داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط10

تعارف:

محمد خان چوہدری کا تعلق چکوال کے ، بجنگ آمد کے  مصنف کرنل محمدخان کے قبیلہ سے ہے، جن کی چھاپ تحریر پر نمایاں ہے، میجر ضمیر جعفری بھی اسی علاقے سے ہیں انکی شفقت بھی میسر رہی، فوج میں تو بھرتی نہ ہو سکے لیکن کامرس میں پوسٹ گریجوایشن کر کے پہلی ملازمت فوج کے رفاعی ادارے میں کی، پھر اِنکم ٹیکس کی وکالت کی، لیکن داستان نویسی میں چکوال کی ثقافت حاوی ہے، مکالمہ  پر  ان کی دو درجن کہانیاں چھپ چکیں ہیں  ، آج کل داستان زیست قسط وار بیان کر رہے ہیں۔جس کے پہلے باب کی یہ آخری قسط ہے۔

گزشتہ قسط

اب اگلا محاذ چاندنی چوک والا گھر تھا، چوک سے کمرشل اور نیشنل مارکیٹ کو جاتی مین روڈ کے سنگم پر دو کنال کا چار بیڈ روم کا سنگل سٹوری بنگلہ ، روڈ سائیڈ کا گیسٹ روم باتھ ڈریسنگ لاؤنج اور کچنٹ ، گیلری کا ایک دروازہ بند کرنے سے علیحدہ پورشن بن گیا سامنے لان سمیت، ملک صاحب میاں بیوی ایک بیٹا، چھوٹی فیٹ کار۔
ہم نے بس اتنی بات کی، ملک جی چھوٹا بھائی  سمجھ لیں ، انشااللہ بن کے رہوں گا، ابھی ساڑھے سات سو حصہ ڈالوں گا ۔۔۔۔ ملک صاحب نے کہا آپ ایسے ہی رہ لیں تو کیا ہے، بھائی  خریدے نہیں  جاتے۔
ہم  نے اندر سے پورشن دیکھا بھی نہیں  تھا، گفٹ اتارے تو اے پلس اکاموڈیشن ۔ ڈبل بیڈ موجود ، ہنس کے پوچھا۔۔۔بیڈ سمیت ہے ناں ملک جی، وہ بھی ہنس دیئے، انجینئر صاحب لان میں نماز سے فارغ ہوئے سن رہے تھے۔کہنے لگے اچھا ہے ایک چارپائی ، بستر کپڑے فریج ٹی وی لے آؤ اور ہے کیا؟ باقی چارپائیاں ٹیبل صوفہ وغیرہ میں لے جاؤں گا۔
ہماری برق رفتاری جاری تھی اسی شام شفٹنگ کی ، اور رات پنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن کے بنگلہ نمبر 20B-1  میں  شفٹ ہو گئے۔

قسط10
انسان کی زیست کے ادوار عام طور پر بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور بڑھاپا تصور ہوتے ہیں۔
اسی ترتیب سے بندہ سوانح حیات لکھتا یا بیان کرتا ہے۔جب کہ یہ تقسیم سکول، کالج، یونیورسٹی، ملازمت یا کاروبار اور ریٹائرمنٹ ہو سکتی ہے یا بلوغت، معاشقے، شادی، باپ بننے کے بعد نانا دادا کے درجات کی بھی ہوتی ہے۔یاداشت میں یہ سب موجود ہوتا ہے لیکن اہمیت اس میں شامل دوسرے کرداروں کی ہی گردانی جائے گی، ماں باپ بہن بھائی  استاد باس ماتحت بیوی بچے، و دیگر جن کو ہم اجتماعی طور پر  ” شریک ” کہتے ہیں۔
بندہ ساری زندگی ان شریکوں کے کچھ کہنے اور باتیں کرنے کے خوف میں گزارتا ہے۔ہم جب یہ ساری منزلیں عبور کر چکے  تو   عملی اور پروفیشنل زندگی کے پہلے دور کی کچھ جھلکیاں سابقہ نو اقساط میں لکھ دیں۔
مکالمہ ٹیم اور قارئین کے ممنون ہیں کہ انہوں نے حوصلہ افزائی  کی، ان گزارشات کا مقصد یاد ماضی کے ساتھ یہاں  زندگی کے کچھ ایسے رنگ شیئر کرنا بھی ہے جنہیں ہم دیکھتے تو ہیں لیکن محسوس کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مال روڈ پنڈی سے اسلام آباد منتقل ہونا ۔ 223 خادم حسین روڈ سے 20B ون سیٹلائیٹ ٹاؤن شفٹ ہونا کوئی  واقعہ نہیں  ، لیکن اس میں موجود کردار تو زندگی کے استعارے ہیں ، ادبی تکلف میں کنایہ میں ان کی شخصیت بیان ہوئی ۔لازم ہے کہ اس باب کے اختتام پر کچھ مزید تعارف بھی شامل کیا جائے کہ مطالعہ میں شریک احباب کو الجھن نہ رہے۔

جی ایم صاحب، باس، راجہ صاحب ، حسین مہدی ہیں جو راجہ صاحب محمود آباد کے داماد ،برطانیہ سے پڑھے اور ذوالفقار بھٹو کے وہاں ہم مکتب تھے،انجینئر  صاحب محمد الیاس پی ٹی وی میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے، لاہور میں پڑھائی کے زمانے سے دوست، اب وفات   پا   چکے ہیں ،حق مغفرت فرمائے۔

خالد شاہ فرضی نام ہے، موصوف بعد میں اسلام آباد شفٹ ہوئے، فائیو سٹار ہوٹل میں ہماری وساطت سے ایونٹ مینجر بنے، نوکری چھوڑی تو باقاعدہ پیری مریدگی کرنے لگے، حیات ہیں۔
بشیر مسیح درویش ہے، مائی  رحمت فوت ہوئی  تو اسے بھی اسلام آباد ایک سفیر صاحب کے گھر نوکری اور رہائش دلوا دی تھی، عرصے سے ملاقات نہیں  ہوئی ۔
نادرہ بھی فرضی نام ہے موصوفہ شادی کے بعد سیاست میں آئیں، نام بنایا، اب امریکہ  میں رہائش پذیر ہیں ، سیمی سے پھر رابطہ نہیں   ہو سکا۔اور فرحی کا ذکر تفصیل سے کرنا کار ثواب ہے۔

اگلے روز ہم نے سفارت خانہ جوائن کر لیا، طارق محمدخان مڈل ایسٹ شفٹ ہو رہے تھے، سابقہ سفیر صاحب سے خاندانی مراسم بھی تھے تو انہوں نے اپنے پراجیکٹس کے فنانشل امور کے لئے وہاں اپنے پاس نوکری پر  بُلایا تھا۔وہ پیکنگ کیے  بیٹھے تھے، گھر کا سامان بک چکا، بس ڈیلیوری دینی تھی، واکس ہال کار موجود تھی، 12 ہزار میں سودا ہوا۔۔۔۔6  ہزار جو فوکسی کے ملے تھے وہ ان کو دیے ، بقایا 6 ہزار کی ضامن سیکرٹری صاحبہ بن گئیں ، تین ماہ کا ادھار ہو گیا۔
چھٹی کر کے دفتر کے ڈرائیور کو ساتھ لیا، وہ لالکرتی کا رہائشی نکلا، یعقوب مسیح، دونوں گاڑیاں پنڈی کلب دفتر پہنچ گئیں۔وہاں ایڈمن سُپر وائزر مل گئے انکے دفتر کی کار انکے حوالے کی،ہم شیورلیٹ کی شیپ میں 2000 سی سی واکس ہال وکٹر میں فلیش مین ہوٹل کی انٹرنس کے ساتھ پارکنگ کر کے  اتر رہے تھے کہ خالد شاہ نے دیکھا، ڈڈُو فوکسی ہمارا نشان جو نہ تھی، تھوڑی دیر میں پہچانا، کار اور نئی جاب کی مبارک دی، ہم لان میں کرسیوں پر بیٹھ گئے شاہ نے بیرے کو اشارے سے بُلایا اور ڈرنک کا پوچھا ہم نے کافی کا کہہ دیا، فرحی کا پوچھا وہ تو بھرا بیٹھا تھا ، کہنے لگا دس دن کی چھٹی پر ہے شاید واپس نہ آئے۔۔۔
سر یہ عورتیں بہت مکار ہوتی ہیں ہم ملازم ہیں سب کے کام کرتے ہیں سب کو خوش رکھنا ہوتا ہے کیپٹن نقوی سے  اسکے کہنے پر ملوایا، آپ سے ملنے کو وہ مری جا رہی تھی، لیکن کل جیسے اس کا مسئلہ حل ہوا، اس نے جی ایم سے چھٹی منظور کراتے میری وہ برائیاں کیں کہ توبہ، شام کو اس کے گھر گیا تو اس کی باجی پل پڑی، کہ ابارشن کی بات  کیوں کی، آپ بتائیں سر اگر میں ایمر جنسی نہ پیدا کرتا تو آپ اس سے ملتے ؟ احسان فراموش لوگ ہیں سر ۔۔۔
پتہ نہیں  کیوں مجھے اس کا فرحی کی بُرائی  کرنا بُرا لگا، پوچھا اب ہے کیسی  وہ؟
طنز کرتے  ہوئے بولا ، چھل چھل خون نکل رہا ہے، تو خوش ہی ہو گی۔۔۔
ہم نے موضوع بدلنے کو بتایا کہ ہم رات لالکرتی سے شفٹ ہو گئے، سیٹلائیٹ ٹاؤن ۔
جلدی سے بولا، اچھا فرحی لوگ بھی وہاں ڈی بلاک جا رہے ہیں ، ہمیں بڑی خوشگوار حیرت ہوئی ۔۔۔کافی آ گئی  ، کپ پکڑاتے ہوئے  کہنے لگا، سر اسلام آباد ہوٹل میں جگہ ہے آپ کسی طرح سفارش کریں ، چھوٹے بھائی  کو سرکاری کوارٹر الاٹ ہو رہا ہے، ہم سب وہاں شفٹ ہوں گے، جگہ بھی نزدیک ہے۔
کافی ختم ہو چکی تو  ہم اسے دو چار وعدے کی میٹھی گولیاں دے کے نکل آئے۔
نئی گاڑی اور راجہ صاحب نہ دیکھیں یہ کیسے ممکن ہے، مسز ڈیوس ہوٹل انیکس پہنچے انکی آفیشل کار کھڑی تھی ہم نے اس کے بالکل متوازی کار پارک کی، وہ باہر آئے، دیکھی، کہنے لگے مبارک دوں یا کسی سے مانگ لائے ہو۔۔۔؟
ہم نے خوشی سے چھلکتے لہجہ میں کہا، حضور بندے کو رب نے عطا کی ہے، گلے لگایا، پیار کیا دعا دی۔
برآمدے میں بیٹھ گئے، انجینئر کا پوچھنے لگے ،میں نے انہیں  بتایا کہ دن میں فون پہ  بات ہوئی  تھی سات بجے شیزان آئے گا، تو فرمایا چلو تمہاری کار پہ مورگاہ تک چکر لگا کے آتے ہیں، میں نے چابی انہیں  پکڑائی تو   کہنے لگے۔۔۔یہ بھی ابھی کنواری ہے تم خود  ہی اسے   چلاؤ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

راستے  میں سفارت خانے کی باتیں ہوتی رہیں ، کہنے لگے تمہارا تو اب ڈرنکس کا مسئلہ نہیں  ہو گا، بانڈڈ سٹور سے ملتی رہے گی، ہمیں  ان مراحل کا علم نہیں  تھا سو چُپ رہے ، شیزان پہنچے تو انجینئر کتابوں کی دکان سے اشفاق احمد کی کتاب اٹھائے آ رہا تھا، ہم کھڑکی  کے ساتھ کونے والی اپنی مخصوص ٹیبل پر بیٹھے تھے، زراعت نے کوک کی بوتل کھول کے رکھی ، ہم نے جیب سے فلاسک نکالی ، گلاس ٹیبل کے نیچے کرکے  پیگ بنائے انجینئر نے معذرت کر لی۔۔
یہاں بھی فرحی کی بات نکل ہی آئی  ، ہم نے انکی شفٹنگ بارے بتایا، باس نے ہلکی آواز میں نعرہ مارا۔۔۔
گفتگو زنانہ پوشیدہ امراض پہ  آ گئی، تینوں نے اس پہ  خوب طبع آزمائی   کی ، ٹیپ ہو جاتی تو کسی حکیم کے شفاخانے  کے اشتہار کی زبردست کمنٹری تھی۔
کھانا کھایا، سویٹ ڈِش کی جگہ شیزان کی قلفی منگوائی  ، راجہ صاحب نے اعلان کیا کہ کل شام کی فلائیٹ سے وہ پانچ دن کی چھٹی پر کراچی جا رہے ہیں ، انجینئر نے اطلاع دی کہ وہ بھی سکیسر جا رہا ہے، ہم کیسے پیچھے رہتے ۔۔۔۔
ہم نے کہا، کل سے ڈی بلاک کا سروے شروع کریں جو شام کو ہو گا اور فرحی کا پتہ لگائیں گے۔۔۔۔
پہلا باب تمام ہوا
ضمیمہ ۔ فوجی رفاعی ادارے کو چھوڑنا آسان نہیں  تھا، لیکن لاشعور میں بڑی وجہ ڈسپلن تھا، ہم تو سویلین تھے ماحول مکمل فوجی تھا، افسران کے واش روم علیحدہ تھے، سٹاف کی کینٹین الگ تھی، رینکس کی تفاوت تھی۔
سول میں جونیئر کلرک، سینئر کلرک ، آفس اسسٹنٹ سے ذرا اوپر اکاؤنٹ اسسٹنٹ بھرتی ہوئے، یعنی فوجی حساب سے  سپاہی ، لانس نائیک ، نائیک ، نائب صوبیدار سے اوپر صوبیدار کے برابر ، سال کے اندر صوبیدار میجر یا اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جو سٹاف میں سینئر ترین پوسٹ تھی وہ بن گئے، اگلی پروموشن اکاؤنٹس آفیسر آنریری کپتان کے مساوی تھی۔
نان کمیشن رینک پہ  آپ فوج یا سول کے کسی ادارے میں بھرتی ہو کر چاہے ہمارے بزرگ عبدالمجید ملک کی طرح لیفٹنٹ  جنرل بن جائیں تو بھی این سی او بھرتی ہونے کا دم چھلہ نتھی رہتا ہے، جیسے عدالت نے انہیں  گریجوایشن کی شرط لگنے پر الیکشن لڑنے سے نااہل کر دیا، جب کہ وہ پہلے دور میں وزیر بھی رہے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply