ایک اور تقریر۔۔محمد اسد شاہ

گزشتہ دنوں حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں یوں تو بہت کچھ کہا، سنا، اور طے کیا گیا۔ لیکن اس کا سب سے قابل ذکر اور نمایاں حصہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا وہ خطاب رہا جو انھوں نے لندن سے مواصلاتی رابطے پر کیا۔اس خطا ب پر سب لوگ اسی انداز میں تبصرے کر رہے ہیں، جس کی ان سے توقع تھی۔ مثلاًمیاں صاحب کے حامی اس خطاب کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور مخالفین اس پرتنقید کے تیر آزما رہے ہیں۔ جس طرح ان کے پرستاروں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان کی کسی غلطی کو غلط کہیں گے، اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ میاں صاحب خواہ حق گوئی و بے باکی کی آخری انتہا تک بھی چلے جائیں، جو لوگ ان کے بغض میں مبتلا ہیں، وہ تعریف نہیں کریں گے۔ایک بات جس پر ان کے حامی اور مخالفین متفق ہیں وہ یہ کہ میاں صاحب کا یہ خطاب ہماری سیاسی تاریخ میں ایک یادگار خطاب ہے اور اسے بجا طور پر تاریخی کہا جا رہا ہے۔انھوں نے جہاں ملکی سیاست کی بہت سی خرابیوں کی نشان دہی فرمائی، وہیں بعض تلخیوں کا بھی ذکر کیا۔ اس قوم نے انھیں تین بار اپنا قائدمنتخب کیا، لیکن قوم کی بدقسمتی یہ کہ میاں صاحب کو ایک بار بھی ان کی وہ مدت پوری نہیں کرنے دی گئی جس کے لیے قوم نے انھیں بار بار منتخب کیا۔ نہ صرف میاں صاحب، بل کہ ہماری گزشتہ تہتر سالہ تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔وہ کون سے عوامل یا رکاوٹیں ہیں جو ہر منتخب وزیراعظم کے راستے میں آ کھڑی ہوتی ہیں، قوم یقیناً جاننا اور سمجھناچاہتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حامیوں کے ساتھ ان کے بدترین مخالفین بھی ان کی تقریر سننے کے لیے بے تاب تھے۔میاں صاحب نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت تلخیاں اور سختیاں دیکھی ہیں۔ انھیں وزیراعظم ہوتے ہوئے، وزیراعظم ہاؤس میں ہتھ کڑیاں لگائی گئیں۔ ان کو دوران پرواز جہاز کی سیٹ کے ساتھ زنجیر کے ذریعے باندھا گیا۔ ان کو ایک بڑے پنجرے میں بند کر کے عدالتوں میں پیش کیا جاتا رہا۔انھیں جلاوطن کیا گیا۔ انھیں اپنے وطن میں ایئرپورٹ پر اترنے نہ دیا گیااور عدالتی احکامات کی صریح دھجیاں اڑاتے ہوئے ان کی مرضی کے خلاف ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ ان کی اہلیہ کو گاڑی سمیت کرین کے ذریعے اٹھا لیا گیا اورفضا میں معلق رکھا گیا۔ان کے بیٹوں،بیٹیوں،کم سن نواسے،نواسیوں،پوتے پوتیوں، بھائیوں اور حتیٰ کہ بوڑھے والدین تک کوکئی بار جیلوں اور کوٹھڑیوں میں قید رکھا گیا۔وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے ماتحت سرکاری ملازموں کے سامنے پیشیاں بھگتتے رہے۔ ان کی بیٹی اور بیٹوں تک کو سینکڑوں بار پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ دسیوں ٹی وی چینلز اور سینکڑوں صحافی و تجزیہ کاردن رات ٹی وی چینلز پر اور اخبارات میں ان کے خلاف انتہائی سخت زبانوں میں بعض ایسے ایسے الزامات لگاتے رہے جن کا کوئی ثبوت آج تک کبھی سامنے نہیں آ سکا۔ اور وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی انھوں نے کبھی ان لوگوں، چینلز یا اخبارات پر کوئی پابندی نہ لگائی۔ملک و مذہب سے غداری تک کے الزامات ان پر لگائے گئے۔ان کی بیمار اہلیہ کو اس وقت گالیاں دی جاتی رہیں جب وہ ہسپتال میں کومے میں تھیں۔ اسی حالت میں اس ہسپتال پر پتھراؤ بھی کروائے گئے۔وہ اپنی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی سمیت جیل جانے کے لیے خود ہی آ گئے تو نگران حکومت نے ان کے حامیوں پر لاٹھی چارج کروا کے لاہور کی سڑکیں لہو میں رنگ دیں۔ان کی بیٹی کو جان بوجھ کر ان کی نظروں کے سامنے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال میں داخل تھے۔ چناں چہ ان کے لہجے کی تلخی اور الفاظ کی سختی کے پیچھے ان کے وہ سب تجربات ہیں جن سے وہ گزرے، اور آج تک گزر رہے ہیں۔ان کے حالیہ خطاب پر ان کے بعض مخالفین ایک بار پھر غداری وغیرہ جیسے گھسے پٹے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے پورے خطاب میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں سنا گیا جو پاکستان کی سلامتی یا آئین کے خلاف ہو۔ البتہ انھوں نے یہ کہا کہ پاکستان کی ترقی اور دفاع کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، افواج پاکستان کی تمام ضروریات پوری کرنا لازمی ہے، اور آئین کی پاس داری ہم سب کا فرض ہے۔اب ان کے بعض مخالفین جو یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ان کے خطا ب کو بھارتی چینلزپر دکھایا گیا، تو عرض ہے کہ جب وہ منتخب وزیراعظم تھے، ا ور دھرنوں میں ان کو گالیاں دی گئیں، ان کے گھر کو آگ لگانے کی باتیں کی گئیں، پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیجی گئیں، تب بھی دنیا بھر کے میڈیا کی طرح بھارتی چینلز پر یہ سب کچھ بار بار دکھایا جاتا رہا۔ لیکن ہم نے نہیں سنا کہ تب میاں صاحب نے مخالفین پر غداری کا الزام لگایا ہو۔ ہم نے فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو اور محمد نواز شریف سمیت بہت سے سیاست دانوں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں پر غداری کے الزامات لگا کر پہلے کیا حاصل کیا، جو اب مزید کچھ حاصل کر لیں گے۔آج ان کے مخالفین حکم ران ہیں تو انھیں یاد کیوں نہیں رہتا کہ میاں صاحب نے تو منتخب وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اپنی بدترین تذلیل کرنے والے مخالفین کو غدار کہا اور نہ میڈیا پر ان کی آواز بند کرنے کی کوشش کی۔ہمیں تقریر کا جواب دلائل سے دینے کا کلچر اپنانا چاہیے، نہ کہ الزامات سے۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply