گاؤں میں تہذیب و تمدن کا استعارہ سمجھا جاتا تھا، مگر دیہاتی معاملات میں ملک صاحب کا فیصلہ حرف آخر ہوا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ شہر سے واپسی پر اپنے گھر کے لیے انوکھے اور مہنگے برتن، کپڑے وغیرہ سامان ضرور ساتھ لاتے، اور پھر مہینا بھر گاؤں میں اس کی دھوم مچتی تھی۔ بعض غریب خاندانوں نے اپنے بچوں اور خواتین کو ملک گاور خان کے گھر جانے سے منع بھی کیا تھا کہ وہ ان کے روز روز کے مہنگے ڈیمانڈز سے تنگ آئے تھے۔ اباجان نے بھی اماں کو وہاں روزانہ جانے سے سختی سے منع کیا تھا، مگر ماؤں کو کون روک سکتا ہے۔ اس دفعہ ملک گاور خان نے اپنی بیگم بلقیس خاتون کے لیے مینا بازار سے بلوچی دست کاری، قندھاری کشیدہ کاری اور سواتی کڑھائی والی خوب صورت سفید چادر خرید کے لائی تھی۔
میں حسبِ معمول سر بلال سے انگلش ٹیوشن پڑھنے کے بعد عقب والی گلی کے نکڑ پر ٹہل رہا تھا کہ صوفیہ نانی سے روز یہاں ٹہلنے، گھومنے اور گھورنے پر سرزنش کھائی اور آئندہ ایسا کرنے پر حکام بالا سے پٹوانے کی وعید بھی سنائی۔ مجھے پہلی مرتبہ بے نیل مرام گھر واپسی کا بے حد افسوس ہورہا تھا۔ گھر میں کسی کو میری اداسی کی فکر نہ ہوئی۔ گھر میں اماں اور آپاجان بلقیس خاتون کی نئی چادر کی تعریفوں میں مصروف تھیں۔ کرکٹ کھیلنے گیا تو وہاں بھی سفید چادر کا چرچا تھا۔ شام کی نماز کے بعد مسجد سے باہر دوستوں کے ساتھ جی بہلانا چاہا تو وہاں بھی سفید چادر کا ذکر جوش و خروش سے جاری تھا، مجھے سفید چادر میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ میرے لیے صوفیہ نانی ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔
وقت تیزی سے نکلتا جارہا تھا۔ مجھے حد سے حد ایک بار اس سے ملنا ضروری ہوگیا تھا۔ کئی آنکھ مچولیوں کے بعد بالآخر اس سے ملنے میں کامیابی مل ہی گئی۔ اس ہیجان انگیز ملاقات میں ڈھیر ساری باتیں ہوئیں اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے پایا گیا۔ واپسی پر میں نے فرطِ جذبات سے معمور ہوکر پوچھا: “اگلی ملاقات پر تمھیں کیا تحفہ چاہیے؟” وہ کہنے لگی: “بلقیس خاتون کی جیسی سفید چادر”۔ میں چند لمحے کے لیے ساکت رہا، پھر پکا وعدہ کرکے چل دیا۔ رخصتی کا یہ منظر مجھے یاد نہیں رہتا۔
زندگی میں پہلی مرتبہ اماں اور آپاجان سے ملنے کے لیے پرجوش ہورہا تھا۔ ان کی تازہ اطلاعات کے مطابق سفید چادر بہت مہنگی تھی جو شہر کے مینا بازار میں صرف روشن استاد کی دکان میں دستیاب ہوا کرتی تھی۔ رات بھر سفید چادر خریدنے کی تراکیب سوچتا۔ سفید چادر اتنی مہنگی تھی کہ اگر چند آنے اباجان سے، چند چونیاں اماں سے اور چند اٹھنیاں آپاجان سے لیتا، تب بھی اس سے سفید چادر نہیں خریدی جاسکتی تھی۔ کئی بار گھر کی قیمتی چیزوں کے بیچنے اور چوری چکاری کرنے کا منصوبہ بھی بنایا، لیکن محبت کی فضا کو فریب کے غبار سے آلودہ نہیں کرسکتا تھا۔ آخر کار اپنے گہرے دوست یعنی ملک گاور خان کے بیٹے عباس نے اس حوالے سے جو مشورہ دیا اسی کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔
اباجان فطرتاً سخت مزاج اور کفایت شعار تھے۔ خدا خدا کرکے میں نے اباجان سے میٹرک کے نتائج کا اعلان ہونے تک کالج کے انٹری ٹسٹ کی تیاری کے لیے شہر میں رہنے کی اجازت چاہی، مگر وہ نہ مانے۔ اگلے دن عباس نے چند آنے دے کر کسی طریقے سے مجھے شہر پہنچا دیا۔ میں عباس کا ممنون ہو رہا تھا۔ میں نے اباجان کے لیے عباس کو ایک خط دیا کہ میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے سلسلے میں شہر آیا ہوں اور میٹرک کے نتائج اعلان ہونے کے فوراً بعد گاؤں آؤں گا۔
شہر سے تقریباً ایک میل دور مجھے سیمنٹ کے کارخانے میں مناسب اجرت پر مزدوری مل گئی۔ دو مہینے خوب محنت مزدوری کی۔ اس دوران میں اباجان نے مجھے شہر میں متعدد بار ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی، مگر ناکام رہا تھا۔
دو مہینے مسلسل محنت و مزدوری کرنے کے بعد میں روشن استاد کی دکان سے سفید چادر خریدنے کا قابل ہوچکا تھا، سو میں نے سفید چادر اور گھر والوں کے لیے چند تحائف خرید کر گاؤں جانے کا ارادہ کیا۔ میٹرک کے نتائج کا اعلان بھی ہوا تھا اور میں نمایاں نمبروں سے پاس ہوا تھا۔ آج ملک گاور خان کی مزدا نہیں آئی ہوئی تھی، سو مجھے وادی گاؤں سے چند میل کی مسافت پیدل طے کرنا پڑی۔ سفید چادر کا قیمتی تحفہ میٹھے چشمے کے بالمقابل شاہ بلوط کے نیچے چھپایا اور باقی تحائف لے کر شام کو دیر سے گھر پہنچا۔
گھر پہنچنے پر میرا خوب استقبال کیا گیا۔ اباجان، اماں اور آپاجان سب خوش ہونے کے ساتھ ساتھ خاموش اور ضبط کا مجسمہ تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ فرطِ جذبات میں ایسا ہونا فطرتی امر ہے۔ میں نے ان میں تحائف تقسیم کیے، کھانا کھایا اور سوگیا۔ صبح ناشتے کے بعد دوستوں سے ملنے، عباس کا شکریہ ادا کرنے اور سفید چادر کو حسبِ وعدہ اس کو پہنچانے کا ارادہ تھا کہ اباجان نے بتایا کہ شہر سے آنے والے مسافر عموماً سب سے پہلے اپنے گاؤں میں بیماروں کی عیادت کرتے ہیں، مرنے والوں کا فاتحہ پڑھتے ہیں اور نئے شادی شدہ دوستوں کو مبارک باد دیتے ہیں۔ میں نے ہاں میں ہاں ملا دی اور چل پڑے۔
سب سے پہلے حاجی رشید چاچا کی عیادت کی، پھر اکبر کو شادی کی مبارکباد دی اور آخر میں اباجان کے ساتھ صوفیہ نانی کے گھر کی طرف چل دیے۔ اباجان سے وہاں جانے کی وجہ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ وہاں سر بلال، قاری ولی صاحب، ماسٹر ریحان صاحب اور ملک گاور خان پہلے ہی سے موجود تھے۔ مختصر سی دعا ہوئی کہ اللہ تعالی مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔ آمین۔ اباجان کو یہاں سے جانے کیوں رخصت ہونے کی جلدی تھی، سو ہم نکل پڑے۔ اباجان خاموش تھے اور میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ آخر ضرور صوفیہ نانی اللہ کو پیاری ہوگئی ہوگی، کیوں کہ آخر صوفیہ نانی ہی اس گھر میں واحد بڑھیا تھی جو موت کی اصل حق دار تھی۔
میٹھے چشمے تک پہنچے تو اباجان نے تھوڑی دیر کے لیے شاہ بلوط کی چھاؤں میں بیٹھنے کا کہا۔ ہم دونوں شاہ بلوط کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ اباجان نے میرے شہر جانے کی وجہ دریافت کی۔ میں خاموش رہا۔ انھوں نے مجھ سے پسند کی شادی کے متعلق پوچھا۔ میں نے معصومیت کا اظہار کیا۔ میری وحشت ناک خاموشی سے تنگ آکر اباجان نے تمام ماجرا سنایا کہ کس طرح ہانیہ کی امی نے میری امی سے میرے اور ہانیہ کے رشتے طے کرنے کی منت سماجت کی تھی۔ اور کس طرح اباجان نے مجھے ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ میں پرجوش ہورہا تھا۔ اس حساس معاملے کو اباجان سے خفیہ رکھنے کا ان کو بڑا قلق تھا۔ اباجان نے جذباتی ہوکر پوچھا: “شہر جاکر تم نے کیا پایا؟” “سفید چادر، جو اسی شاہ بلوط کے نیچے میں نے چھپایا ہے۔” میں نے جواب دیا۔ چند لمحوں میں سفید چادر اباجان کے ہاتھوں میں تھی جس کا وہ بہ غور جائزہ لے رہا تھا۔ میرے دل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں۔ اباجان نے سامنے گلاب کے پودے سے چند پھول توڑنے کے لانے کا کہا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اباجان نے سفید چادر اور پھولوں کا گلدستہ مجھے تھما کے آگے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ میں ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ اباجان نے ہانیہ کے گھر کی گلی کے بجائے قبرستان کی جانب چلنے کی ہدایت کی۔ میرا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ میں نے وہاں جانے کی وجہ دریافت کی تو گویا ہوئے: “ریاض بیٹا! قبرستان محبتوں کا مخزن ہوتا ہے۔ کیوں نہ پہلے ان کی محبتوں کو خراج عقیدت پیش کریں۔” میں نے گہری سانس لی۔ گویا مجھے دوسری زندگی مل گئی تھی۔ اباجان نے ایک تازہ قبر (جس کے سرھانے ایک برقعہ پوش عورت بیٹھی بین کر رہی تھی) پر سفید چادر چڑھانے اور پھول نچھاور کرنے کا کہا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور تمام مرحومین کو دعا دی۔ واپسی پر میں نے اباجان سے سفید چادر کی اہمیت پر بات کرنا چاہی تو وہ زار و قطار رونے لگے۔ میں مبہوت کھڑا تھا کہ تازہ قبر کے سرھانے بیٹھی عورت نے میرے قریب آکر برقعہ چہرے سے ہٹایا اور بولنے لگی: “سفید چادر چڑھانے اور پھول نچھاور کرنے سے میری بیٹی زندہ نہیں ہوسکتی۔ میری بیٹی کے قاتل تم ہو۔ تم ہو میری بیٹی کے قاتل۔۔۔۔۔” یہ صوفیہ نانی مسلسل بولتی جارہی تھی۔ اباجان نے مجھے یہاں سے جانے کا اشارہ کیا، اور ہم چل دیے۔ چلتے چلتے اباجان نے بتایا کہ میرے جانے کے فوراً بعد ملک گاور خان نے عباس کے لیے ہانیہ کا ہاتھ مانگا تھا، اور ہانیہ نے انکار کیا تھا۔ اس انکار کے بعد جب ملک گاور خان نے ہانیہ کا نکاح عباس سے زبردستی کرایا تو ہانیہ نے زہر پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply