اپاہج پاکستانی/ادریس آزاد

ماشااللہ بچے تو اس لیے زیادہ پیدا کرنے ہیں کیونکہ اسلام میں منصوبہ بندی حرام ہے۔ لیکن جتنے بچے پیدا کرنے ہیں سب معذور ہی پیدا کرنے ہیں، جن کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے ہوں تاکہ ان میں سے کوئی بھی گھر کے اکلوتے کمانے والے کا ساتھ نہ دے سکے۔ اس بیچارے اکلوتے باپ، بھائی یا ماں کا ہاتھ نہ بٹا سکے جس نے دس دس نکموں اورنکھٹوؤں کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اُٹھایاہواہے۔ زیادہ بچے، کمانے والا کوئی ایک، سب کا معاشی بوجھ اُسی ایک پر، اورپھر کہنا پاکستان مقروض کیوں ہے؟ دس دس تلنگے لفنگے کسی ایک بیچارے کے کاندھوں پر سوار، اورپھر غصہ کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ یہ خبیث اگر گھر سے باہر نکلتے، کوئی مزدوری کرتے، کوئی قُلی گیری ہی کرلیتے، تو کیوں لینا پڑتا قرضہ؟ کیوں آس لگانی پڑتی بیرونی سہاروں کی؟

اس پر مستزاد جو خود کو نہیں پال سکتا وہ کہتاہے میری شادی کرا دو! اگر یہ کہہ دو کہ پہلے کوئی کام دھندا تو کرلو، تو وہ بھڑک اُٹھتاہے۔ میں نے اس غصے کا نام رکھاہوا ہے، ’’رشیدی غصہ‘‘۔ یہ ایک خاص قسم کا غصہ ہوتاہے۔ یعنی جب آپ اپنے آپ کو نہ پال سکتے ہوں اور ہرایک سے لڑتے پھریں کہ وہ آپ کو کیوں نہیں پال رہا، تو ایسےغصے کو کہا جاتاہے رشیدی غصہ۔

بِل جلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ مہنگائی غیروں کا سہارا لینے کی وجہ سے آئی ہے۔ بل جلا کر غصہ دکھانے سے ٹل نہیں جائےگی۔ اُٹھ کر اپنے ٹوٹے ہوئے ہاتھوں سے ہی کوئی دھندا کرنا ہوگا۔ کوئی ریڑھی لگانی ہوگی۔ پکوڑے بیچنے ہوں گے یا تیل۔ ایم اے کرکے بیچنا پڑے یا پی ایچ ڈی۔ اپنی ڈگریوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر کام کاج کے لیے باہر نکلنا ہوگا۔ تب جاکر کہیں قرضہ کم ہونے کی اُمید لگائی جاسکتی ہے۔

ماں باپ بھی پہلے پیسہ ویسہ لگا کر انہیں یونیورسٹیوں میں بھیج دیتے ہیں کہ کوئی بڑی ڈگری لے کر کچھ کمانےکے اہل ہوجائیں گے، لیکن بھیجنے سے پہلے یہ دیکھنے کی تکلیف نہیں کرتے کہ کہاں بھیج رہے ہیں۔ بھئی جہاں آپ بھیج رہے ہو، اس کے بارے میں معلومات تو کرلو! وہ یونیورسٹی ہے بھی سہی یا کہیں ہڈحرام تیار کرنے کی فیکٹری تو نہیں ہے؟ پاکستان کی کسی یونیورسٹی کے کسی کلاس روم میں کچھ ایسا نہیں پڑھایا جاتا جسے پڑھ کر کوئی اپنے آپ کو ہی پالنے کا اہل بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انجنیئرنگ یونیورسٹیاں شاعر پیدا کررہی ہیں اور اردویونیورسٹیاں سائنسدان اور انجنیئر۔ اب وفاقی اردو یونیورسٹی یا الفلاح کا بھلا کیا کام کہ وہ سائنسی مضامین پر ڈگریاں کروائیں؟ حد ہوتی ہے کسی بھی بے ایمانی کی۔ تو پھر نہ تو شاعر کسی کام کا نکلتاہے اور نہ ہی انجنیئر۔ پھر وہ نکما اور نکھٹو بن کر معاشرے پربوجھ نہیں بنے گا تو کیا کرےگا؟

اوسطاً ایک پاکستانی فیملی کے پانچ بچے تو ہوتے ہی ہیں۔ ذرا حساب تو لگائیں کہ کتنے زیادہ لُولے لنگڑے پاکستانیوں کا کتنے تھوڑے سلامت ہاتھ پیر والے پاکستانیوں پر بوجھ ہے؟ سو یہ تھوڑے سے لوگ جب اتنا بھاری بوجھ نہیں اٹھا پاتے تو قرضہ تو لینا پڑےگا۔ کشکول تو اُٹھانا ہوگا۔ بھیک کے لیے ہاتھ تو پھیلانا ہوں گے۔ پھر نخرہ کیسا؟ اور یہ مطالبہ کیسا کہ ہمیں بھکاری نہ کہا جائے؟ یعنی ھِک منگڑاں اُتوں حلوے دی خیر؟

Advertisements
julia rana solicitors

بس میری تو ایک ہی دعا ہے کہ کسی طرح میری قوم کے جوان صرف اور صرف اپنے آپ کو پالنے کے قابل ہوجائیں۔ فیملیوں کو تو انہوں نے کیا پالناہے۔ یہ صرف اپنے آپ کو پالنے کے اہل ہوجائیں تو فقط یہی بھی کافی ہوگا، حالات بدلنے کے لیے۔ اورمائیں اپنے بچوں کو ہاتھ سے کام کرنا سکھائیں۔ وہ اگر چھوٹا بچہ ہے اور گر گیاہے تو دوڑ کر نہ جائیں اسے اُٹھانے۔ خود ہی اٹھنے دیں اسے۔ ذرا بڑا بچہ ہے تو اسے کہیں اپنے لیے پلیٹ میں سالن خود نکالے۔ کھانا کھا کر پلیٹ کو دھو کر کچن میں خود رکھے۔ اپنا بستر روز خود کھولے اور لگائے اور روز خود ہی اسے تہہ کرکے ایک طرف رکھے۔ اسی طرح ہر وہ کام جو اس کا ذاتی ہے، وہ خود کرے۔ اسی طرح وہ اپنے آپ کو سنبھالنا سیکھےگا اور اسی طرح جب وہ بڑا ہوگا تو کچھ نہ کچھ کرنا چاہے گا، کیونکہ اسے عادت ہوگی کہ اپنے آپ کو خود ہی سنبھالناہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply