مسئلہ تفتان اور آصف غفور صاحب/نذر حافی

سانحہ راجہ بازار راولپنڈی کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جسے وہ سانحہ یاد ہے، اُسے آصف غفور صاحب کا نام بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس سازش کو جس طرح انہوں نے بے نقاب کیا تھا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آج تفتان بارڈر بھی ایک مرتبہ کور کمانڈر کوئٹہ میجر جنرل آصف غفور صاحب کی توجہ چاہتا ہے۔ تفتان ہماری تجارت اور خوشحالی کا یہ دروازہ اب مسافروں کیلئے ایک ڈراونا اور خوفناک مقام بن چکا ہے۔ معاشی پیشرفت اور قومی ترقی کے بجائے یہاں پسماندگی، اسمگلنگ اور رشوت کے مہیب سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کی دیگر ہزار ہا شکایات ایک طرف اور شکایت لگانے کیلئے کسی شکایتی مرکز کا نہ ہونا ایک طرف۔ اس روٹ پر جہاں لوگوں کو ٹرانسپورٹ، کھانے پینے، ادویات اور بیت الخلا تک کی مناسب سہولت مہیا نہیں، وہیں بارڈر پر تعینات عملے کی بداخلاقی اور کرپشن مسافروں کو مزید افسردہ کر دیتی ہے۔ اوپر سے خبریں ریمدان بارڈر کی بھی کچھ اچھی نہیں ہیں۔ زائرین پر لاٹھی چارج، وہ بھی ان دِنوں میں۔ بس اب اسی کی کمی رہ گئی تھی۔

گذشتہ دنوں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں پر مشتمل وفد نے زائرین کے مسائل کے حوالے سے کور کمانڈر کوئٹہ میجر جنرل آصف غفور سے ملاقات کی۔ علامہ مقصود ڈومکی صاحب کے مطابق کور کمانڈر صاحب نے ان مسائل کو انتہائی سنجیدگی سے سُنا اور اپنی جانب سے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی۔چاہیئے تو یہ تھا کہ ہماری ملکی سرحدیں ہماری تجارت و اقتصاد کے رُشد میں اپنا کردار ادا کرتیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی سرحدوں پر اپنے ہی عوام کو رسوا کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق جہاں امیگریشن عملے کے پاس ڈیٹا ریڈنگ ٹیکنالوجی نہیں، وہیں سکیورٹی عملہ بھی اخلاق اور انسانی شرافت سے تہی ہے۔ شکایات صرف سکیورٹی عملے میں مذہبی جنونی افراد کی موجودگی، امیگریشن اسٹاف کی رشوت خوری اور گورنمنٹ ملازمین کی گالی گلوچ تک محددو نہیں۔

مخلوقِ خدا کو ان سے بھی شکایت ہے، جو اپنے آپ کو شیعہ کہتے ہیں اور قافلہ سالاروں کے روپ میں رشوت دے کر اپنے قافلے کو لے کر آگے نکل جاتے ہیں، جبکہ اپنے علاوہ دوسرے زائرین کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ اسی طرح زائرین اُن لوگوں سے بھی شاکی ہیں، جو کانوائے کے نام پر زائرین کو اس لئے محصور کرتے ہیں، تاکہ ان کے بازار، مارکیٹیں اور ہوٹل خوب چلیں۔ یہ سب عوام کی داد و فریاد ہے۔ اس پر ویسے ہی تحقیق اور تفتیش ہونی چاہیئے، جیسے سانحہ راجہ بازار کے کیس میں ہوئی تھی۔ وہاں بھی ایک فرقے کے اپنے ہی لوگوں نے اپنے ہم مسلک لوگوں کو مار دیا تھا۔ تفتان کے مسئلے میں بھی جہاں متعصب صوفی اینڈ کمپنی کو فوری طور پر کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے، وہیں نظم و نسق میں خلل ڈالنے، لوگوں کا استحصال کرنے اور لوگوں سے زبردستی رقم انیٹھنے کیلئے اگر کوئی شیعہ قافلہ سالار یا دیگر کوئی شیعہ گروہ قانون شکنی کرتا ہے تو اُسے بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ رشوت دے کر بہت عبادات ہوچکیں اور بہت زیارات انجام پا چکیں۔

اب عام آدمی کو جینے کا حق دیا جائے، رشوت کے بل بوتے پر غریب زائر اور عام مسافر کا حق نہ مارا جائے۔ لائن، قطار اور صف کی رعایت سب کیلئے ناگزیر قرار دی جائے۔ اسی طرح کانوائے کو لوگوں کے گلے کا پھندا نہ بنایا جائے، لوگوں کی حفاظت کے نام پر انہیں مختلف بہانوں اور حربوں سے محصور اور خوفزدہ کرنے جیسی شکایات پر ایکشن لیا جائے۔ یہ سب ہوسکتا ہے اور سانحہ راجہ بازار راولپنڈی کی مانند آصف غفور صاحب بطریقِ احسن زائرین کے مسائل کے ذمہ دار حقیقی کرداروں کو بے نقاب کرکے قانون کے شکنجے میں کس سکتے ہیں۔ اربابِ اختیار کی توجہ اس طرف بھی رہنی چاہیئے کہ کچھ مسائل فقط محرم الحرام اور چہلم امام حسین ؑ کے موقع پر سامنے آتے ہیں۔ ان ایّام میں زائرین کی تعداد میں اضافہ قطعاً خلافِ توقع نہیں۔ زائرین کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے کانوائے کی غیر یقینی صورتحال، ٹرانسپورٹر حضرات کا کرایوں کو بڑھا دینا، غذائی قلت، ادویات کی عدم دستیابی، بیت الخلا کا انتظام نہ ہونا، امیگریشن کا ناکافی عملہ، رشوت اور بداخلاقی کا گراف بڑھ جانا وغیرہ جیسے مسائل نمایاں ہو جاتے ہیں۔

ان مسائل سے نمٹنے کیلئے محرم الحرام اور صفر المظفر سے کم از کم ایک ماہ پہلے حکومتی اداروں کو پاکستان کی رضاکار تنظیموں، اسکاوٹس، دینی انجمنوں اور مذہبی پارٹیوں سے مدد طلب کرنی چاہیئے۔ پاکستان کے اندر تافتان اور ریمدان میں ایران و عراق کی مانند مخیّر حضرات اور مختلف انجمنوں کی طرف سے موکب یا خیمے لگائے جائیں اور اسکاوٹس و رضاکار تنظیمیں زائرین کو منظم کرنے اور عوامی شکایات کو حل کرنے میں حکومتی اہلکاروں کی مدد کریں۔ اسی طرح رشوت اور بداخلاقی کی روک تھام کیلئے صحافی تنظیموں اور کیمرہ مین حضرات سے بھی مدد لی جائے۔ خود سرکاری اداروں کی فعالیت کو مانیٹر کرنے کیلئے اُن پر کیمرے نصب کئے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ملک ہمارا ہے۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں اس دھرتی کو اپنی ماں سمجھتے ہیں تو اس کی سلامتی، تحفظ اور ترقی کیلئے ہمیں صوفی اینڈ کمپنی جیسے مذہبی جنونیوں اور سانحہ راجہ بازار جیسے منافق کرداروں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب کالی بھیڑیں چاہے عوام میں ہوں یا سرکاری اہلکاروں کی صفوں میں، ان کی نگرانی، تعاقب اور قانونی کارروائی کا فوری انتظام کیا جائے۔ حسبِ ضرورت عوامی شکایات سیل قائم کئے جائیں اور نوٹس نہ لینے کی صورت میں عوام اعلیٰ حکام کے پاس اپنی شکایات درج کرانے میں کسی قسم کی مشکل اور خطرہ محسوس نہ کریں۔ ہمارے ملکی اداروں کیلئے ہمارے مطالعات کا خلاصہ یہی ہے کہ آپ عوام کو تحفظ دیں، ملک محفوظ رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply