بیلے کا پھول۔۔رفعت علوی

 ان دلگزاروں کا قصہ جن کو میٹھا سال لگا تھا

اب وہ عارض و رخسار کہاں۔۔۔۔۔۔۔ اور بیلے کا پھول مرجھا چکا تھا احمد آفاق میرے دوستوں میں شامل ہیں، اچھے خاصے سنجیدہ اور معقول آدمی ہیں مگر وٹ غضب کی ہے، مجھ سےعمر میں بہت کم ہونے کے باوجود ہماری انڈراسٹینڈنگ اچھی خاصی  ہے، اپنی بردباری اور اپنے سینس آف ہیومر کی وجہ سے وہ دیگر احباب میں مقبول بھی ہیں انھوں نے شادی دیر میں کی تھی، بیوی ماشاللہ بہت سمجھدار اور رکھ رکھاؤ والی ہیں ایک چار سالہ  بچی کے باپ ہیں، مجھ سے کچھ بےتکلفی اور کچھ عزت کا سا معاملہ  ہے

ایک دن تشریف لائے تو کچھ خاموش سے تھے، موسم اچھا تھا تو ھم دونوں باہر ہی لان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر ہی بیٹھ گئے میں نے ادھر ادھر کی گفتگو میں انھیں ذہنی طور پر غیر حاضر پا کر پوچھا کہ کیا بات  ہے۔  احمد صاحب کیا کوئی پریشانی  ہے۔  پہلے تو وہ چپ رہے  پھر بولے آپ کی پوسٹ کی آخری قسط پڑھی “لالہ باجی” کی زندگی کے حالات پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں میں چپ رہا، بولتا بھی کیا، بہت سارے احباب نے اسی قسم کے جذبے کا اظہار کیا تھا وہ کچھ دیر بیچینی سے پہلو بدلتے رہے۔  جیسے ان کے دل میں کچھ دھواں سا اٹھ رہا ہو، پھر سرگوشی کے انداز میں بولے جی پر ایک بوجھ سا  ہے۔ ۔۔

کیوں ؟میں نے مستجس نظروں سے ان کی طرف دیکھا

کہنا بھی ضروری  ہے!!

تو کہہ دیں کیا آپ فیس بک پر چیٹنگ کرتے ہیں علوی صاحب؟ انھوں نے کچھ بتانے کے بجائے الٹا مجھ سے سوال کیا ۔۔

جی  ہاں کئی احباب ہیں جن سے بات چیت، اور مشورے ہوتے رہتے ہیں۔۔

اچھا،۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ پھر چپ ہوگئے مگر ان کی بے قراری میں کمی نہیں آئی، لگتا تھا کہیں دور تاریک گوشے میں کھڑے روشنی میں آنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے  ہیں، وہ اپنے ہاتھ کبھی کرسی کے ہتھےپر رکھتے کبھی اضطراری طور پر ہتھیلیاں کھول کر اس کو تکنے لگتے جیسے اس لکیروں میں ماضی تلاش ر ہے   ہوں ۔۔تھوڑی دیر بعد وہ میری طرف جھکے اور آہستہ سے بولے کیا آپ سے چیٹنگ کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں؟

جی ہاں خواتین بھی ہیں، میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا وہ پھر چپ ہوگئے ۔میں آپ سے اپنی ایک بالکل ذاتی بات شیئر کرنا چاہتا ہوں، آخر کار وہ اپنی ہتھیلیاں  پھر سے کھول بند کرکے بولے۔اس بار ان کی آواز میں شکست کی جھنکار سی تھی۔

آپ کے اعتماد پر مجھے خوشی ہوئی  ہے۔  اگر کوئی مشورہ چاہیے  تو حاضر ہوں۔۔۔

نہیں اب مشورے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی، وہ ایک عجیب سی ہنسی کے ساتھ بولے جو ہنسی کم ایک کراہ  زیادہ معلوم ہوتی تھی آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں بےتکلفی سے کہیں، آپ کی بات اتنی ہی محفوظ رہے  گی جتنا موتی گہرے سمندر میں محفوظ رہتا  ہے۔ ۔

اس کا نام “بیلا” تھا وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولے، کون بیلا؟ میری فیس بک فرینڈ، نامعلوم کیسے میری اس سے فیس بک پر ملاقات ہوئی، پھر اس نے ایک دن میسنجر پر رابطہ کیا، وہ بے خیالی میں بولے گئے۔۔ میں ان دنوں ابو ظہبی میں تھا اور جاب کے ساتھ سی اے کی تیاری بھی کر ر ہا تھا، رات کو دیر تک پڑھنے کا سلسلہ رہتا، انہی  دنوں اس سے میسنجر پر باتوں کا سلسلہ شروع  ہوگیا، شروع شروع میں اس کی باتیں مختصر اور معصوم سی ہوتیں، لگتا کوئی اسکول کی چھوٹی شریر لڑکی  ہے۔ ابھی بالوں میں ربن باندھے چاکلیٹ کا ریپر پھاڑتی، اچھلتی کودتی سامنے سے گذر جائے گی، مگر وہ گذری نہیں رک گئی، رفتہ رفتہ  ہماری باتوں میں بےتکلفی آنے لگی، مجھے اس سے باتیں کرکے خوشی سی محسوس ہونے لگی، گھنٹوں  ہم لوگ باتیں کرتے، لطیفے اور گھر کے معاملات ڈسکس  ہونے لگے، تصاویر ایکسچینج  ہوئیں ،مجھے اس کی ناک میں چمکتی ستارا سی لونگ بہت اچھی لگتی تھی، ایک تصویر اس نے غرارا پہنے  ہوئے بھی پوسٹ کی جس میں وہ بہت معصوم اور گڑیا سی لگ رہی تھی۔۔

آفاق یہ کہہ کر چپ ہوگئے۔۔۔۔ کیا وہ لڑکی بیلا کراچی میں رہتی تھی؟ میں نے ان سے پوچھا ۔

جی نہیں لاہور میں، اچھا پھر؟  ہماری انڈرسٹنڈنگ بڑھی، مستقبل کے پلان بنےاور ملاقات کی باتیں  ہونے لگیں، اب مجھے اس کا انتظار رہنے لگا مسینجر پر، اسے آنے میں دیر لگتی تو میں بے چین  ہو جاتا، اس کی طرف سے کچھ حوصلہ افزائی  ہوئی تو میں نے سوچا چلو ایگزام کے بعد چھٹی لوں گا اور ایک چکر لا ہور کا بھی لگالوں گا بیلا سے ملنےکے لئے، اس کے گھر والوں سے بھی ملنے کی کوشش کروں گا، ماں باپ بہت دنوں سے شادی کرنے پر زور دے ر ہے  تھے میں ٹالتا رہتا  تھا، سوچا بیلا سے مل کر فیصلہ کروں گا اگر خاندان اچھا  ہوا اور  ہماری کیمسڑی ملتی  ہوگی تو اپنی والدہ سے بات کروں گا شادی کے لئے ۔۔۔میں لاہور پہنچ کر آواری  ہوٹل میں ٹھہرا اور میسنجر پر بیلا کو اس کی اطلاع دی ۔۔

کافی انتظار کے بعد اس کا جواب تو آیا مگر اس میں کچھ زیادہ گرم جوشی اور خوشی کا اظہار نہ تھا، بلکہ کچھ گھبراہٹ سی تھی، میں نے سوچا کہ شاید نروس  ہوگی۔۔ پہلی بار    ملنے کی وجہ سے، شام کو ملنے کی ٹھہری، اس نے لکھا کہ وہ اپنے  چھوٹے بھائی کے ساتھ  ہوٹل کی لابی میں ملے گی۔ شام کو ریسیپشن سے فون آیا کہ میرے گیسٹ آئے  ہیں، میں اس پہلی ملاقات پر نروس بھی تھا اور خوش بھی، میں نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا اور گلدستہ اٹھا کر نیچے آیا، ادھر ادھر دیکھا تو میرے تصورات اور بیلا کی تصاویر سے ملتی جلتی کوئی لڑکی نظر نہ آئی، ہاں ایک ادھیڑ عمر کی باوقار سی گوری چٹی خاتون اٹھارہ بیس سالہ لڑکے کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھی نظر آئیں اور ان دونوں کی آنکھیں میری طرف نگراں تھیں۔۔

میں نے ریسپشنسٹ سے اپنے مہمانوں کے متعلق پوچھا تو اس نے انہی خاتون کی طرف اشاراہ کردیا، میں الجھن میں پڑگیا کہ اتنی دیر میں وہ نوعمر لڑکا اٹھ کر میرے پاس آیا اور شرمیلے لہجے میں بولا کہ آپ احمد آفاق  ہیں نا ؟اور بیلا آپا کو تلاش کررہے   ہیں ؟ میں نے اسے غور سے دیکھا   اور اثبات میں سر  ہلا دیا ۔

میں ان کا بھائی  ہوں “ساحر” اور وہ میری والدہ  ہیں جو آپ سے بات کرنا چاہتی  ہیں، میں نے دل میں سوچا شاید بیلا کے گھر والوں کو  ہماری دوستی پسند نہیں آئی  ہے اور اس کی ماں مجھے سخت سست کہیں گی اور اسکا پیچھا چھوڑنے کا حکم ملے گا، میں دل کڑا کر کے ان کے پاس گیا اور انھیں ادب سے سلام کیا، انھوں نے جواب دےکر پوچھا کیا  ہم اس جگہ بیٹھ کر بات کرسکتے  ہیں، میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، لابی اس وقت خالی پڑی تھی دو چار لوگ کافی فاصلے پر صوفوں پر بیٹھے اپنی باتوں میں مصروف تھے اور میں وہیں بیٹھ گیا اور ڈرتے ڈرتے پوچھابیلا کیوں نہیں آئی؟

بیٹا ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں، بیلا پچھلے دو سال سے بلڈ کینسر میں مبتلا  ہے اور بیڈ پر  ہے، وہ سر جھکا کر بولیں۔۔ جی، مجھے ایک دھچکا سا لگا ۔۔۔ہمارے سارے گھرانے کو تمھاری اور اس کی دوستی کا پتا  ہے، میں ابھی تک شاک میں تھا اور خاموشی سے ان کی شکل دیکھ رہا تھا۔۔ جب سے تمھارے ساتھ اس کی دوستی ہوئی تب سے وہ بہت خوش رہتی تھی، لگتا تھا کہ اس کو زندہ رہنے کا بہانہ مل گیا  ہے، اس موذی بیماری میں آدمی کبھی بالکل ٹھیک لگتا  ہے  اور کبھی بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتا وہ ہر وقت تم سے گفتگو کرنا چاہتی تھی جب اس کی حالت خراب ہوتی تھی تو یہ ساحر اس کی طرف سے تم سے چیٹنگ کرتا تھا مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی، ایک بےعزتی اور دھوکے کا احساس، جیسے کوئی آپ کی پرسنل ڈائری پڑھ لے، گو ہم نے چیٹنگ کے دوران کبھی کوئی خلاف تہذیب یا اخلاق سے گری باتیں شیئر نہیں کی تھیں مگر یہ احساس ہی کیا کم تھاکہ کوئی دوسرا شخص آپ کی لاعلمی میں آپ کو دیکھ رہا  ہے۔ ۔ آپ کی باتیں سن رہا ہے، آخر انسان کی بہت سی چیزیں صرف ذاتی  ہوتی  ہیں جو وہ اپنی ذات تک رکھنا چاہتا  ہے۔  میرے دل میں نفرت کی کھولن سی تھی، دماغ چکر گھمریاں کھا رہا تھا شرمندگی اور خجالت کا یہ عالم تھا گویا بھرے چوک پر عریاں ہو گیا  ہوں وہ میرے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھ رہی تھیں اور خاموش تھیں، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس سچویشن سے کیسے نکلا جائے آخر میں صوفے سے اٹھ کر کھڑا  ہو گیا اور کہاآپ لوگوں کا شکریہ میں واپس جا ر ہا  ہوں

تم ایسے خفا  ہو کر نہیں جا سکتے بیٹا، وہ ملتجی لہجے میں بولیں وہ تمھارا انتظار کر رہی  ہے

جی نہیں ، مجھے معاف فرمائیں میں اب یہاں رک نہیں سکتا بیلا آپا اسپتال میں ہیں احمد بھائی، ڈاکٹروں نے ان کو دو تین دن کا وقت دیا ھے ہے، آپ ان سے  چل کر مل تو لیں، وہ آپ کی منتظر ہیں، ساحر میرا ہاتھ تھام کر بولا ۔۔

جانے اس کے لہجے میں کیا بات تھی مایوسی، لجاجت، ایک آہ کہ میرا دل پسیج گیا،

چلو آخری بار ملو، ایسے کہ  چلتے ہوئے دل راکھ ہو جائیں

کوئی اور تقاضہ نہ کریں،

چاک وعدہ نہ سلے زخم تمنا نہ کھلے۔۔

اور میں بیلا کو دیکھنے چلا گیا وہ ایک خوش شکل نازک سی لڑکی تھی ، ہلکا گلابی سا رنگ، بیلے کے پھول جیسے نازک نقش و نگار، ناک میں جگمگ کرتی روپہلی لونگ ، ایک ایسا پھول جو آہستہ آہستہ مرجھا رہا تھا، وہ مجھے دیکھ کر بستر پہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور آنکھیں جھکا کر بولی میں نے آپ کو دھوکہ دیا نا۔۔

میں نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لی۔۔ا

اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت،

اب نہ تجدید وفا کا نہ شکایات کا وقت۔۔۔

مجھے تم سےکوئی شکایت نہیں بیلا ، میں بہت بیمار ہوں، وہ آنسوؤں میں بھیگی آواز میں بولی۔۔

نہیں تم سے کس نے کہا، تم بہت جلد اچھی  ہو جاؤ گی اچھی لڑکی۔۔ اس کی آنکھوں بھیگ گئیں اور اس کےگرم گرم آنسو میرے ہاتھوں پہ گرنےلگے، مگر  ہاتھ پر کیوں وہ تو میرے دل پر گرے تھے جن کا داغ مدتوں رہا، وہ ہچکیاں لے لے کر روتی رہی، میرا دل بھی بھر آیا، گلا رندھ گیا، جب میرے منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی تو آنسوؤں نے میری مدد کی اور اسی جگہ ٹپکنے لگے جہاں بیلا کے آنسو  گرے تھے، شاید آنسو  کا ملن ہی  ہمارا اصلی ملن تھا ۔۔میں نے گلدستہ اس کے سرہانے رکھا اور چپ چاپ دل گرفتہ دل شکستہ واپس  ہوٹل لوٹ آیا، ہوٹل آکر سب سے پہلے میں نے فیس بک پر بیلا کا اکاؤنٹ بلاک کیا کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا، پھر رات کی فلائیٹ کوچ پکڑی اور کراچی آگیا،

انھوں نے ایک طویل سانس لی اور خاموش ہوگئے اور بیلا کا کیا ہوا، میں نے پوچھا۔۔

بیلا، انھوں نے زیر لب دہرایا ۔۔میں نے سوچا تھا کہ اپنے بےخواب کواڑوں کو مقفل کرلوں کیونکہ اب مرا تعلق اس کم نصیب لڑکی کے ساتھ ختم ہو چکا، خود میرے  دل پہ گھاؤ تھا اس واقعے پر اور میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب بیلا اور اس کے گھر والوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا، مگر یہ ایک شرابی کی صبح کی توبہ تھی جو روز رات کو ٹوٹ جاتی  ہے علوی صاحب، وہ ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے جو خواب شام سے شروع  ہوکر رات گئے تک دیکھے جاتے  ہیں وہ خواب ستارہ سحری کے آنکھ بند کرتے کرتے بکھر جاتے  ہیں، میں نے بھی ایک خواب دیکھا تھا!!!۔۔۔۔۔۔۔۔!! ایک ادھورا خواب دو تین دن بے چینی اور اضطراب میں گذرے، جب طبیعت پر قابو نہ ر ہا تو میں نے ساحر کو فون کیا بیلا کا پھول مہکے بغیر مرجھا چکا تھا!!۔۔۔۔۔۔ اس وقت تک بیلا کو گئے دو دن  ہو چکے تھے ۔۔

اب نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار’ ملو۔۔

ماتمی  ہیں دم رخصت ، درودیوار ملو

پھر نہ ہم ہوں گے ‘نہ اقرار نہ انکار’ ملو

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری بار ملو ‘آخری بار۔۔۔۔۔۔۔۔!!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply