طفلِ مکتب/گل رحمٰن

میرے ذہن میں نئے نئے خیالات کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھ،لیکن جمہوریت اور آمریت جیسی کئی مشکل اصطلاحات کانوں میں ہروقت گونجتی رہتی تھیں۔ مہنگائی ،مہنگائی اور صرف مہنگائی جیسے الفاظ ، دماغ کو شل کرنے والی آوازیں سُن سُن کر اپنے مستقبل پر نا اُمیدی کا اندھیرا ہی دکھائی دے رہا تھا ۔منہ میں گُو گُو ، گا گا یا ممی بابا جیسے الفاظ ڈالنے کے بجائے گھر والے اوررشتے دار عجیب الفہم لفظوں سے رُو شناس کروا رہے تھے۔مثلا ً پیٹرول، بجلی ، روٹی ۔مانو ہر جگہ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ کبھی حاکم اور کبھی محکوم ، اگر پلڑا ایک کا بھاری ہو تو دوسرے کا نیچے ۔اور نیچے دیکھنا توقوم کے لیے عزت نفس کا معاملہ بن جاتا ہے۔ پورا دن ٹی وی پر مارننگ شوز میں نفرت آمیز بحث مجھے اب ایک خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ویسے بھی آج کل بڑے بوڑھوں کو یہی کہتے سُنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں ۔

یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟

میں کون ہوں ؟

کہاں آ گیا ہوں ؟

میری نسل کی قسمت میں ایسے حالات کیونکر لائے گئے؟

میں اور میرے جیسے کیا کریں ،کہاں جائیں ؟

ہمارے آبا و اجداد ہمیں وراثت میں کیا دے رہے ہیں ؟

میں سوچتا ہوں مجھ جیسے اور کتنے نو مولود بچوں کا مستقبل کیسا ہوگا۔ ہم طفل مکتب آج ذہنی انتشار کا شکار بن رہے ہیں۔معصوم بچپن بے حسی کی نذر  ہو رہا ہے۔جان و مال سے زیادہ روز مرہ کی ضروریات زندگی داؤ پہ لگی ہیں۔

میں کن اکھیوں سے جب کمرے کا جائزہ لیتا ہوں تو اپنے  گرد صرف فکر کی فضا  دیکھتا ہوں ۔ ننھے ننھے ہاتھوں سے گٹھنے کے بل رینگتے ہوئے باپ کی شفقت کا منتظر جب اُس کی انگلی پکڑ کر کھڑا ہونا چاہتا ہے تو کسی بے اعتنائی اور بے پرواہی کی بو محسوس کرتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی کمرے میں چند اونچی گونجنے والی آوازوں میں میری چلنے کی ہمت بھی دم توڑ جاتی ہے۔ میں ڈر  کر سہم جاتا ہوں ۔میں معصومیت سے سب کے چہروں کے فکر آمیز اُتار چڑھاؤ پڑ ھ کہ چپ سادھ لیتا ہوں ۔مجھے فکر ہے کہ میری کلکاریوں کو کہیں کسی کی نظرنہ لگ جائے۔

ان حالات میں کیا میں اور میرے جیسے معصوم جی پائیں گے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بھوک و افلاس سے مرتے مرتے کیا ہم ایک مضبوط اور خوش حال شہری بن پائیں گے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply