یادوں کے جگنو۔رفعت علوی/سفرنامہ۔حصہ اول

طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں!

ٹھک ٹھک ۔۔۔۔۔ ٹھک ٹھک۔۔۔۔۔۔۔شاید کوئی دروازے پر دستک دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ہوا ہوگی میں۔ ۔ نے نیند کی مدھوشی میں سوچا
باہر چھاجوں پانی برس رہا تھا، پانی کی سرکش بوچھار بڑی تند دہی سے کھڑکی کے شیشوں پہ گر رہی تھی آج صبح ہی دور پہاڑوں سے اتر کر سفید اور کالے بادلوں کا ایک جھنڈ شہر کے اوپر جم گیا تھا اور یخ بستہ ہواؤں کا تحفہ اپنے ساتھ لایا تھا، اب رات گئے بوجھل بادل پانی بن گئے تھے اور کھڑکی کے شیشوں پر مسلسل دستک دے رہے تھے۔۔۔۔

باہر کے طوفان باد و باراں سے بےخبر میں ہوٹل شیرٹن کے کمرہ نمبر پانچ سو گیارہ میں ہیٹر کی خوشگوار حدت اور نرم گرم کمبلوں میں بکل مارے نئے جہانوں کی سیر کر رہا تھا، خواب تھا کہ خیال تھا یا آنے والے کل کے پروگرام کی ایکسائٹمنٹ تھی کہ میرے سامنے ایک نخلستان سا تھا، جس کےبیچو بیچ بلند پلیٹ فارم پرایک پروقار کلیسا سر اٹھائے کھڑا تھا اس کے اونچے اونچے مخروطی مینار آسمان چھو رہے تھے، کلیسا کے منقش محرابوں کے نیچے لمبے لمبے چوغے پہنے کچھ پادری، نائٹ اور اسقف کھڑے تھے جو ہلکی آوازوں میں کوئی دعائیہ کلمات پڑھ رہے تھے، ان کے ساتھ دس پندرہ سیاہ گھنی داڑھیوں والے سروں پہ پگڑیاں باندھے کمروں میں پٹکے اڑسائے قوی ھہکل انسان بھی موجود تھے مگر حیرت انگیز طور پر ان سب کے چہرے دھندلے تھے

ان سب کی نظریں ایک جانب لگی ہوئی تھیں جہاں دور بہت دور افق پر ایک اونٹنی ان کی طرف آتی نظر آ رہی تھی، پتا نہیں کتنا وقت گذرا، اونٹنی آہستہ آہستہ قریب آئی تو سب نے دیکھا کہ اس کے کجاوے پر ایک مجھول سا آدمی بیٹھا ہچکولے کھا رہا ہے جب کہ ایک لمبا تڑنگا مضبوط ہاتھوں پیروں کا آدمی چادر میں لپٹا اونٹ کی نکیل پکڑے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
دونوں سوار قریب آئے مگر ان کے چہرے بھی دھندلکوں میں چھپے ہوئے تھے سارے سیاہ اور سرخ داڑھی والے اپنے کالے بھاری عمامے سنبھالتے لپک کر آگے بڑھے اور پیدل چلنے والے شخص کو تعظیم دینے لگے۔۔۔۔۔۔ایک معزز نظر آنے والا شخص آگے بڑھ کر بولا یا امیرالمومنین خلیفہ عمر آپ پیدل۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔

“دوران سفر میں اور میرا غلام باری باری اونٹ پر بیٹھتے تھے اتفاق سے جب ہم شہر کے قریب پہنچےتو اونٹ پر بیٹھنے کی باری غلام کی تھی” دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطعنت کے سربراہ نے سادگی سے جواب دیا۔۔
پادریوں کی حرکات و سکنات سے لگ رہا تھا کہ وہ عرب دنیا کے سب سے بڑے حکمراں کی سادگی دیکھ دیکھ کر حیرت زدہ ہیں
ایک مقدس پادری آگے بڑھا اس کے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا تھا جس میں ایک لمبی سی سنہری چابی بھی جھول رہی تھی، یہ شہر بیت المقدس یا یروشلم کی چابی تھی، پادری نے بیت المقدس کی منقش چابیاں خلیفہ مسلمین حضرت عمر فاروق کی خدمت میں پیش کیں اور اس طرح خون کا ایک قطرہ خون بہائے بغیر بیت المقدس کا تاریخی اور مذہبی شہر جو مسجد اقصی قبلہ اول اور معراج النبی کے حوالے سے مسلمانوں کو عزیز تھا جو موسی، داؤد، سلیمان، مریم، عیسی اور یوحنا کے حوالے سے نصرانیوں اور یہودیوں کے لئے متبرک تھا اب مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔۔

اچانک کسی طرف سے اذان کی آواز بلند ہوئی،
کسی نے نے کہا “عمرو بن العاص کلیسا کی چبوترے پر کھڑے ظہر کی اذان دے رہے ہیں”
پادریوں نے حضرت عمر سے درخواست کی کہ وہ گرجا کے ایک حصے میں ہی نماز ادا کرلیں، اس مو قع پر خلیفہ دوم نے جو جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔
وہ بولے “اگر میں نے کلیسا کے اندر نماز پڑھی تو میرے رخصت ھونے کے بعد میرے رفقاء اس کلیسا کو مسجد بنا دیں گے اس لئے میں باہر نماز پڑھوں گا”
ایک ہی خواب نے ساری رات جگایا تھا، میں نے ہر کروٹ سونے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔۔۔مگر یہ طالع بیدار بھی نا۔۔۔۔۔۔۔

کھٹ کھٹ ۔۔۔۔۔دروازے پر دستک ایک بار پھر ہوئی۔۔۔۔۔۔میں نےکروٹ بدل لی
اب پرانا منظر فیڈ آؤٹ ہو چکا تھا زمانہ بہت آگے نکل گیا تھا اور ایک نیا منظر نامہ میرے سامنے طلوع ہو رہا تھا، گھوڑوں کی ہنہناھٹ تھی، اونٹوں کی بلبلاہٹ تھی، تلواروں کی جھنکار تھی زخمیوں کی چیخ و پکار تھی اور سفید براق گھوڑے پر سوار باریش باوقار شخص تھا جلال و جمال جس کے رگ و پے سے جھلک رہا تھا اس کی پگڑی میں لعل و جواہر لشکارے مار رھے تھے اور وہ اس گھوڑے پر شہسواری کررہا تھا وہ جس کی جست و خیز نے یورپ کے دارلخلافوں میں لرزہ طاری کیا ہوا تھا اور جس کے سوار نے بڑے بڑے سورماؤں کے گھروں میں صف ماتم بچھا دی تھی، وہ اس وقت کے مشرق کا سب سے بڑا شہنشاہ تھا ۔۔

حطین کے میدان میں کھڑا یہ تاجدار مشرق اپنے محافظوں اور جانثاروں کی ایک دیوار میں گھرا اپنے سپاہیوں کو جوش دلا رہا تھا، رجز پڑھ رھا تھا کہ “صرف تلواریں ہی نہیں بلکہ تقدیریں بھی جنگوں کا فیصلہ کرتی ہیں” اس نے اپنی آبدار تلوار ہوا میں بلند کی اور اس کی گرجدار آواز فضاء میں گونجنے لگی “یہ وہ تلوار ہے جس کے آگے آگے فتح چلتی ہے اور پیچھے پیچھے موت، آج یا تو فتح ہے یا پھر تم لوگوں سے حوض کوثر کے کنارے ملاقات ہوگی”،

“بھاگو” سامنے سے کسی نے چلا کر کہا بھاگو بھاگو ۔۔۔۔صلاح الدین آگے بڑھ رھا ہے صلیب ہار رہی ہے ہلال جیت رہا ہے
خواب آلود غنودگی میں بھی مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ یہ بیت المقدس کی دوسری بار فتح کا منظر ہے، اس وقت کا نظارہ جب عیسائیوں سے صلیبی جنگیں لڑ کر صلاح الدین ایوبی نے خون کے دریا کو عبور کیا تھا، شمشیر و سناء کے زور پر برسوں سے عیسائیوں کی جبر ظلم و ستم کے چنگل پھنسے مظلوم مسلمانوں کے قبلہ اول کو دوبارہ حاصل کیا تھا،

یہ وقت وہ وقت تھا جب ظلم و ستم میں پھنکتے مسلمان دم بخود تھے، سلاطین اسلام ھاتھ مل رہے تھے، تاجداران دمشق صدقے دے رہے تھے، بادشاہ حلب ماتم کر رہے تھے اورمظلومین نماز خوف ادا کر رھے تھے مگر سلطان ایوبی آگے بڑھتا رہا، راستے کی صعوبتوں نے اس کو جھک کر سلام کیا پہاڑوں اور دریاؤں نے اس اولالعزم سلطان کو خوش آمدید کہا اور وہ شاہ یروشلم کے سامنے آئین سخاوت اور آئین شجاعت کے پھریرے لہراتا شہر کی آہنی فصیل کے سامنے جھنڈے گاڑ کر کھڑا ہوگیا،

سامنے دور تک صلیبیوں کا سانپ کی طرح لہراتا طویل اور زربرق لباسوں میں ملبوس ہاسپٹلز نائیٹز، ٹیمپلرز، پیادوں کا لشکر آہنی زنجیر کی طرح نظر آرہا تھا، صلیب مقدس کے سائے میں شاہ یروشلم بالڈون کا طاقتور لشکر آہستہ آہستہ حرکت کرتا ہوا اس زاویے پر آگیا جہاں سورج کی ترچھی کرنیں فوج کے چمکیلے لباسوں پر منعکس ہونے لگیں اور سپاہیوں کی نقرائی زرہ بکتروں پر سورج کی شعائیں اس طرح تڑپیں کے سلطان ایوبی کے شیردل فوجی دستوں کی آنکھیں چکا چوند ہونے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہتھیاروں کی جھنکار فضا گونج رہی تھی۔۔۔۔

کھٹ کھٹ۔۔۔۔۔رفعت رفعت۔۔۔۔کسی نے پھر زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور میری آنکھ پوری طرح کھل گئی، میں نے اٹھ کر گھڑی دیکھی رات کے بارا بجے تھے،
میں نے دروازہ کھولا سامنے میرا باس چارلی مسمی صورت بنائے کھڑا تھا
آل از اوکے چارلی؟ ۔۔۔۔۔۔ میں نے حیرت سے پوچھا
یس یس، تم کو یہ بتانا تھا کہ میں کل صبح تمھارے ساتھ ویسٹ بینک کے ٹرپ پر نہیں جا رہا ہوں
کیوں؟
سکیوریٹی کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔
مگر مگر۔۔۔۔۔۔۔تم لوگوں کو کیا پرابلم ہوسکتی ہے جب کہ ویسٹ بینک میں انٹری پرمیشن بھی تمھارا ملک ہی ایشو کرتا ہے، مجھے سخت مایوسی ہو رہی تھی
چارلی نے ایک جمائی لی اور بولا “صبح ایک ڈرائیور تم کو اپنے ساتھ لے جائے گا، پرمیشن بھی وہی لے گا اور واپس بھی لے آئے گا”
جب تم خود وھاں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہے پھر میں تو پاکستانی ہوں جس کے ملک نے اسرائیل کو تسلیم تک نہیں کیا، تل ابیب میں ہمارا تو سفارت خانہ بھی نہیں، میں تو صرف تمھارے ساتھ ہی محفوظ رہ سکتا تھا، میں نے دلیل دی
سوری مین، میں اپنے آپ کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا ویری سوری، چارلی نے آہستہ سے کہا
پھر تو کینسل ہی کردو پروگرام، میں بھی اکیلے ویسٹ بنک جانے کا خطرہ نہیں لے سکتا، میں نے کہا اور منہ لٹکائے واپس اپنے بستر پر ڈھیر ہوگیا۔۔

قصہ اس سارے قصے کا یہ ہے کہ میں اور میرا باس چارلی تین چار دن کے لئے جارڈن کے کیپیٹل عمان اپنی کمپنی کے ایک کام سے آئے ہوئے تھے، ایک میٹنگ میں ٹی بریک کے دوران ہلکی پھلکی گفتگو چل رہی تھی کہ جارڈن کےجنرل منیجر مائیک نے کہا کہ جس شہر میں تم لوگ اس وقت موجود ھو اس سے سو کلو میٹر شمال کی طرف جاؤ تو بیروت ھے، نارتھ ویسٹ کی جانب نکلو گے تو سو کلو میٹر کی دوری پر دمشق ہے اور بیس کلو میٹر کی دوری پرجسرالحسین کراس کرو تو ویسٹ بینک پہنچ جاؤ گے
ویسٹ بینک۔۔۔۔ !!! میری نظروں کے سامنے بیت المقدس کی مسجد عمر کا سنہرا گنبد چمکنے لگا
چارلی بھی بہت پرجوش نظر آنے لگا، اور اسی وقت دوسرے روز کے لئے بیت المقدس کے ٹرپ کا پروگرام بن گیا
رات کو ڈنر کے بعد جب ہم لوگ کلب گئے تو وہاں لاتعداد گورے اپنی فیملیز کے ساتھ موجود تھے، وھاں لوگوں نے چارلی کو جانے کیا پٹی پڑھائی کہ وہ ویسٹ بینک جانے سے خوفزدہ ہوگیا اور اس طرح بیت المقدس جانے کا سنہرا موقع ہاتھ سے نکل گیا
خواب میری خواب میرے ادھورے خواب جو فنا ہو گئے میرے ندیم ۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے، خوابوں کی شال اوڑھ کریادو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا میں زرد پتوں کی مہک تھی، زیتون کے چھوٹے چھوٹے بد شکل سے درخت دھوپ میں نہائے کھڑےتھے، بارش ابھی ابھی رکی تھی، ساری فضا میں زیتون کی پیڑوں کی مہک تھی ہماری گاڑی بڑی سبک رفتاری سے بےآواز کالی سڑک پر تیر رہی تھی دھوپ زرد ہو رہی تھی گاڑی کی کھڑکی سے آنے والی خنک ہوا جب گالوں کو چھوتی تو لطیف احساس ہوتا۔۔۔۔۔
“یہ صاف ستھرا سفید عمارتوں سے دمکتا علاقہ سفارت خانوں کا علاقہ ہے” سعید البدوی بتا رہا تھا۔مگر ہم سڑک پر کیوں تھے، اس وقت تو ہم کو عمان کی الریاض اسٹریٹ پر واقع ہوٹل امپیریل کے صاف ستھرے کمروں میں ہونا چاہیے تھا
مگر کیوں؟
اس کیوں کا بھی ایک قصہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید کہ بہار آئی، زنجیر نظر آئی، جب فصل گل آتی ہے تو پھر پیروں میں لگی بیڑیوں میں غیر محسوس طور جھنکار کی آوزیں آنے لگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن پنٹو میرے آفس میں آیا،
وہ کمپنی کی آٹوموبائل فلیٹ کا انچارج تھا۔
“سر میری ٹائم شیٹ آئی ہوگی آپ کے پاس، سیلری ذرا جلدی بنوا دیں”، وہ میری میز پر جھک کر بولا۔۔
بیٹھو بیٹھو، پنٹو ۔۔۔۔کیا چھٹیوں پر جا رہے ہو انڈیا، میں نے اس کو ویلکم کرتے ہوئے کہا۔
جی چھٹیوں پر تو جا رہا ہوں مگر انڈیا نہیں ویسٹ بینک جانےکا پلان ہے، وہ ذرا رک رک کر بولا۔۔
ویسٹ بینک کیسے؟ وہاں کیسے ؟ وہاں تو سخت پابندیاں ہیں سفر کرنے پر؟ مجھے ذرا حیرت ہوئی!
وہ جی ہم زائرین کی حیثیت سے جا رہے ہیں، تل ابیب یروشلم حیفہ اور بیت اللحم جا کر مقامات مقدسہ کی زیارت کریں گے،
مجھے یاد آیا اس کا پورا نام ولیم ویلفریڈ ولیم پنٹو ہے وہ آرتھوڈکس عیسائی ہے اور ملک شام کے چرچ کا پیروکار ہے۔
کیا خود ہی ارینج کیا ہے یہ ٹرپ تم لوگوں نے، میں نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
نہیں نہیں، عجمان میں ایک ایجنسی ہے جو عراق ،شام ،مصر ،اردن اور یروشلم کی زیارتوں کا ٹور ارینج کرتی ہے!
کون لوگ ہیں، میرے اندر چھپے ہوئے سیاح نے ایک جھر جھری لی،
اس نے خاموشی سے ایک کاغذ پر اس ایجنسی کا نام اور فون نمبر لکھ کر میرے حوالے کر دیا
میں نے شام کو گھر آکر اس کمپنی کو فون کیا اور کہا کہ میں اندلس جانا چاہتا ہوں فیملی کے ساتھ۔۔اندلس کے لیے یہاں سے کوئی ڈائریکٹ فلائیٹ نہیں ہے سر، ادھر سے ایک شیریں آواز آئی۔
آپ کو بہت اخراجات برداشت کرنا ہوں گے، اس کے بجائے ہم آپ کو ایک دن کا ویسٹ بینک اور سات دن کے لیے اردن کا ٹرپ آفر کرسکتے ہیں، ڈرٹ چیپ، ویری سیف فیملی ٹرپ۔۔
میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی اور پرانے خواب نئے دوشالے پہن کر میرے گرد وائلن بجانے لگے۔۔۔۔دل نے کہا دست افشاں چلو،
مست و رقصاں چلو،
راہ تکتا ہے سب ،
شہر جاناں چلو!
ویسٹ بینک ۔۔چلو چلو، یروشلم چلو۔۔چلو چلو
بیت المقدس چلو۔۔۔مسجد عمر چلو۔۔ حیفہ چلو۔۔مسجد اقصی چلو چلو۔۔

وہی ویسٹ بینک دس سال پہلے جہاں جانے کا پروگرام عین اس وقت ملتوی ہوگیا تھا جب میرے باس نے رات بارہ بجے مجھے جگا کر اس کی اطلاع دی تھی۔۔دل نے کہا۔۔اندلس چھوڑو، طلیطلہ اور غرناطہ کی یاترا پھر سہی، الحمرا کے باغ تو پمیشہ ہی بھرے رہیں گے، مسجد قرطبہ میں دو رکعت نفل کی تمنا آئندہ بشرط زندگی، مدینہ الزہرا کے محلات اشبیلیہ کے کھنڈرات اور جبرالٹر کی سیر کے خوابوں کی تعبیر کا وقت ابھی نہیں آیا، چلو یروشلم چلو۔۔ یروشلم۔۔
ابراھیم، اسحاق، یعقوب، یوسف، موسی، جالوت و طالوت، داؤد و سلیمان اور مریم و عیسیٰ کا یروشلم، قبہ معراج جہاں سے رسول کریمﷺ کا سفر قاب قوسین شروع ہوا، مسلمانوں کا قبلہ اول، عمرو بن العاص، خالد بن ولید، عمر خطاب اور صلاح الدین ایوبی کا بیت المقدس۔۔۔
اور اسی رات کو جب میں اپنے لان میں بیٹھا “گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے” کے سحر میں گم تھا تو سیاہ رات کے سناٹے میں تاریک آسمان پر ایک ستارہ نکلا چمکتا دمکتا، ہنستا مسکراتا، روشنی بکھیرتا، بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھاتا ہوا تارا،
شاید یہی میرے سفر کا ستارا بھی تھا۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بکتر بند گاڑی پر نصب سیاہ مشین گن کی لمبی نال چاروں طرف گھومتی ہوئی بالکل میری آنکھ کی سیدھ میں آ کر رک گئی، خوف اور دہشت سے میرے پیر کانپ رہے تھے، سکول کا بستہ جانے کب کا میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر چکا تھا، بیروت کی خانہ جنگی میں ہتھیار اور انسان سب اندھےہو چکے تھے، پورے علاقے میں سناٹا طاری تھا، سڑک پر چلنے والے جانے کہاں روپوش ہو گئے تھے، سڑک کی دونوں طرف کی بلڈنگوں کی کھڑکیاں اندھی اور تاریک آنکھوں کی طرح بند تھیں ان کے نیچے رنگین نیون سائن سے جھل مل کرنے والے کیفے اور ریسٹورنٹ کے شٹر گرے ہوئے تھے، کون دوست ہے اور دشمن کون؟ بکتر بند گاڑی کی آہنی چادر کے اندر بیٹھے مارونی کرسچن یا فلسطینی گوریلے کو اس سے غرض نہ تھی۔۔

اچانک ایک دھماکہ ہوا اور مجھ سے کافی دور کھڑی ایک گاڑی دھڑا دھڑ جلنے لگی، مشین گن کا رخ فوراً اس کی طرف ہوگیا اور ساتھ ہی بکتر بند گاڑی بھی اپنا رخ بدل کرآہستہ آہستہ دھماکے والی سمت بڑھنے لگی، ذرا ہی دیر میں سارا علاقہ پولیس کے سائرن سے گونجنے لگا، ایمبولنس کے ہوٹر بجنے لگے، گاڑیوں کے ہارن اور بریک چیخنے لگے، سڑک پر چہل پہل شروع ہوگئی، ریسٹورنٹ کھلنے لگے، اور سڑک پر زندگی لوٹ آئی، لگتا ہی نہیں تھا کہ ابھی ذرا دیر پہلے یہاں موت کا بھیانک کھیل کھیلا جاچکا ہے اور میں سعید بصام البدوی موت کے منہ سے بال بال بچ کر نکلا ہوں۔۔
یہ یہاں بیروت کا روز مرہ کا معمول تھا!

میں اپنی کمین گاہ سے باہر نکلا، ہاتھوں کا پسینہ پونچھتا اور اپنی بھیگی نیکر سنبھالتا فلسطینیوں کے مہاجر کیمپ کی طرف روانہ ہو گیا جہاں پچھلے تین سال سے میری ماں اور بہن زندہ رہنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے، ابھی میں نے ایک سڑک کراس کرکے دوسری سڑک پر قدم رکھا ہی تھا کہ الٹی سائیڈ سے ایک سفید مرسڈیز بڑی تیز رفتاری سے نمودار ہوئی، میرے قریب آکر اس کے بریک چڑچڑائے اس کا پچھلا دروازہ کھلا اور ایک آہنی ہاتھ نے مجھے گھسیٹ کر کار کے اندر ڈال دیا ،یہ سفید کالے چوخانے رومال کے ڈھانٹے باندھے لوگ تھے۔۔

یہ بردہ فروش تھے یا یہ خواب طلسم تھا، مگر نہیں یہ وہ دروزی جنگجو تھے جو کشت و خون کے ذریعے افرا تفری پھیلانے پر یقین رکھتے تھے، دو سال تک میں نے ان کی پناہ گاہوں میں جنگجوں کی خدمت گزاری میں بغیر آسمان دیکھے گذار دیے، پھر انہوں نے ایک معاہدے کے تحت مجھے قیدیوں کے تبادلے میں فلسطینی گوریلوں کے حوالے کر دیا، ان گوریلوں نے مجھے بچہ جان کر واپس اسی مہاجر کیمپ نمبر چوبیس میں بھجوا دیا جہاں میری ماں اور بہن اب بھی چھوٹے موٹے کام کرکے پر مشقت زندگی گذار رہے تھے، پھر ایک رات ہمارے کیمپ پر کچھ نامعلوم جہازوں سے گولیاں برسائی گئیں، کیمپ میں دہشت پھیل گئی اور نہتے مظلوم لوگ جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے، میرا پورا خاندان اس فائرنگ کی بھینٹ چڑھ گیا، میرے ایک پیر میں بھی دو گولیاں لگیں، میں بچ تو گیا مگر میری ایک ٹانگ میں کچھ ایسا زخم آیا کہ میں ہلکہ سا لنگڑا کر چلنے لگا۔

دس پندرہ دن ریڈ کراس کے اسپتال میں گذرے، وہیں ایک روز سرخ چہروں والے غیر ملکی آئے اور انہوں نے مجھ جیسے اکیلے بچوں کو اسپانسر کرکے تیونس شام اور جارڈن بھیجنے کا فیصلہ کیا، میرے حصے میں جارڈن آیا، چونکہ بیروت کی سڑکیں محفوظ نہ تھیں اس لیے ہم ایک خستہ حال بحری جہاز کے ذریعے عقبہ روانہ کر دیے گئے، بحری قزاقوں نے ہمارے جہاز کا بھی پیچھا کیا مگر اس پر یو این او کا جھنڈا دیکھ کر واپس لوٹ گئے، ہم خیریت سے عقبہ پہنچے اور وہاں سے سڑک کے رستے عمان۔

یہاں امن تھا زندگی تھی اور زندگی اتنی مشکل بھی نہ تھی یہاں مجھے ایک ایسی کمپنی میں بحیثیت ہیلپر نوکری دلائی گئی جو زمینی سرحدوں سے آنے والے گڈز ٹرک اور ان کے ذریعے آنے والے سامان کی پورے اردن میں ترسیل کرتی تھی، ان ٹرکوں کے ساتھ مجھے پورا اردن گھومنے اور دیکھنے کا موقع ملا، مجھے تاریخ کھوجنے کا شوق تھا اس لیے جلدی ہی اردن کے سارے علاقوں کے بارے میں جان گیا، کچھ انگریزی میں بھی شدھ بدھ ہوگئی میرے باس نے میرا شوق دیکھا تو اپنی دوسری کمپنی میں ٹرانسفر کر دیا جو سیاحت کا کام کرتی تھی، یہاں بطور گائیڈ مجھے دنیا بھر کے لوگوں سے ملنے ،ان کی عادات و اطوار اور نفسیات پرکھنے کا موقع ملا مجھے صرف فیملیز ٹوریسٹ کے ساتھ بھیجا جاتا جس کی وجہ سے مجھے نہ صرف گفتگو کرنے کا سلیقہ آیا بلکہ میرے لہجے اور برتاؤ میں ٹھہراؤ اور شائستگی بھی آئی، مختلف زبانوں کے چھوٹے موٹے الفاظ بھی میری سمجھ میں آنے لگے۔

آج بھی مجھے کوئین عالیہ ائیرپورٹ سے ایک پاکستانی فیملی کو لینا ہے ۔جانے کون لوگ ہیں؟ دس دن ان کے ساتھ گذارنے ہیں، میرے باس ولید نے ان کا جو پروگرام میرے حوالے کیا ہے اس میں ایک دن بھر کا پلان ویسٹ بنک جانے کا بھی ہے۔
ویسٹ بینک ۔۔بیت المقدس۔۔ یوروشلم۔۔میرا فلسطین، میرا شہر ۔۔میرے لوگ۔۔آہ۔۔۔۔۔۔

اے میرے ارض وطن، اے میرے حیفہ جہاں کہے ہرے بھرے باغات کے درمیان میرے باپ کا چھوٹا سا گھر تھا، جہاں میں پیدا ہوا جہاں میں نے اپنے پیروں پہ چلنا سیکھا، اے میرے پیارے شہر میں کب تیری زمین کو چوموں گا اے میرے لہو لہو مظلوم فلسطین۔۔۔۔سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے، کشتہ دلوں کا مجمع ہے، گلی کوچوں میں شورش زنجیر ہے، ہم بھی چلیں گے،
چلیں گے ہم بھی مگر ذرا پیرہن رفو کرکے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب ہم عمان کی اونچی نیچی سڑکوں پر تھے جو کبھی پہاڑوں تک چلی جاتیں اور کبھی اسٹیپ میں اتر جاتیں، وہی عمان جس کو بائبل میں “دودھ اور شہد کی وادی” کہا گیا ہے اورہمارا گائیڈ برابر رننگ کمنٹری دے رہا تھا، میرا اصرار تھا کہ بھائی گاڑی کہیں روکو تو، ہم ذرا ادھر ادھر کی تاریخی عمارتوں کو قریب سے دیکھ سکیں، مگر اس کا کہنا تھا کہ آج کے پروگرام میں صرف عمان کا پینوراما ٹرپ شامل ہے ۔ہم گاڑی سے نیچے نہیں اتر سکتے۔

ہوا میں زرد پتوں کی مہک تھی، زیتون کے چھوٹے چھوٹے بد شکل سے درخت دھوپ میں نہائے کھڑےتھے، بارش ابھی ابھی رکی تھی، ساری فضا میں زیتون کے پیڑوں کی مہک تھی، ہماری گاڑی بڑی سبک رفتاری سے بےآواز کالی سڑک پر تیر رہی تھی۔۔۔دھوپ زرد ہو رہی تھی گاڑی کی کھڑکی سے آنے والی خنک ہوا جب گالوں کو چھوتی تو لطیف سا احساس ہوتا۔۔

“یہ صاف ستھرا سفید عمارتوں سے دمکتا علاقہ سفارت خانوں کا علاقہ ہے اور ادھر سیدھے ہاتھ پر پائن، اوک، یوکلپٹس اور پام کے اونچے اونچے درختوں سے گھری طویل چار دیواری والی عمارت شاہی محل ہے” سعید بتا رہا تھا،
مگر ہم سڑک پر کیوں تھے؟ اس وقت تو ہم کو عمان کی الریاض اسٹریٹ پر واقع ہوٹل امپیریل کے صاف ستھرے کمروں میں ہونا چاہیے تھا۔۔
مگر کیوں نہیں تھے، سفر میں ہزاروں قصے ہوتے ہیں اس کا بھی ایک قصہ ہے۔۔۔

ہم رائل جارڈن ائیر لائن کے طیارے کے ذریعے بارہ بج کر دس منٹ پر عمان کے کوئین عالیہ ائیرپورٹ پر اتر گئے تھے جہاں ہمارا ہنس مکھ گائیڈ ،ہمارا منتظر تھا، گائیڈ ہم لوگوں کو پہلی نظر میں ہی پسند آگیا، درمیانے قد کا نرم لہجے میں مودب گفتگو کرنے والا مہذب سعید نہایت سنجیدگی سے ہلکی پھلکی مزاحیہ باتیں کرتا۔ اس کی انگلش ،عربی اور فرنچ زبانوں کی ملی جلی گفتگو سے ہم لوگ خوب لطف لیتے، وہ جلدی ہی سب بچوں سے خوب گھل مل گیا اس کو نقاش کا نام بہت عجیب لگا تھا جب اس کو نقش کے معنی بتائے گئے تو وہ بولا کہ عربی میں نقاش کو “فننان” کہتے ہیں یعنی آرٹسٹ اور پورے ٹور کے دوران وہ اور اس کا خوش مزاج ڈرائیور نقاش کو فننان ہی پکارتے رہے۔

وہ ہم کو ائیرپورٹ سے لے کر سیدھا رائل ہوٹل پہنچا جہاں ہماری بکنگ تھی۔ہوٹل کی لابی ٹورسٹ سے کھچاکھچ ابل رہی تھی،رسپشن کاؤنٹر پر مار دھاڑ کا منظر تھا، امریکن، برٹش، ڈچ، شامی لبنانی بوڑھے بچے عورتیں اونچی اونچی آواز میں گفتگو کر رہے تھے اور فرنٹ ڈیسک کلرک پریشانی کے عالم میں کبھی ایک سے بات کرتا کبھی دوسرے سے، عربی ،فرنچ ،ڈچ اور انگلش ہر طرح کی زبان کی آمیزش سے ہوٹل کی لابی مچھلی بازار بنی ہوئی تھی، گائیڈ ہم لوگوں کو دور افتادہ صوفوں پہ بٹھا کر اس بھیڑ میں گھس گیا، آدھے گھنٹے کے بعد اس کی واپسی ہوئی اور بتلایا کہ دو بجے سے پہلے روم فری نہیں ہوگا۔
تو پھر، میں نے پوچھا
مافی مشکل مافی مشکل، اس نے سر ہلایا۔۔۔۔۔نو پرابلم، چلیں جب تک آپ کو شہر کا راؤنڈ کروادیں،
گاڑی میں گائیڈ نے اپنا بزنس کارڈ میرے حوالے کیا۔۔میں نے کارڈ کو غور سے پڑھا،
سعید بصام البدوی،اٹلاس ٹریول ٹوریسٹ ایجنسی،فون نمبر۔۔!
اب پہلی بار میں نے نوٹ کیا کہ ہمارا گائیڈ چلنے میں ذرا سا جھول کھاتا ہےاور اس کی ایک ٹانگ میں ہلکا سا لنگ ہے..!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply