آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان لفٹر سے گرے تھے تو پی ٹی آئی کے کارکن شوکت خانم ہسپتال کے باہر دھاڑیں مار مارکر رورہے تھے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک عمران خان کے بارے میں مثبت خبر نہ سنی۔ کارکن خان صاحب کو صرف ایک نظر دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ عمران خان سے اس کے کارکن اور پرستارشدید قسم کی محبت کرتے ہیں۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر اس دو نومبر کو عمران کینٹینر کے بجائے قاضی حسین آحمد کی طرح اسلام آباد کے ایک سیکٹر سے اچانک نمودار ہو اور زیادہ نہیں بلکہ دو سے تین ہزار کارکن بھی اس کے ہمراہ ہو۔ اور پھر وہ اس طرح مار کھائے جیسے قاضی صاحب اور دیگر اکابرین سیاست (خاص کر پیپلز پارٹی) کا خاصہ ہوا کرتا تھا اور پھر اس کی فوٹیج سما، اے آر وائی اور دیگر پرو پی ٹی آئی چینلز مغموم دھنوں کے ساتھ نشر کریں تو پی ٹی آئی کے کارکن کیا کچھ نہیں کریں گے۔
لیکن اگر آپ رات بنی گالہ گزاریں اور شیلنگ کے دوران آپ کنٹینر کے اندر چلے جائیں اور ٹیلی فون پر خوشخبریاں وصول کررہے ہو کہ کارکن پی ٹی وی میں داخل ہوگئے اور ریڈیو پاکستان فتح ہوگیا تو پھر آپ کے کارکن بھی یہی کہیں گے ‘‘پولیس والے انکل ماررہے ہیں، ہم کیسے احتجاج کریں‘‘۔
اس لئے محترم عمران خان صاحب سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنا بتایا ہوا سبق خود یاد کرلیں کہ جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی۔ اس لئے اس بار آپ یہ دھمکی نہ دیں کہ میں کارکنوں پر ظلم کرنے والوں کو اپنی ہاتھوں سے پھانسی دوں گا بلکہ اس بار کارکنوں کی جگہ وہ مار کھانے والے آپ بن جائے۔ پھر دیکھنا آپ کے یہ کارکن ان سب کو پھانسی پر چڑھاتے ہیں یا نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں