ملوٹ کا لال مندر/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

سطح مرتفع پوٹھوہار میں جا بجا مختلف قلعوں اور مندروں کے آثار/کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ تو بہتر حالت میں ہیں جبکہ کچھ آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ملوٹ کا قلعہ اور مندر بھی ہے۔

ملوٹ، چکوال شہر سے چالیس کلومیٹر جنوب میں تحصیل کلرکہار کا ایک قصبہ ہے جس کی خوبصورت پہاڑیوں پہ ایک قدیم مندر اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

وجہ تسمیہ و سنِ تعمیر ؛
خوبصورت طرزِ تعمیر کے حامل اس ورثے کی تاریخ کے بارے میں بھی کئی آراء ہیں جن کا میں باری باری ذکر کروں گا۔
مقامی روایات کے مطابق اسے ابتدا میں ”نمرود” یا ”رامرود” کہا جاتا تھا جبکہ جنرل ایبٹ نے اس کا نام شاہ گڑھ (یا شاہی گڑھ) بتایا ہے۔
جنجوعہ روایات کہتی ہیں کہ اس کا نام ان کے مورث اعلیٰ ”راجہ مل دی”و یا ملو کی نسبت سے ملوٹ پڑا جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔
تاریخِ راجپوتاں اس بارے میں کہتی ہے کہ ملوٹ، “ملک کوٹ” کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ایک دور میں ملک کا لقب اس راجہ کو دیا جاتا تھا جو دہلی کے مسلم سلاطین سے الحاق قبول کرتا تھا اور بدلے میں اسے ایک ایسے علاقے سے نوازا جاتا جس میں وہ خودمختار ہوتا۔
مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کی لکھی کتاب ’تزکِ بابری‘ بھی ملک-کوٹ، مل-کوٹ اور پھر ملوٹ کی تصدیق کرتی ہے۔
چونکہ یہ علاقہ شروع سے ہی بیرونی حملہ آوروں کی نظر میں رہا ہے سو اس قلعے کا سنِ تعمیر حتمی طور پہ نہیں بتایا جا سکا۔
گڈھوک راجپوتوں کی ایک قلمی تحریر اس کا سن تعمیر980 بتاتی ہے جسے 1005ء میں محمود غزنوی نے حملہ کرکے اپنے قبضے میں کرلیا اور بعد میں راجپوتوں نے اِسے پھر سے حاصل کر لیا۔
جبکہ زیادہ تر مؤرخین کے مطابق یہ قلعہ ایک ہندو راجپوت ”راجہ مل” نے بارہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ شہنشاہ ظہیرالدین بابر نے 1526ء تا 1530ء تک جاری رہنے والی لڑائی میں دولت خان لودھی سے یہیں پر ہتھیار ڈلوائے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باپ مہا سنگھ نے بھی یہاں پر ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ 1848 میں جب جنرل کننگھم کا یہاں سے گزر ہوا تو اس نے اس قلعے کو شکست و ریخت سے دوچار پایا۔

طرز تعمیر ؛
قلعہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا البتہ ملوٹ قلعے کے مندروں کی بناوٹ کی بات کریں تو اس کی ہو بہو نقل وادی نیلم میں شاردہ کا مندر ہے جسے قدیم درسگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم یونانی اور کشمیری ہندو فنِ تعمیر کے حامل یہ مندر سطح سمندر سے لگ بھگ تین ہزار دو سو 3200 فٹ بلند ہیں۔ یہاں دو انگلی نما چٹانیں ہیں جو ہزاروں فٹ نیچے سے آرہی ہیں، غالباً یہ کبھی سرچ ٹاور ہوا کرتی تھیں۔
اپنی بناوٹ کی وجہ سے اسے پورے خطے میں سب سے منفرد و دلکش مانا جاتا ہے۔
چاروں کونوں پر پتھر کے خوبصورت ستون موجود ہیں جن کے بیچ محرابیں نظر آتی ہیں۔ ان محرابوں کےاوپر اور کناروں پرسرخ ریتلے پتھروں میں یونانی طرز کی مورتیاں کھدی ہوئی ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں بنای گئی شیر اور دوسرے جانوروں کی شکلیں (جن کے آثار اب بھی باقی ہیں) اب بھی فنِ سنگ تراشی کا بہترین نمونہ ہیں۔ ریتلے پتھر کی وجہ سے موسم اس پہ براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے جس سے یہ خوبصورت نقش و نگار رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں۔
یہاں استعمال ہونے والا سرخ ریت کا پتھر سورج کی قدرتی روشنی میں خوب چمکتا ہے جو کوہستانِ نمک کے پہاڑوں پر موجود مقامی و قدرتی معدنی دولت ہے۔ رہائشی بتاتے ہیں کہ چوئی گاؤں کے قریب ملوٹ گاؤں کو جانے والی سڑک پر سرخ ریت کا پتھر موجود ہے۔
ایک زمانے میں یہاں کنگر دار دیوار بھی تھی، جو قلعے کے دروازے کے ساتھ بنے حجروں سے جڑی ہوئی تھی۔ اِس وقت قلعے کی کوئی دیوار باقی نہیں ہے لیکن ان مضبوط دیواروں کے ثبوت جا بجا موجود ہیں۔ غالباً کسی نادیدہ خزانے یا سونے کی تلاش میں ہمارے لوگوں نے انہیں بھی منہدم کر دیا ہو گا۔

راستہ ؛
ملوٹ قلعے تک پہنچنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اسلام آباد یا لاہور سے براستہ موٹروے کلرکہار انٹرچینج پہ اتریں اور چوآسیدن شاہ روڈ کی طرف مڑ جائیں۔ اس روڈ پہ کچھ آگے جلیبی چوک سے دائیں جانب ایک راستہ مڑتا ہے جو ملوٹ گاؤں کو جاتا ہے۔ گاؤں پہنچ کے آپ نے اس سے آگے سفر جاری رکھنا ہے۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ محکمہ سیاحت کی جانب سے جگہ جگہ ملوٹ و ملکانہ مندر کے نام کے بورڈ لگائے گئے ہیں جن سے راستہ ڈھونڈنا آسان ہوجاتا ہے۔
ملوٹ کی طرف آئیں تو پرانی آبادی کا پہلا ثبوت یہاں کا کائی سے بھرا سبزی مائل تالاب اور اس کے کنارے کھڑا قدیم برگد کا پیڑ تھا ۔ اس کے بعد قلعہ کے داخلی دروازے کی طرف عمودی چڑھائی آتی ہے، جہاں اب صرف دو خستہ حال ٹاور ہی باقی ہیں۔
اگرچہ یہ سڑک کچھ تنگ ہے لیکن بائیک اور کار آرام سے پہنچ جاتی ہے۔
یہاں جانے کا بہترین موسم اکتوبر سے اپریل ہے لیکن اونچائی پہ ہونے کی بدولت مئی جون میں بھی وقتاً فوقتاً ہوا چلتی رہتی ہے۔ آس پاس کھانے پینے کی کوئی جگہ نہیں ہے سو اپنا کھانا، پانی ساتھ لے کے جائیں البتہ بیٹھنے کے لیئے سایہ دار جگہ موجود ہے۔

ان کھنڈرات کے بالکل قریب ماضی میں ہونے والی کوئلے کی کان کنی اور سیمنٹ کے کارخانوں نے اس قدیم ورثے کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ پنجاب حکومت کے سیاحتی محکمے ٹی ڈی سی پی نے گزشتہ سال یہاں بہتری کے لیئے کام کروایا ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کے حکومت پاکستان کو کوہستان نمک کے تمام بقیہ مندروں، قلعوں اور دیگر آثارِ قدیمہ کو ”عالمی ثقافتی ورثے” کی فہرست میں شامل کروانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیئے تاکہ ہندومت و بدھ مت سے جڑی ان یادگاروں کو آنے والی نسل کے لیئے محفوظ کیا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لال رنگ کے اس منفرد مندر کو فوراً اپنی ٹریول لسٹ میں شامل کر لیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply