مرد کی مردانگی/عبدالرؤف

میرے دوست نے کہا یار یہ بیگم بھی کسی طوفان سے کم نہیں ہوتی۔ برابر میں کھڑے دوسرے دوست نے کہا طوفان سے کم! میں تو کہتا ہوں فرعون ہے فرعون۔ میں برابر میں کھڑا یہ سن رہا تھا۔ میں نے کہا یار یہ بیگمات بہت صبر والی ہوتی ہیں۔ انھیں کچھ بھی کہہ دو  ذرا برابر بُرا نہیں مناتیں۔

وہ پہلا دوست پھر اچانک سے بولا ، صبر والی کا تو پتہ نہیں، البتہ شر والی ضرور کہہ سکتے ہیں، جو ہر وقت گھر میں فساد ڈھونڈتی ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں اسے عورت نام دے کر عورت لفظ کی بے توقیری ہے۔ عورت کے معنی تو تعریف کے ہیں ۔

میرے دوستوں کو ہمیشہ بیگمات سے شکوہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورت کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ان کا شکوہ ہے کہ بیگمات ان کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دکھایا کچھ تھا اور نکلا کچھ ۔

یہ میرے وہ دوست ہیں جو شادی کے لئیے مرے جارہے تھے۔ روز گھر والوں سے لڑائی کہ ہماری شادی کراؤ۔ اور اب صرف سال کا عرصہ ہی بیتا ہے۔ اور خود کو کوستے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑی اور فاش غلطی شادی تھی۔

شادی شدہ حضرات کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد خوش نہیں رہتے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت شکن پڑی  رہتی  ہے۔لیکن اپنا یہ دکھ کسی کو بتاتے بھی نہیں۔

کیونکہ یہ دکھ ہے ہی ایسا کہ کسی کے ساتھ بانٹا نہیں جا سکتا۔ جس کے ساتھ بانٹا جاسکتا ہے ۔ وہی دکھ کی جڑ ہے۔ اب بندہ جائے تو کہاں جائے۔

دوستوں کی محفلوں میں جو بات مشاہدے میں آئی ہے۔ وہ گھر کی بیگمات پر اپنی بھڑاس کا اظہار ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے سب اک دوسرے پر سبقت لیجانے کو بیقرار رہتے ہیں۔ جیسے محبوب پر اپنی پسند کے اشعار سنائے جارہے ہوں۔لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بیتی  ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے گھر کی بیگمات کے دھتکارے ہوئے ہوں۔

مردوں کو اپنی عورتوں سے سب سے بڑا گلہ ہے عورت کا مکر۔ جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔

میرا اک دوست کہتا ہے کہ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ناک بھنویں چڑھ جاتی ہیں۔ عصر کی چائے سے لیکر رات کے کھانے تک منہ بسورے ہوئے۔ وجہ تو کبھی معلوم ہی نہیں ہوسکی۔ لڑکی کے ماں باپ کہتے ہیں ۔ ہم نے تو بالکل ٹھیک ٹھاک،خاموش طںبعیت، سگھڑ، شوہر کی تابعدار، کفایت شعار  بیٹی دی تھی۔ اب اگر اس میں کوئی نقص آگیا ہے تو اس کی  ذمہ دار کمپنی نہیں۔

میرے اک اور دوست نے تو حد ہی کردی ۔ بیگم کا نام موبائل میں ” بےغم ” کے نام سے محفوظ کر رکھا ہے اور رنگ بھی اسی مطابقت سے رکھی ہے جب بھی بےغم کے نام سے کال آتی ہے اک بھدی سی رنگ بجنا شروع ہو جاتی ہے۔

اک رات دوستوں کے ساتھ محفل میں بیٹھا تھا ، تو میں نے کہا کہ آج یہ رسم توڑ دو اور اک نئے موضوع کا انتخاب کرو ۔ کیا گھر کی زینت کو محفل میں تار تار کئیے بیٹھے ہو۔

دوستوں نے شکایت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا ۔ تم تو خود اس دہلیز کے ستائے ہوئے ہو۔ ہم سے زیادہ دکھ تو آپ کی جھولی میں ہیں۔

بیگمات کی مثال بھی پاکستانی معیشت جیسی ہے جو کبھی بھی بہتر نہیں ہوسکتی۔

میرا اک دوست کہتا ہے کہ میری بیگم مفتی طارق مسعود صاحب کو بہت شوق سے سنتی ہے۔ اک دن مجھے خیال آیا کہ شاید اب مفتی صاحب کی باتوں کا رنگ اس پر چڑھ گیا ہو ۔ موقع غنیمت جان کر میں نے کہا کہ اب آپ کی دوسری شادی کے بارے میں کیا رائے ہے؟ بیگم نے جواب دیا کہ مجھے مفتی صاحب کی باتیں اچھی لگتی ہیں، لیکن دوسری شادی سے مجھے اختلاف ہے۔ آپ مجھے نہیں سنبھال سکتے اس کا کیا حال ہوگا۔ دوست کہتا ہے ۔ میں بیگم کا منہ دیکھتا رہ گیا ۔

عورت اور بیگم کا فرق صرف اتنا ہے کہ بیگم اپنی ہوتی ہے اور عورت پرائی ۔ لیکن کردار دونوں کا اک ہی جیسا ہے۔ یہ اک سکے کے دو رخ ہیں۔

اگر عورت کا زبان کے ساتھ دماغ بھی چلتا تو کچھ سکون ہوتا۔

لیکن میرا دوست کہتا ہے کہ دماغ ہو تو استعمال کریں۔

میرا اک پڑوسی ہے ، اس کی عمر قریباً پینتیس سال ہے ، لیکن اس نے ابھی تک شادی نہیں کی۔

اک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا آپ شادی کیوں نہیں کرتے ۔ شکل وصورت سے بھی اچھے ہو۔ گھر کے حالات بھی اچھے ہیں، پھر کیا پریشانی ہے؟

وہ پڑوسی مجھے دیکھ کر ہنسا اور قریب ہوکر مجھ سے کہا اس گلی میں کتنے گھر ہیں؟ میں نے کہا پانچ ۔ کہا سب شادی شدہ فیملیاں ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں! کہتا ہے روز ان گھروں سے صبح شام لڑائیوں کی آواز آتی ہے۔ کہتا ہے تمام چیخ و پکار عورتوں کی ہوتی ہے۔ مجال ہے کسی مرد کی آواز باہر آتی ہو۔ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا اس میں آپ کا بھی گھر شامل ہے۔

پھر ہنس کر کہتا ہے۔ جب روز براہ راست گھروں سے ڈرامے چل رہے ہوں تو اس صورت میں مجھے کنارا کر نا چاہیے۔

اک دن میرا ایک دوست گھر پسٹل لے گیا ، بیگم کو ڈرانے کے لئیے۔ بیگم نے دیکھتے ہی کہا اس کو ایک طرف رکھ دو بہت جھگڑے چل رہے ہیں ہمارے ۔ کہیں ضائع نہ ہوجاؤ میرے ہاتھ سے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورت اپنے مرد سے بالکل نہیں ڈرتی۔ لیکن سب مرد اپنی عورتوں سے ڈرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply