جب زمین محسنوں پہ تنگ ہو جائے/محمد سلیم

بنگلہ دیش میں آجکل مشہور زمانہ غریب نواز نوبل انعام یافتہ 83 سالہ پروفیسر محمد یونس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور انہیں بہت سارے ایسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں ان پر مالی بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں، ان پر بیسیوں نئے مقدمات حالیہ چند ہفتوں میں بھی قائم کیئے گئے ہیں۔

محمد یونس نے بنگلہ دیش میں مایکروفنانسنگ کا تصور دیا اور ایسے بیحال اور مسکین لوگوں کو چھوٹھے چھوٹے قرض دیکر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جن کو کوئی منہ بھی نہیں لگاتا تھا۔ ان سے قرض لینے والے فقیر فقراء اور بھکاری بھی شامل ہیں جن میں سے اکثریت عورتوں کی ہے۔ ان کے ٹارگٹ ایسے غریب لوگ تھے جنہیں کوئی ذاتی شناخت یا ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے بنک قرض نہیں دیتے تھے۔ یا ایسے غریب لوگ تھے جو مقامی ساہوکاروں سے قرض لیکر سود در سود اور نسل در نسل شکنجے میں پھنسے ہوئے تھے۔

ھلیری کلنٹن نے ایک کمپین چلا کر باراک اوبامہ، بانک کی مون، بہت سارے عالمی شہرت یافتہ پروفیسرز اور دیگر عالمی سرکردہ راہنماؑؤں کے 170دستخطوں کے ساتھ وزیر اعظم حسینہ کو ایک کھلا خط لکھ کر التجا کی ہے کہ محمد یونس پر سے حصار اٹھایا جائے، ان کے مقدمات ختم کیئے جائیں اور انہیں اپنا مشن جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

حسینہ واجد نے 170 عالمی راہنماؤں کے خط کے جواب میں محمد یونس کے بارے ایک لفظ “بھکاری” کہا ہے اور اسے غریب عوام کا خون چوسنے والا درندہ قرار دیا ہے۔

غریب کو کھانے کیلیئے مچھلی نہ دو، اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو مقولہ کے خالق کو مائکروفنانسنگ اور غریبوں کو قرض دیکر باعزت روزگار والا بنانے کا خیال انہیں تب آیا تھا جب وہ چٹاگانگ کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ابتدا میں انہوں نے اپنے گھر کے اطراف میں سینکڑوں لوگوں کو قرض دیکر غربت کی دلدل سے نکالا، بعد میں انہوں نے “گرامین بنک” قائم کرکے اسے بڑے پیمانے پر ملک میں پھیلایا۔ ان کے اس تجربہ سے دنیا کے کئی ممالک میں ان کے طریقہ پر مائکروفنانسنگ کی ابتداء ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محمد یونس پر لگے الزامات میں نوبل انعام کی پرائز منی کو ڈیکلیئر نہ کرنا، اپنی ایک کتاب کی رائیلیٹی سے وصول پیسوں پر ٹیکس نہ دینا اور چند غیر ملکی ٹرانزیکشنز کا ظاہر نہ کرنا شامل ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply