دِیر بالا۔۔ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری

دِیر بالا۔۔ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری/ہندوکش کے دامن میں دریائے پنجکوڑہ کنارے آباد ایک خوبصورت وادی:اگرآپ کسی نہایت خوبصورت جگہ پہنچ جاہیں تو یہ آپکی قسمت ہے لیکن اگر آپ چند ہفتوں کے وقفے سے اُسی جگہ دوبارہ اور پھر سہ بارہ جا پہنچیں تو یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا بلکہ اللہ رب العزت کا خاص انعام ہو گا اور الحمد لِلٰہ مجھ پر یہ کرم ہو چکا ہے۔
سال 2017 ہندوکش کے سفر کی نوید لے کر آیا اور ایک نہیں ،تین تین بار۔ اُس برس مئ، جون اور ستمبر میں ضلع ”دیر بالا ” کے مختلف علاقے دیکھنے کا حسین اتفاق ہوا۔ ہر سفر اپنی جگہ لاجواب ۔ تینوں دفعہ مختلف ساتھی، مختلف جگہیں اور مختلف مقاصد۔ لیکن جب بھی اس جگہ جانا ہوا اُنہی بلند و بالا پہاڑوں ،شفاف دریاؤں اور انہی راستوں نے استقبال کیا۔
سواۓ منزل کے کچھ بھی تو نہ بدلا تھا، نہ لوگ، نہ ناگن کی طرح بل کھاتے راستے، نہ ہڈیوں میں گھس جانے والی ٹھنڈی ہوا، نہ شور مچاتے چشمے اور نہ پورے چاند کی چاندنی میں نہاۓ ہیبت ناک پہاڑ۔
کبھی کبھی میں یہ سوچنے لگ جاتا تھا کہ شاید میرا خمیر یہیں کی مٹی سے اُٹھایا گیا ہے کہ ہر بار قسمت ادھر ہی لے آتی ہے۔ چلیں اب پاکستان کے اس خوبصورت علاقے کی سیر کراتا ہوں۔
سوات، کالام، چترال، گلگت وغیرہ کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن دیر کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک اس علاقے کی طرف (سوائے کمراٹ کے)بہت کم سیاحوں کا آنا اور پبلسٹی کا نہ ہونا ہے۔
خیبر پختونخوا کا چھٹا بڑا ضلع، ضلع دیر بالا، پاکستان کے شمال مغرب میں چترال اور پشاور کے بیچ ایک چھوٹی سی شاہی ریاست ہوا کرتی تھی۔

سوات کے سکالر جلال الدین یوسفزئی لکھتے ہیں کہ؛

”دیر کو قدیم ادوار میں یاغستان، بلورستان اور ماساگا جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا تھا۔ دیر نام پہلی بار بُدھ تہذیب کے دور میں استعمال کیا گیا تھا جس کا عربی میں مطلب ہے ”خانقاہ”۔ یہ دریائے پنجکوڑہ کے دونوں کناروں پر بنی بہت سی بدھ خانقاہوں کے لیئے بولا جاتا تھا۔

پندھرویں صدی میں یوسفزئی قبیلے نے اس علاقے کو فتح کیا اور اس کا نام دیر رکھا۔ دیر کی شاہی ریاست ستارہویں صدی میں مُلا الیاس نے قائم کی۔ بیسویں صدی تک ریاست کی گدی ایک کے بعد دوسرے جانشین کو منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ برطانوی سامراج سے ایک معاہدے کے بعد محمد شریف خان 1985 میں یہاں کے پہلے نواب بن گئے۔ 1954 میں ریاست کی آبادی 250،000 تھی۔

ریاست کا آخری حکمران نواب شاہ جہاں ایک انتہائی ظالم شخص تھا۔ اپنے حکمران سے تنگ دیر کے لوگ آزادی کے شدید خواہش مند تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دیر کے کچھ سردار صدر مملکت پاکستان ایوب خان کے پاس گئے اور درخواست پیش کی کہ دیر کو پاکستان میں شامل کیا جائے تب پاکستانی گورنمنٹ نے دیر پر اپنا کنٹرول قائم کیا اور 1969 میں یہ ریاست پاکستان میں ضم کر دی گئی۔ نوب شاہ جہاں کو گرفتار کرکے ہیلی کاپٹر میں لے جایا گیا۔
1969 میں یہ ریاست پاکستان میں ضم کر دی گئی اور پھر مالاکنڈ ڈويژن بننے کے بعد1970 ميں اس کو ضلع کا درجہ ديا گيا ۔1996 ميں اس ضلع کو مزيد دو حصوں ”لوئر دیر” (دیر زیریں/ دیر پائین)اور ”اپردیر ” میں تقسيم کر دیا گيا۔
ضلع دیر بالا کے مشرق میں ضلع سوات، مغرب میں افغانستان کا صوبہ کُنار، شمال میں چترال اور جنوب میں ضلع لوئر دیر ہے۔ ”شنگاڑا پاس” دیر کو افغانستان جبکہ ”لواری پاس” اِسے چترال سے ملاتا ہے۔
اس علاقے تک پہنچنا بہت آسان نہیں تو بہت مشکل بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد سے موٹروے کے ذریعے رشکئی اورمردان پھر آگے تخت بھائی، درگئی، سخاکوٹ، مالاکنڈ، بٹ خیلہ، چکدرہ، تالاش، تیمرگرہ اور رباط سے ہو کر آپ ضلع دیر بالا پہنچ جائیں گے۔
دیر بالا کی خاصیت یہاں موجود ہندوکش اور کوہِ ہندو راج کے برف پوش پہاڑ، اخروٹ اور ناشپاتیوں کے باغات، خوبصورت چراگاہیں، صاف شفاف جھرنے، شور مچاتا دریاۓ پنجکوڑہ ، بارش کے بعد نمودار ہونے والی قوسِ قزح اور دل کو مسحور کر دینے والے نظارے ہیں۔
اس علاقے کا سب سے بڑا اور مشہور دریا ”پنجکوڑہ” ہے جو یہاں کے لوگوں کے لئے زندگی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ دیر- کوہستان میں ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں سے نکلنے والا یہ دریا جہاں پورے ضلع کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہیں یہ گندھارا تہذیب کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ اس کے کناروں پربہت سی بدھ مت کی عبادت گاہیں، خانقاہیں اور اسٹوپے واقع ہیں۔ عُشیری ، نیاگ، براؤل اور جندول نامی چھوٹے چھوٹے معاون دریا اس میں ملتے ہیں اور چکدرہ کے قریب ایک مقام پر پنجکوڑہ اپنے آپ کو دریاۓ سوات کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہاں کٹورہ ، سیدگل اور جہاز بانڈہ نامی خوبصورت جھیلیں واقع ہیں۔ درہ لواری ضلع کے شمال میں، درہ عشیری اور درہ نہاگ مشرق ، سنئی درہ مغرب اور دیر شہر تقریبا وسط میں واقع ہیں۔
دیر شہریا خاص دیر ، وادی کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ضلعی صدر مقام بھی ہے۔ بلند و بالا اور مسحورکن کہساروں کے دامن میں آباد دیر شہر پاکستان کے حسین ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں کی مشہور و معروف جگہوں میں شاہی مسجد اور قلعہ دیرشامل ہیں جبکہ ہندوکش کی برف پوش چوٹیاں، پہاڑوں کی بلندی پر بنا ہِل پارک، دیر اسٹیڈیم اورٹھاٹھیں مارتا پنجکوڑہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
قلعہ دیر ۱۹۶۰ میں دیر کے نواب، نواب شہاب الدین خان (جندول خان) نے بنوایا تھا اس لئے اسے قلعہ جندول بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ میں توپ خانہ ، عجائب گھر اور ریسٹ ہاؤس قائم ہے۔
دیر شہر کے اندر ہی آپ کو ایک دو سنسان مقبرے بھی ملتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ریاست دیر کا نواب شاہ جہان ایک انتہائی ظالم شخص تھا جِس نے اپنی رعایا کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ وہ اکثر مختلف گھروں میں اپنے نوکر بھجواتا تھا اور ہر گھر سے گھی، مرغے ، لکڑیاں اور دیگر
سامان زبردستی وصول کرتا تھا۔
ایک خاص بات یہ کہ وہ کسی کے پاس قلم نہیں رہنے دیتا تھا۔ اس نے دیر کے لوگوں کو علم سے دور رکھا ورنہ یہاں کے عوام بہت ذہین اور عقل مند گردانے جاتے تھے۔

نواب شاہ جہان نے دیر کے لوگوں کو اس ڈر کی وجہ سے علم سے دور رکھا کہ اس کے نزدیک اگر یہ لوگ پڑھ لکھ جائیں گے تو میری نوابی چھن جائے گی۔ عموماً بہت سے شہنشاہوں اور نوابوں کو یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر رعایا میں شعور آ گیا تو وہ انکا تخت و تاج چھین لیں گے۔.

خیر ، آج دیر شہر کے بازار میں نوابوں کے یہ ویران و سنسان مقبرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتی. جن حکمرانوں نے اپنی عوام کے حقوق غضب کیئے وہ نہ صرف دنیا میں بلکہ مرنے کے بعد بھی ذلیل و رسوا ہوئے.
دیر شہرمیں آوارہ گردی کرتے ہوۓ پتہ چلا کہ اس شہر کے ”چاقو” بھی بہت مشہور ہیں۔ یہاں بہت سی جگہوں پر حکومت نے مختلف این جی اوز ( )کے تعاون سے چھوٹے چھوٹے ہائیڈل پراجیکٹس بنا رکھے ہی۔
اب آتے ہیں اس علاقے کی بود وباش کی طرف۔ یہاں کے لوگ بہت سیدھے سادے ، خوش مزاج اور مہمان نواز ہیں۔ زیادہ تر لوگ کاروبار کے ساتھ ساتھ پہاڑوں پر موجود اپنے چھوٹے چھوٹے زمین کے ٹکڑوں پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ لوبیا، چاول اور دنبے/ بکرے کا گوشت یہاں کی پسندیدہ غذائیں ہیں۔ پنجاب کے برعکس یہاں آپکو اخروٹ، ناشپاتی اور آڑو کے باغات زیادہ ملیں گے جو اپنے آپ میں ایک خوبصورت نظارہ ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ، گہرے سیاہ بادل اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں درختوں پہ جھولتے جنگلی اخروٹ اور ناشپاتیاں ایک خواب ناک منظر پیش کرتی ہیں۔
بڑے بڑے پتھریلے پہاڑوں کے کناروں پر بنے پکے کھالوں کی پگڈنڈیوں پر چلنا ، گھنے درختوں کے ساۓ میں بیٹھ کر جنگلی اخروٹ کھانا ، ٹھنڈے ٹھنڈے چشموں سے میٹھا پانی پینا، ندی نالوں پر درختوں کے خالی تنوں سے بنے پلوں پر چلنا، روز کالے سیاہ بادلوں کا آنا اور اکثر بغیر برسے چلے جانا، کبھی کبھی دھنک کا نظر آ جانا، دریاۓ پنجکوڑہ اور عشیری کے یخ پانی میں بچوں کا ڈبکیاں لگانا، اور تاروں بھری خنک راتوں میں چاندنی میں نہاۓ پہاڑوں پر ٹمٹماتے چراغوں کی مانند گھروں کا نظارہ کرنا یہ وہ چند تجربات ہیں جو میں نے اس علاقے میں کئے اور ایسے نظارے پاکستان میں آپکو شاید ہی کہیں ملیں۔ یہاں کا لینڈ اسکیپ ملک کے خوبصورت ترین لینڈ اسکیپس میں سے ایک ہے۔
اسلام سے محبت یہاں کے لوگوں کے خون میں ہے۔ کیا بچے کیا جوان اور کیا بوڑھے سب کے سب نمازی۔ یہاں تک کہ ایک بار بھری دوپہر میں ایک شخص کو میں نے دریا کے کنارے ایک پتھر پہ اللہ کے حضور سربسجود دیکھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جو اسلامی اقدار میں نے یہاں کے لوگوں میں دیکھیں وہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آئیں ۔ اذانوں کے ساتھ ہی بازار خالی اور فجر سے عشاء تک مساجد بھری رہتی ہیں۔ اکثر چھوٹے چھوٹے بچے بھی سروں پہ ٹوپیاں رکھتے ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جن مسجدوں میں نماز کے دوران پیچھے سے بچوں کی آوازیں نہ آئیں وہاں کی آنے والی نسلیں اسلام سے بہت دور ہوں گی۔
جنگلات اور پہاڑوں کے قریب رہنے کی وجہ سے یہاں کے لوگ لکڑی کے کام میں ایک خاص مہارت رکھتے ہیں۔ لکڑی کو کھود کر نقش و نگار بنانے کا ہنر انکی گھٹی میں ہے۔ انکے ہاتھ کی مہارت یہاں کے پرانے گھروں ، مسجدوں اور قلعوں کے ستونوں، کھڑکیوں اور دروازوں میں بھی جھلکتی ہے۔ گھروں میں خواتین خوبصورت قالین اورکھجور کے پتوں کی ٹوکریاں بناتی ہیں۔ یہاں تندور بھی گھروں میں بنانے کا رواج ہے۔
ضلع دیر کے مشرق میں کُمراٹ اور عشیری کی خوبصورت وادیاں ہیں جو دیر کو مختلف دروں ( بدوائی، کر،بارکھنڈ) کے ذریعے سوات کوہستان سے ملاتی ہیں۔ عشیری درہ، داروڑہ سے کوئی۲۵ کلو میٹر کے فاصلے پہ ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ فطرت کے دلدادہ لوگوں کے لیئے ایک آئیڈیل جگہ ہے۔ وادی کے بیچوں بیچ بہتے دریاۓ عشیری کے کنارے بنی سڑک یہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اسی سڑک کے کنارے کاٹن بالا، جبر، گامسیر،الماس اور تارپتار کے چھوٹے قصبے واقع ہیں۔ ۲۰۰۹ میں حکومت نے یہاں شرینگل کے مقام پرایک یونیورسٹی بنائی جسے بینظیر یونیورسٹی کا نام دیا گیا ہے۔ آخر میں آپ سب کویہ بتاتا چلوں کہ ایک وقت تھا کہ لوگ یہاں آنے سے بہت ڈرتے تھے لیکن فواجِ پاکستان اور دیر لیویز کی کوششوں سے آج یہ علاقہ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ کمراٹ جانے والے ہزاروں سیاح یہاں سے گزرتے ہیں۔
وقت نکال کر آپ بھی پختونخواہ کے اِن علاقوں میں ضرور جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نواحِ نُصرت و فیروزی و ظفر میں رہوں
میرے وطن میں تیرے قریہء خبر میں رہوں
عزیزِ جاں ہیں یہی راستے غُبار آلود
نہیں یہ شوق کہ گلپوش رہگزر میں رہوں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply