فلم شطرنج کے کھلاڑی اور نوابین لکھنئو/انوار احمد

پچھلے دنوں منشی پریم چند کی کہانی پر بنی بھارتی فلم “شطرنج کے کھلاڑی” دیکھی۔ فلم کے دو مرکزی کردار لکھنؤ کے نواب ذادے ہیں اور شطرنج کے رسیا جنہیں اپنے گھر بار اور حالات سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ دنیا سے بے خبر ایک ویرانے میں شطرنج کی چالوں میں محو ہیں دوسری طرف گورا پلٹن شہر میں داخل ہو رہی ہے اور نواب واجد علی شاہ کو معزول کرکے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔

بلا شبہ یہ ایک بہت عمدہ فلم ہے۔ تمام فنکاروں نے معیاری اداکاری کی اور اسکرپٹ بھی خوب لکھا گیا۔ اسی طرح فلم کے سین مکالمے اور ملبوسات لکھنؤی تہذیب کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ منشی پریم چند کی اس کہانی کو ستیہ جیت رائے نے جس خوبصورتی سے فلمبند کیا وہ لائق تحسین ہے۔

پریم چند کی کہانی پر بننے والی اس فلم اور ایسے بے شمار افسانوں اور کہانیاں جو اہل لکھنؤ اور شاہان اودھ کی “رنگینیوں اور عیاشیوں” پر لکھی گئیں کو میں ایک دوسرے زاوئیے سے دیکھتا ہوں۔ یہ ایک مختلف انداز فکر ہوسکتا ہے جس پر بہت کم لکھا گیا یا شاید بالکل نہیں لکھا گیا ہو۔

فلم کو دیکھنے کے بعد ذہن میں ابھرنے والے کچھ سوالات نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا۔۔ پیش خدمت ہے!

منشی پریم چند اردو ادب کے ایک بہت بڑے ادیب تھے انکے مضامین اور کہانیاں ہندوستان کی دیہاتی زندگی کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں اور انکے کردار بھی اپنے آس پاس ہی محسوس ہوتے ہیں جس کو انہوں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا۔ وہ ایک اعلی پائے کے ادیب تھے۔ پریم چند کی پیدائش اٹھارویں صدی کے آخر میں ہوئی اس لحاظ سے انہوں نے انیسویں صدی کے شروع میں لکھنا شروع کیا ہوگا یہی وہ زمانہ تھا جب ہندوستان جاگ رہا تھا اور انگریزوں کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی تھیں۔ ہندو اور مسلمانوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف متحد ہوکر سول نا فرمانی۔ ہندوستان چھوڑ دو۔ جیل بھرو تحریکیں شروع کیں۔ اسکے علاوہ اسی زمانے میں گورا راج کے خلاف تحریکیں اور خلافت موومنٹ بھی زور شور سے چل رہی تھیں۔

انگریز نے بدلتے حالات کو بھانپ لیا تھا اور انکو کچلنے کے لئیے اس نے پہلے تو ہندو مسلم اتحاد کو بڑی مہارت سے پارہ پارہ کیا اور پھوٹ ڈلوائی۔ ساتھ ہی مسلم معاشرے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تضحیک کا نشانہ بنایا جس کے لئیے شاید مختلف ادیبوں اور کہانی نویسوں کا بھی سہارا لیا گیا ہو اور من گھڑت کہانیاں زبان ذد عام کی گئیں تاکہ مسلم معاشرے کو مزاق بناکر پیش کیا جائے اور اسکی تحقیر کی جائے۔ شاید اس زمانے کا سوشل میڈیا یہی تھا اور اسی طرح ڈس انفارمیشن ہوا کرتی ہو۔

ہندوستان میں یوپی اور خاص طور پر اودھ ہمیشہ سے علم وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں نہ صرف اہل علم بلکہ انقلابی سوچ رکھنے والی شخصیات نے بھی جنم لیا اور یہ خطہ اپنی تہزیب و روایات کے لحاظ سے ہمیشہ منفرد رہا جس نے انگریزوں کے خلاف مل کر آزادی کی تحریک کا آغاز کیا۔ جوہر برادران، نہرو گھرانہ، من موہن مالویہ، سر سید، حسرت موھانی اور بے شمار ہستیاں اسی خطہ سے ابھریں جو آزادی ہند کی علم بردار بن کر گورا راج کے خلاف صف آرا ہوئے جسکے نتیجے میں برٹش سرکار کو اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑا اور ہندوستان آزاد ہوا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز نے ہندوستان مسلمانوں سے چھینا تھا چونکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا گیا تھا لہذا گوروں کو خطرے بھی مسلمانوں ہی سے تھا کہ کہیں وہ متحد ہوکر اپنے چھینے گئے اقتدار کے حصول کے لئے کوئی جدوجہد شروع نہ کردیں لہذا ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کیے گئے اور انکے شاندار معاشرے اور روایات کو مذاق بناکر عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور “پہلے آپ پہلے آپ، لکھنئو کے بانکے، بٹیر بازی، کوٹھوں پر نواب ذادوں کی تربیت” اور اسی قسم کی لا یعنی باتیں (جو ممکن ہے کہیں رونما بھی ہوئے ہوں) لیکن عمومی طور پر ایسا بالکل نہیں تھا لیکن ایسی من گھڑت باتوں کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے عوام الناس کو یہ تاثر دیا کیا کہ تمھارے سابق حکمراں نرے گاؤدی تھے۔ وہ صرف عیش و عیاشی ہی میں مبتلا تھے اور انکو عوامی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

حقیقت حال یہ ہے کی نوابین لکھنؤ کی اور خاص طور سے نواب واجد علی شاہ کے زمانے میں اودھ کی عوام بہت زیادہ خوشحال تھی اور وہ واجد علی شاہ سے بے حد پیار کرتے تھے اور انہیں”پیا جان عالم” کے نام سے پکارتے تھے۔ اودھ کی عوام بلا تفریق مذہب و مسلک اپنے نواب سے بہت پیار کرتے تھے اور خود نواب صاحب بھی ہر فرقے اور مذہب کی رسومات اور خوشی غمی میں شریک ہوتے جسکی وجہ سے وہاں باہمی یگانگت اور محبت کو فروغ ملا۔

اہل لکھنؤ اپنے نواب سے کتنی محبت اور عقیدت رکھتے تھے اسکی ایک مثال یہ کہ نواب آصف الدولہ کے عہد میں لکھنئو میں سخت قحط پڑا اور کئی سال تک جاری رہا – لوگ نان شبینہ کو محتاج ہوگئے۔ شرفائے لکھنئو کسی سے خیرات یا مدد لینے پر آمادہ نہ تھے۔ نواب آصف الدولہ نے اپنی رعایا کی مدد کا یہ طریقہ نکالا کہ انہوں نے لکھنئو کے بڑے امام باڑے کی تعمیر شروع کروادی اور رعایا سے کہا گیا کہ وہ رات اندھیرے میں نقاب پہن کر آئیں اور صرف ایک اینٹ رکھ دیں جسکے معاوضہ میں انکو ایک اشرفی بطور اجرت دی جاتی۔ اس طرح انکی انکی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوئی اور وہ فاقہ کشی سے بھی بچے رہے۔ دن نکلتے ہی وہ اینٹیں گرادی جاتیں یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک قحط ختم نہیں ہوا۔ نواب کی اس فراخدلی پر اہل لکھنئو نے یہ مصرعہ موزوں کرلیا اور وہ اتنا مقبول ہوا کہ لوگ صبح اپنی دوکانیں کھولنے اور کاروبا شروع کرنے سے پہلے پڑھا کرتے۔۔

“جس کو نہ دے مولا اسکو دے آصف الدولہ”

قحط کے بعد میں یہ امام باڑہ باقاعدہ مزدوروں نے تعمیر کیا اور آج بھی “امام باڑہ آصف الدولہ” کے نام سے اپنی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔

نوابین لکھنئو کی تضحیک تو بہت کی گئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ نواب واجد علی شاہ کی معزولی اور انہیں قید کرنے کے بعد انگریزوں نے جب انہیں مٹیا برج کلکتہ بھجوادیا تو انکی بیگم حضرت محل نے لکھنئو نہیں چھوڑا اور اٹھارہ سو ستاون میں انگریزوں کے خلاف جنگ آذادی میں مجاہدین کی قیادت کی۔ حضرت محل آخر وقت تک انگریز فوج کا مقابلہ کرتی رہیں لکھنؤ کا بیلی گارد (گارڈ) کی مسمار دیواریں اور ریزیڈنسی کی عمارت اپنی تباہی کی داستان آج بھی سنا رہی ہیں جس میں کئی ہزار گورے پسپائی کے بعد چھے ماہ تک محصور رہے بعد میں ایک گورکھا پلٹن نے آکر انکا محاصرہ ختم کرایا۔ آج بھی یہ یادگاریں اہل اودھ کی انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا ثبوت ہیں۔ نواب واجد علی شاہ کے بیٹے شہزادہ برجیس قدر بھی انگریزوں سے ایک عرصے تک بر سر پیکار رہے اور پھر وہ بھی گوروں کے قیدی بنے اور مٹیا برج کلکتہ جلا وطن کردئیے گئے۔

کلکتہ جلاوطنی پر نواب واجد علی شاہ جو خود بھی شاعر اور سر و سنگیت کے ماہر تھے اور اختر تخلص رکھتے تھے۔ انکا یہ گیت “بابل مورا نیہر چھوٹو ہی جائے” وطن کے فراق کا ایک استعارہ بن گیا۔ لکھنئو کی بڑی بُوڑھیاں پنے پیا اختر کی جلاوطنی کے برسوں بعد تک انکے فراق میں پوربی گیت گاتی اور بین کرتی رہیں جو ان سے عقیدت کا مظہر ہے۔ اودھ کے لوگ انہیں پیار سے “اختر پیا” کہتے تھے۔

جنگ آذادی میں پسپائی کے باوجود بیگم حضرت محل نے ہتھیار نہیں ڈالے جب انکی فوجیں انگریزوں کا مقابلہ نہ کرسکیں تو نواب بیگم نے نیپال میں پناہ لی اور وہیں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔

اسی طرح رحمت اللہ خان روہیلہ اور جھانسی کی رانی کی انگریزوں کے خلاف بے مثال جدوجہد کی زیادہ تشہیر نہیں ہوئی اور انہیں باغی کے طور پر پیش کیا گیا۔ آزادی کے ان ہیروز کے کارناموں کو تو اجاگر نہیں کیا گیا لیکن انکی رنگینیوں اور رقص و سرود اور دیگر مشغولیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

چلئیے ایک لمحے کو یہ سچ مان بھی لیں کہ نوابین اودھ عیش و عشرت کے دلدادہ تھے تو کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ کیا اسی قسم کی مضحکہ خیز حرکتیں اودھ اور لکھنؤ کے علاوہ ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں نہیں ہوئیں۔ برٹش راج کے وقت ہندوستان میں پانچ سو سے زیادہ ریاستیں اور رجواڑے تھے جو اسی قسم کی فضول مشغلوں میں مگن تھیں۔ ریاست کشمیر، پٹیالہ اور دوسرے رجواڑوں میں بھی ہاتھی کی شادی، گڑیا گڈے کی شادی یہاں تک کہ من پسند کتوں کی شادی شاہانہ انداز میں رچائی جاتیں جن پر بے دریغ دولت خرچ کی جاتی۔ ان راجائوں نے اپنے پالتو ہرن تک کا مقبرہ بھی بنوایا۔ لیکن اسکا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ اگر منفی تشہیر کی گئی تو صرف شاہان اودھ اور چند دوسری مسلم ریاستوں کی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی کسی معاشرے میں معاشی خوشحالی ہوتی تو اس میں بسنے والے افراد اپنی گرومنگ اور آسائش پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ وہاں کلچر، آرٹ، کھیل، رقص و موسیقی۔ شاعری اور فنون لطیفہ پر وقت اور روپیہ صرف کیا جاتا ہے یہی اودھ اور لکھنؤ میں ہوا۔ دولت کی ریل پیل نے امراء اور عام آدمی کو تن آسان اور عیش کوش بنادیا وہ طرح طرح کی فضولیات میں پڑگئے لیکن ایسا نہیں کہ وہ قومی حمیت اور غیرت سے نا آشنا تھے۔

کیا خلافت عباسیہ اور اموی دور میں ایسا ہی نہیں ہوا کہ خوشحالی اور آسانیوں نے ان کو فنون لطیفہ کی طرف اسطرح راغب کیا کہ وہ اسی میں غرق ہو کر رہ گئیے۔ محلاتی سازشوں اور حرم کی ہزاروں کنیزوں کی جھرمٹ میں گھرے سلطان منگولوں کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور گاجر مولی کی طرح کاٹ دئیے گئے۔ علم و تحقیق کے ماہر فلاسفرز اور سائنسدانوں کی تضحیک کی گئی اور پھر جہالت اور رسوائی انکا مقدر بنی۔

یہی اندلس میں ہوا جہاں غرناطہ میں الحمرا جیسے شاہکار تو تخلیق ہوئے۔ علم و فن اپنے عروج کو پہنچا۔ لیکن اہنی عیاشیوں اور سازشوں کے باعث اپنی سلطنت کا دفاع نہ کرسکے اور آٹھ نو سو سال حکومت کرنے کے باوجود مسلمان وہاں سے ایک ذلت آمیز معاہدے کے تحت نکالے گئیے۔ کچھ ایسا ہی حال اوٹومن ایمپائر کا بھی ہوا تین بر اعظمون پر حکومت کربے والی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ اپنی عیش کوشی کے باعث پارہ پارہ ہوگئی۔

ہندوستان میں عظیم مغل سلطنت بھی ان ہی وجوہات کی بنا پر انگریزوں کے آگے ڈھیر ہوگئی اور اپنی بنائی عمارات اور یادگاروں کے سوا عوام کو کچھ نہ دے پائی۔ تاج محل اور بہت سی دوسری عمارات اور باغات کی تعمیر جو فن تعمیر کا ایک نمونہ ہیں ایسی ہی خوشحالی اور آرٹ سے لگاؤ کی وجہ سے آج بھی مسلمانوں کے شاندار ماضی کی دلیل ہیں۔ کیا ہندوستان کی تاریخ ان حسین یادگاروں کے بغیر مکمل ہو پائیگی۔ کیا قدیم یونانی تہذیب جہاں سے اولمپک کھیلوں کا آغاز ہوا یا اور رومن ایمپایر میں کھیلوں۔ فنون لطیفہ پر بلا دریغ خرچ نہیں کیا جاتا رہا جہاں گلیڈیئیٹرز کے خون آشام مقابلے منعقد ہوتے جن میں شامل ایک فریق کی یقینی موت ہوتی اور اس پر تماشائی خوش ہوتے اور نعرے لگاتے۔ ان مثالوں کو پیش کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ وہ سب ٹھیک تھا۔ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب کسی معاشرے میں خوشحالی آتی ہے تو اس میں اس قسم کی فضول روایتیں اور شوقینیاں بھی در آتی ہیں جو جلد یا بدیر اسکے زوال کا سبب بھی بنتی ہیں۔

چلئیے ایک بار پھر نوابین اودھ کے شوق اور رنگینیوں کی طرف آتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیئے مان لیتے ہیں کے سقوط ہندوستان کا سبب انہی کی وجہ سے ہوا۔ لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ کہ باقی ہندوستان جو ان “عیاشیوں اور پہلے آپ پہلے آپ” کی بدعت سے دور تھا کیوں مٹھی بھر انگریزوں کے آگے ڈھیر ہوگیا۔ اودھ تو بہت بعد کو گوروں کے زیر اثر آیا اس سے تقریباََ سو سال پہلے جنگ پلاسی میں کس نے غداری کی۔ ٹیپو سلطان، سراج الدولہ اور تیتو میر کس کی سازش سے شہید کیئے گیے۔ میر جعفر اور میر صادق کا تعلق تو لکھنؤ سے نہیں تھا۔ سید احمد شہید بریلوی کو تو سرحد کے “غیور اور جفاکش” پٹھانوں نے ہی بلا کر دھوکے سے مروا دیا تھا۔

لکھنو اور اودھ کے زوال سے بہت پہلے ہندوستان کا زیادہ تر حصہ انگریزوں کے تسلط میں آچکا تھا۔ پونڈیچری کلکتہ اور پورے جنوبی ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ پنجاب کے ٹوانہ، ممدوٹ، قریشی، مخدوم اور دولتانہ خاندان کے لشکر اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے مجاہدین کو کچلنے کے لییے انگریزوں کے ساتھ تھے اور وطن سے غداری کے صلہ میں جائیدادیں حاصل کررہے تھے لیکن نزلہ گرتا ہے تو صرف نوابین اودھ اور اہل لکھنؤ پر کیونکہ وہ ایک باعلم اور زندہ معاشرہ تھا جہاں سے کسی بھی وقت کوئی سر سید، جوش، مجاز، مجروح، حسرت موہانی اور ابولکلام آذاد انگریز سرکار کو للکار سکتا تھا لہزا اسی خطے کو ایک منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا اور پھر ہوا بھی ایسا ہی انگریزوں کے خلاف تحریکیں اسی مردم خیز خطے سے اٹھیں۔ انہی علاقوں سے ہندو اور مسلمان نے متحد ہو کر انگریزوں کے خلاف بدیسی مال کے بائیکاٹ۔ انڈیا چھوڑ دو۔ سول نافرمانی کی تحریک چلاییں اور علی گڑھ یونیورسٹی نے تحریک پاکستان چلائی جسکے نتیجے میں انگریز کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور ایک نئی ریاست پاکستان بھی وجود میں آئی۔

شاید یہ تحریر اپنی طرز کی پہلی ہو جس میں نوابین لکھنؤ اور اہل لکھنؤ سے متعلق رنگینیوں کو ایک مختلف زاوئیے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرے اس تجزییے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن حقائق سے فرار بھی ممکن نہیں۔ میں نے اپنی تحریر میں شاہان اودھ اور اہل لکھنؤ کی مبینہ رنگینیوں پر کسی قسم کا پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی لیکن اس طرف بھی اشارہ کیا کہ اسکا اطلاق صرف شاہان اودھ ہی پر نہیں ہوتا اور زوال کا سبب صرف “شطرنج کے کھلاڑی” ہی نہیں تھے بلکہ اس دور میں پورا ہندوستان خواب غفلت میں کھویا ہوا تھا ہمارے اپنوں نے بھی کچھ کم نہیں کیا غداروں اورمفاد پرستوں نے بھی خوب کھیل کھیلا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مٹھی بھر گوروں نے اپنی ذہانت کا خوب استعمال کیا اور ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا اور ہندوستان پر قابض ہوگئے۔ وہ ہندوستان جسکا جی ڈی پی اس وقت سارے یورپ سے کہیں زیادہ تھا جہاں دو چار سال کی پوسٹنگ کے لئیے انگریز بہادر سفارشیں لگاتے تھے۔ یہ ملک سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ بدقسمتی کہ یہی خوشحالی اسکے گلے کا طوق بن گئی اور دو سو سال کی غلامی اسکا مقدر بنی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply