ہمیں بھی پڑھاؤ نا۔۔۔علی اختر

شوکت ! “ایک چائے میٹھا کم”
مجھ سے نظریں ملتے ہی شوکت کی خوشی دیدنی تھی۔ “ارے آپ لوگ پھر سے شروع ہو گئے۔ ”
“ہاں یار اپنی زندگی بس یہی ہے”۔ میں نے جواب دیا تو شوکت مسکراتا ہوا چائے لینے چلا گیا۔
چائے پینے کے دوران ہی “اسلام وعلیکم” کی مخصوص آواز کے ساتھ عابد بھی پہنچ گیا اور کچھ دیر میں اظہر بھی اپنا اسکول بیگ کی طرح کا بیگ لٹکائے ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ آموجود ہوا۔
“ہاں بیٹا تو نے تو آدھے گھنٹے پہلے میسج کیا تھا کہ  میں ہوٹل پر ہوں، تم لوگ بھی آجاؤ” عابد نے اظہر کی طرف دیکھ کر کہا۔
اظہر کی دبی دبی مسکراہٹ اب  شاطرانہ ہنسی میں بدل گئی تھی۔ “وہ تو اس لیے کے تم لوگ جلدی آجاو۔”

ایک بار پھر “CMA” کا ایگزام تھا۔ اس بار ہم امتحان سے ایک ماہ پہلے ہی اپنی بیٹھک پر براجمان ہو چکے تھے جناح پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے سامنے چائے کا ایک ہوٹل ہماری آماجگاہ تھا جہاں ہم کمبائنڈ سٹڈی کے لیے  جمع ہوتے تھے۔

مغرب کے فوراً بعد ہم ایک ایک مخصوص جگہ سنبھال کر بیٹھ جاتے پھر چائے کا دور ہوتا ، ٹھنڈی ہوا، پرسکون ماحول ایک عجب پر لطف سا سماں پیدا کر دیتا تھا۔ باقی ٹیبلز پر اکا دکا لوگ بیٹھے ہوتے ۔ پھر رات گہری ہونا شروع ہوتی ٹیبلز پر تل دھرنے کی جگہ نہ بچتی۔ لوگ ہم سے وہ کرسی بھی مانگنے آجاتے جس پر ہم نے بیگ رکھے ہوتے اور پھر آہستہ آہستہ رات کا سناٹا پھیلتا جاتا۔ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا کہ  بس ہمیں اس جگہ موجود ہوتے اور باقی ٹیبلز خالی ہو چکی ہوتیں۔
چائے کے ہر دور کے بعد شوکت ٹیبل پر کپڑا لگا جاتا۔ لیکن آج کپڑا لگانے پر بارہ تیرہ سال کے ایک پٹھان بچے کی ڈیوٹی تھی ۔
“ارے شوکت بھائی ۔ کیا اسسٹنٹ رکھ کیا ہے” عابد نے شوخی سے پوچھا اور شوکت اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بغیر کوئی جواب دیئے آگے بڑھ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب پیپر ہونے تک اگلے ایک ماہ ہماری شامیں وہیں گزرتیں، چائے کے دور چلتے، فلیور والے فرنچ فرائز ایک نیا اضافہ تھے، جب بھوک ستاتی تو پراٹھے اور انڈے کے ساتھ بھی انصاف ہوتا۔ پھر ٹیبل صاف ہوتی اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہم کوئی مشکل سا سوال حل کرنے میں مشغول ہوتے ۔
پڑھائی  کے درمیان کچھ وقفے بھی ہوتے جس میں حالات حاضرہ، ملک کے سماجی و معاشی مسائل پر گفتگو ہوتی، سیاستدانوں کی کرپشن، تعلیم و علاج کی سہولتوں کا فقدان، تو کبھی صرف ہنسی مذاق کر کے دماغ فریش کیا جا تا، غرض ساری عمر کی طرح مہینہ  بھی پلک جھپکتے گزر گیا۔
آج آخری رات تھی اور کل امتحان، ہماری کوشش تھی کہ  سارا سلیبس ایک آخری مرتبہ دہرا لیا جائے، رات کے دو بج چکے تھے۔ ہمارے علاوہ اس جگہ صرف ایک ٹیبل پر لوگ بیٹھے تھے۔ تھوڑی دور ایک کرسی پر شوکت بھی نیم دراز سگریٹ پینے میں مصروف تھا ۔
“شوکت بھائی ، یار آخری چائے تو پلا دو” عابد نے شوکت کی طرف دیکھ کر کہا۔
” چھوڑو یار اب تنگ نہ کرو ۔ آرام کا ٹیم اے ” شوکت نیند سے چور لہجے میں بولا ۔
“ارے شوکت بھائی  بس آج آخری رات ہے اب اگلے چھ ماہ بعد ملاقات ہوگی”۔ عابد نے کہا۔
شوکت نے کرسی سے ہلے بغیر پشتو میں اس ٹیبل صاف کرنے والے بچے کو چائے لانے کا بولا اور ایک بار پھر سگریٹ پینے میں مصروف ہو گیا۔
“بس یار بہت پڑھ لیا سب گھر کو نکلو کہ  دو چار گھنٹے کی نیند ہو جائے۔” میں ٹیبل پر بکھری کتابیں سمیٹتے ہوئے بول ہی رہا تھا کہ سامنے وی ٹیبل صاف کرنے والا بچا چائے لیے کھڑا تھا۔
“رکھ دو” میں نے ٹیبل پر جگہ بنا کر اشارہ کیا۔
اس نے چائے رکھ دی ۔
پر گیا نہیں ،،،۔
“ہاں بچے کیا ہوا” میں نے پوچھا۔
“آپ لوگ اب نہیں آئے گا”
“نہیں اب ہم اگلے امتحان کی تیاری کرنے آئیں گے۔ آج ہماری چاند رات ہے ، ہمیں چھریاں نظر آرہی ہیں”میں نے عادت کے مطابق دل لگی کی۔
وہ اب بھی کھڑا رہا۔
شاید کچھ کہنا چاہتا تھا۔
بڑی ہمت کرکے اس نے معصومیت سے کہا۔
“آپ امیں بی پڑاؤ نا”

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply