• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مذہبی اور فلسفیانہ فکر کے مابین تصادم و تضاد محمد دین جوہر کی نظر میں /عبدالستار

مذہبی اور فلسفیانہ فکر کے مابین تصادم و تضاد محمد دین جوہر کی نظر میں /عبدالستار

گزشتہ دنوں سے محمد دین جوہر کی ایک گفتگو سے استفادہ کر رہا ہوں، بار بار سننے کے بعد بھی کسی واضح نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر رہا۔
زندگی کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے اپنے تئیں علم الکلام کو سمجھنے کی سعی و جستجو کرتا رہتا ہوں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اکابرین مذہب کے پلے تو خیر پہلے سے ہی کچھ نہیں تھا سوائے عاشقانہ آوارگی یا بے بنیاد قسم کی ٹامک ٹوئیاں مارنے کے۔
مگر اب تو جدیدیت کا لبادہ اوڑھنے والے اور ماڈرن ریزن کی اصطلاحات مستعار لے کر روایتی سکول آف تھاٹ کی ترجمانی کرنے والوں کا دامن بھی گزرتے وقت کے ساتھ خالی ہوتا جا رہا ہے۔
ان اصحاب کا بھرم بھی شاید کسی حد تک اس وجہ سے قائم تھا کہ انہوں نے جدید تصورات حیات سے بھرپور استفادہ کیا ہے اور مغربی ادب سے بھی مستفید ہوتے رہتے ہیں، مگر ان کا یہ طنطنہ بھی زیادہ دیر تک قائم رہنے والا نہیں ہے، اب دنیا بہت حد تک بدل چکی ہے۔
بنیادی سوالات آ ج بھی وہیں کے وہیں موجود ہیں مگر جوابات کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں بلکہ جواب کہنا بھی شاید زیادہ مناسب نہ ہو، تاویلیں گھڑنا زیادہ بہتر ہوگا۔
تاویلات و لفظی فریب کے انبار ہیں مگر اوبجیکٹیوٹی زیرو ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کی طرف گزشتہ دنوں احمد جاوید نے بھی نشاندہی فرمائی ہے کہ
“اگر دو لوگ دائرہ مذہب میں داخل ہورہے ہیں تو دس لوگ ملحد بھی بن رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ میں یہ باتیں محض ہوا میں نہیں کر رہا بلکہ اتھینٹک سروے اور حقائق کی بنیاد پر کر رہا ہوں”
اب میں، محمد دین جوہر کی گفتگو کے چند نکات شیئر کرتا ہوں تاکہ اکیسویں صدی میں ہماری روایتی فکر کی ذہنی کسمپرسی و پسماندگی کی واضح تصویر ہمارے سامنے آ سکے، جو انتہائی پست ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔

1۔محمد دین جوہر فرماتے ہیں کہ 1.جدید سائنسی علم ہمارے ایمان کو مزید بہتر و پختہ کرتا چلا جارہا ہے اور مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں اپنے ایمان و ایقان کو پختہ بنانے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے۔

2- قرآن مجید کوئی ریشنل ڈاکیومنٹ نہیں ہے وہ تو محض انسانی فکر و تہذیب کی تعمیرِ  نو کرتی ہے۔

3- ہم مرکزیت سے محروم اور فکری انتشار کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

4- بدقسمتی سے تاریخی یا شہودی معروض یا کوئی بھی آبجیکٹیو ریالٹی جو تاریخ یا فطرت میں ظہور پذیر ہوئی ہے وہ مسلم شعور کا موضوع ہی نہیں ہے بلکہ ہم تو حقائق کو سامنے دیکھ کر بھی حالت انکار میں ہی رہتے ہیں۔

5- بدقسمتی سے ہمارا کوئی ایسا علمی ڈسکورس نہیں ہے جس پر اکثریت کا اتفاق ہو۔

6-مسلمان فزکس کو بے شرمی سے پڑھتے ہیں اور خالص دنیاوی علم میں الہامی علم گھسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اس مضحکہ خیزی کا نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوتا ہے کہ ہمیں نہ تو فزکس آتی ہے اور مذہب بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

7- ہم اس قسم کی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ اگر عقل کی منازل کو طے کرنے میں ہم سے کوئی خطا ہو گئی تو ہمارا دین ہمارے ہاتھ سے چلا جائے گا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں اب رہا کیا ہے؟

8-دین جیسا ہے اسے اسی طرح سے بیان کرنا چاہیے فلسفہ بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔

9- وحی کا تعلق خبر غیب سے ہے، یہ عقل کا متعین کردہ علم نہیں ہے اور نہ ہی اسے عقلی بنیادوں پر پرکھا جاسکتا ہے۔

10-عقل ہمیشہ سچ کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے جب کہ ہمارا سچائی کا تصور طے شدہ ہے اور وہی سچ ہے جو کتاب اللہ اور اللہ نے کہا ہے۔

11- مذہبی عقائد و ضوابط کو انسان کے بنائے ہوئے عقلی معیار پر تولا نہیں جا سکتا اور اگر ہم ان کو انسانی عقل کے پیرائے میں رکھ کر پرکھنے کی کوشش کریں گے تو انکار کی راہ پر چل نکلیں گے۔

12- انسان اپنا سچ خود پیدا کرنے کی ضد رکھتا ہے جبکہ مذہب سچ کا تعین پہلے ہی کر چکا ہے۔

13- اگر انسان چوکس و چوکنا رہے اور اسے ایمان کی رہنمائی حاصل رہے تو وہ عقل کے گھوڑے کو خود پر سوار ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا،عقل کا گھوڑا ایک کامل مذہبی شعور رکھنے والے کو روند کر آگے کیسے بڑھ سکتا ہے، یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے اگر مجھے عقلی گیان حاصل ہو اور پتا ہو کہ عقل کے گھوڑے کی باگیں کیسے تھامی جاتی ہیں۔

14-ہم عقل کو خدا بننے کی اجازت نہیں دیتے اور عقل معصوم الخطا بالکل نہیں ہوتی تو اسے کیسے اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ انسانی ڈیسٹینیشن پر حکمران بنے

15- ہم عقل کو شترِ بے مہار کی طرح آزاد نہیں چھوڑ سکتے، اس کے نتائج کو جائز دائروں میں رکھ کر ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

16- عقل حقائق کا تعین تو کر سکتی ہے مگر سچ کا تعین نہیں کر سکتی اور ہم عقلی دائرہ کار کو چیلنج کر سکتے ہیں اور جینون طریقے سے سوال اٹھا سکتے ہیں کہ وہ جس چیز کی شاہد ہے وہ حتمی سچ کیسے ہے؟۔

17-عقل کا المیہ یہ ہے کہ اس کے دائرہ کار میں صرف “مادہ”ہوتا ہے، فزکس کی صورت میں جب عقل مادے پر اپنی تحقیقات کا آغاز کرتی ہے تو وہ فوراً اس مادے کی اوریجن پر سوال اٹھاتی ہے، یہ سوال عقل کی ضرورت ہے جب تک “آغاز” کا سوال حل نہیں ہوگا تو وہ اپنی استعداد کار کو مکمل طور پر بروئے کار نہیں لا سکتی۔

18-مسلمان اگر اپنے ایمان کو مضبوط کر لیں تو عقل ان کے ایمان سے نہیں ٹکرا سکتی۔

19- بطور مسلمان میرا مذہبی سچ ہی حتمی سچ ہے اور میں اپنے سچ کو ہی ترجیح دوں گا۔

20-آخر میں فرماتے ہیں کہ ہم عقل کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔

لیں جناب یہ محمد دین جوہر کی گفتگو کا لب لباب تھا جو کہ مجموعہ تضادات کا شاہکار ہے،بظاہر لگتا ہے کہ موصوف بہت حد تک کنفیوژ ہیں جو عقل کی بنیادی اہمیت کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر اسے امام ماننے سے انکاری یا تذبذب سے کام لیتے ہیں۔

یہ عقل کو فری ہینڈ دینے سے ڈرتے ہیں اور اس پر روایات اور عقیدے کا کڑا پہرا چاہتے ہیں اور ان کے سسٹم آ ف تھاٹ کا سب سے بڑا واضح تضاد یہی ہے کہ یہ انتہائی ڈھٹائی سے عقلی رویوں کے پرچارک بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عقل کی مرکزی حیثیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں مگر اس کی باگ ڈور انسان کو تھمانے کے قائل نہیں ہیں اور عقل کو روایتی بندوبست کے کنٹرول میں رکھنے کے قائل ہیں۔

ان اصحاب کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ ماڈرن ریزن سے بھرپور استفادہ بھی کرتے ہیں اور اس کے نتائج سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔

ایک ہی وقت میں انسانی فہم و فراست اور شعور پر بھروسہ بھی اور آزاد چھوڑ نے پر گمراہی کا دھڑکا بھی، ان کی تضادبیانیاں، ماڈرن ریزن سے مستعار لے کر اصطلاحی بیان بازیاں اور فلسفیانہ جلیبیاں ان کی فکری کمزوریوں اور زوال کی نشاندہی کرتی ہیں جن کا انہیں بڑے اچھے سے ادراک ہے مگر اپنی فلسفیانہ درگاہوں یا آ ستانوں کی رونق کو ماند کرنا نہیں چاہتے۔

بطور طالب علم ہمارا ان سے سوال ہے کہ اگر مذہب فل اینڈ فائنل اور حتمی سچ ہے تو پھر ڈسکشن کا کیا مقصد؟
کیا بہتر نہیں ہوگا کہ ہم مذہب کو ہر انسان کا نجی معاملہ قرار دے دیں اور تاویلات کی صورت میں لفظی مضحکہ خیزیوں سے اجتناب برتیں۔
کیونکہ بلا وجہ کے یہ تکلفات اکابرینِ مذہب کی کمزوریوں کو مزید واضح کردیتے ہیں اور رہا سہا بھرم بھی جاتا رہتا ہے ۔ جس چیز کو انسانی عقل و فہم ویریفائی نہیں کر سکتی یا ویریفائی کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا تو پھر اسے علم تو نہیں کہا جا سکتا نا، ہاں عقیدہ ضرور کہا جاسکتا ہے اور وہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوسکتا ہے۔
عقل کی بنیادی اہمیت تسلیم کر لینے کے بعد اس جوہر و صلاحیت کو فری ہینڈ دینے میں تذبذب و ہچکچاہٹ کیوں؟
اگر عقل کو امام نہیں بنانا تو پھر اتنی عقل خوانیوں کا کیا مقصد؟
اگر کتاب مقدس میں بار بار تفکر و تدبر کی تکرار اور انسانی فہم کو بروئے کار لانے کی تلقین کی گئی ہے تو صاحبان جبہ و دستار یا فلسفیانہ جلیبیاں بنانے والے اس کے آزاد استعمال سے خائف کیوں ہیں؟
اور انہیں انسانی فکر پر قدغنیں لگانے یا محدود کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟
یہ جس عقل کو عقیدے کے نام پر محدود کرنے کی باتیں کرتے ہیں انہیں اس اختیار کا مالک یا حق کس نے دیا ہے کہ وہ انسانی عقل پر داروغہ بن کے نگرانی کرتے رہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

آ خر میں ایک عاجزانہ سا سوال ہے کہ سائنس یا سائنس دانوں کا کام فقط اتنا سا ہی رہ گیا ہے کہ وہ کائنات کے راز افشا کرتے جائیں اور آ پ کے ایمان کو تقویت بخشتے رہیں؟
اگر ہم اتنے ہی چوزن ون ہیں تو پھر رسوائی ہمارا مقدر کیوں بنتی جارہی ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply