ام القرٰی یونیورسٹی مکہ المکرمہ میں واقعہ ہے اصل میں ہوا یوں تھا کہ ابتدائی دو روز تو میں نے فیصلہ یہ کیا تھا کہ وہ خاموشی سے آؤں گا ، خاموش رہوں گا اور خاموشی سے واپس چلا جاؤں گا لیکن دو روز بعد ہی برادر عزیز ابو الحسن قدوسی کا کہنا تھا :
خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا
انہوں نے مجھے کہا کہ ” بہت سے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں آپ سے محبت کرتے ہیں اب اگر آپ آئے ہوئے ہیں تو احباب کو بتا دیجیے ”
پھر بھی سچی بات یہ ہے کہ مجھے یہ لکھتے ہوئے حیا آئی اور کچھ ریاکاری سی محسوس ہوئی کہ میں پوسٹ کروں اور کہوں کہ “میں عمرے کے واسطے آیا ہوا ہوں” ۔
سو یوں تو نہ لکھا ، لیکن بیت اللہ کی تصاویر اپنی وال پر لگائیں اور ساتھ اپنے احساسات کو درج کیا تو احباب کو اندازہ ہو گیا کہ میں حرم میں موجود ہوں ۔ اس سبب پھر مسلسل احباب رابطے میں رہے ، اور ان کی محبت کہ اس فقیر سے ملاقات کے طلبگار رہے ۔ جس حد تک ممکن ہو سکا پھر ملاقاتیں ہوئیں ۔ اسی طرح ایک روز عزیز مکرم وقاص گل کا فون آیا کہ ، مکہ میں کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں ؟ ۔
بتایا تو انہوں نے کہا کہ ام القرٰی یونیورسٹی کے طلباء ملاقات رکھنا چاہتے ہیں ، مل بیٹھیں گے اور دل کی باتیں سنیں سنائی جائیں گی ۔
سچی بات یہ ہے کہ میں خود ایک طالب علم ہوں اور طلبا سے دلی محبت کرتا ہوں کہ یہی وہ نوجوان ہے جو ہمارا کل ہے اور ہمارا مستقبل ہے ۔ وقت کم تھا ،جی تو یہ بھی چاہ رہا تھا کہ ام القرٰی یونیورسٹی دیکھی جائے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا اور عزیزم وقاص گل نے اپنے گھر پر یہ نشست رکھی ۔ ان کا گھر عزیزیہ میں واقع ہے ۔ مجھے ہوٹل سے لینے کے لیے آئے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ووکو ہوٹل سے نکل کے ہم ان کے گھر پہنچے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہاں کافی تعداد میں طلباء جمع تھے ، ان میں سے بعض معززین سے میرا پہلے سے تعارف و ملاقات تھی ۔ مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی پاکستان کے حالات پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے حالات بین المسالک اور درون مسلک ۔۔
پھیلتے ہوئے الحاد پر بات ہوئی ، اور کچھ اس کے اسباب زیر بحث آئے ۔ وہاں موجود سب حضرات علم و فضل میں مجھ سے بڑھے ہوئے تھے اس کے باوجود انہوں نے مجھے نہایت عزت دی ۔ وہاں پہنچے تو وہاں برادر عزیز مدثر بن یوسف حجازی بھی تشریف فرما تھے ۔ آپ ہمہ جہت شخصیت ہیں ، بیت القرآن میں قرآن کریم کی نشر و اشاعت کے حوالے سے بہت مفید کام کر رہے ہیں ، اور ساتھ ہی ساتھ بادامی باغ لاہور کے علاقے میں ایک مسجد میں جمعہ پڑھاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ آپ خدمت خلق کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔ ابھی دو برس پہلے جب پاکستان میں سیلاب آیا اور علاقوں کے علاقے ڈوب گئے تو آپ اور آپ کے دوستوں نے مہینوں سیلاب زدہ علاقوں میں گزار دیئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑی بڑی تنظیمات کے افراد جب ابھی نکلنے کی تیاری کر رہے تھے ، مدثر صاحب ، برادر عمران سعید اور ان کے دیگر دوست ان دیہاتوں میں پہنچے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کروڑوں کا سامان تقسیم کیا اور اجر اللہ کے ذمے رکھ دیا کہ دنیا کے معاملے میں ان کا یہ نظریہ رہا
ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔
مجلس جمے ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ مکرم شیخ محمد حسین ظاہری اپنے فرزند ارجمند جناب جریر حسین ظاہری کے ساتھ چلے آئے ۔ پردیس میں کسی اپنے دیس والے کا ملنا ہمیشہ معمول سے زیادہ خوشگوار ہوتا ہے ، بھلے آپ یہاں جتنا بھی ملتے رہیں ۔ سو ان کی آمد سے محفل ایک دم خوشگوار ہو گئی ۔ لیکن ان کے ساتھ پیش آئے ایک حادثے نے مجھے خاصا افسردہ کیا ۔ انہوں نے ایک ٹریول ایجنٹ کو عمرے کے لیے پیسے دیے اور اس نے ان کے تمام پیسے خرد برد کر لیے ۔ عموماً ایسے دھوکے ہوتے رہتے ہیں کہ پانچ سو میٹر فاصلے کا ہوٹل کہا اور وہاں جا کر فاصلہ زیادہ نکلا لیکن یہ ایجنٹ تو عجیب تھا کہ اس نے ان کو باقاعدہ جعلی ویزے بھجوا کر تمام رقم کھا لی ۔
عزیزی وقاص گل نے بہت پرتکلف کھانے کا انتظام کر رکھا تھا سو یہ محفل صرف گفتگو نہیں بلکہ طعام کے حوالے سے بھی یادگار رہی ۔ معلوم پڑا کہ وقاص کا یہ گھر مہمانوں کا رین بسیرا ہے کہ آنا جانا لگا رہتا ہے ، جو ان کے وسعت قلب اور شوق مہمان نوازی کی دلیل ہے ۔وقاص کے دستر خوان کی وسعت کے لیے دعا کرتے ہم وہاں سے اٹھے کہ
تیرا پہلو بھی تیرے دل کی طرح آباد رہے۔ اگلے روز ہمیں مدینے کی طرف نکلنا تھا ، اور رات بھی کافی ہو رہی تھی سو اس محفل سے رخصت ہوئے ، اسامہ علوی ہمیں چھوڑنے ہمارے ہوٹل تک آئے ۔ اسامہ بہت مخلص اور پرجوش نوجوان ہیں جو کچھ عرصہ پہلے ہی وہاں پڑھنے کے لئے گئے ہیں ۔
کافی رات بیت چکی تھی اور صبح سات بجے مدینے کو نکلنا تھا ، سو بستر پر دراز ہوئے ۔ مدینہ جانے کے لیے موذن الہی ظہیر کا رات ہی لاہور سے فون آ گیا تھا کہ ” صبح سات بجے آپ کے ہوٹل بس پہنچ جائے گی ، جس پر سوار ہو کر آپ نے مدینے جانا ہے ” ۔
بس مقررہ وقت پر ہی آ گئی ۔ دو روز پہلے ہی میرے عزیز رضوان مقبول اسی ہوٹل میں آ کر ٹھہر گئے تھے ، سو اضافی سامان ان کے کمرے میں رکھ کر ضروری سامان ساتھ لیا اور بس میں بیٹھ گئے۔ معاملہ یوں ہوا تھا کہ خاتون خانہ نے ” سامان سو برس کا ” لاہور ہی سے ہمراہ کر لیا تھا اور اب اسے سمیٹنا، سنبھالنا بذاتِ خود ایک مسئلہ تھا لیکن رضوان فیملی کے آ جانے سے آسانی رہی ۔ معمولی سا انتظار کرنا پڑا کہ کچھ اور افراد بھی بس میں آن بیٹھے اور بس چل دی ۔ خیال تھا کہ اب ہم بس میں بیٹھے ہیں تو سوئے مدینہ ہوں گے لیکن یہ بس ہوٹل ہوٹل گھوم رہی تھی ۔ صبح کا وقت تھا ، ٹریفک ابھی کم تھی سو اس سبب تنگ سڑکوں پر بھی بس سہولت سے گزرتی جا رہی تھی ۔ ممکن ہے ، دن کا وقت ہوتا تو کچھ دقت ہوتی ۔ مختلف ہوٹلوں سے کچھ سواریاں لے کر بس کی رفتار تیز ہو گئی ۔ تھوڑی ہی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ سواریاں پوری ہو گئی ہیں اور
” اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا ”
ہم مکہ سے نکل رہے تھے کہ مجھے ایک سڑک پر لگا ہوا بورڈ نظر آیا جس پر “طریق الہجرہ ” لکھا ہوا تھا ۔ ایک لفظ کیا ہوا کہ صدیوں کے دفتر میرے سامنے کھل گئے ۔ میں یکبارگی بس سے نکل کر ڈیڑھ ہزار سال پیچھے جا چکا تھا ۔ میرے اطراف کی بلند و بالا عمارتیں ، گاڑیاں ، سڑکیں سب میری یادوں کے دھندلکے میں کھو چکے تھے ۔ یہ تو ایک کچھ کچا کچھ پتھریلا ، کچھ اونچا کچھ نیچا راستہ تھا ۔ رات گہری ، چاند بھی ڈوبا ہوا تھا ۔ تاروں کی ہلکی ہلکی روشنی میں اونٹنی پر سوار دو افراد کہ جیسے محض ہیولے تھے ۔ یہ ہجرت کا راستہ تھا اور دو مسافر اس راہ پر راہرو ۔۔۔۔جیسے کہہ رہے ہوں
مرے دل، مرے مسافر.
ہوا پھر سے حکم صادر.
کہ وطن بدر ہوں ہم تم.
دیں گلی گلی صدائیں.
کریں رخ نگر نگر، کا.
کہ سراغ کوئی پائیں.
کسی یار نامہ بر کا
” طریق الہجرہ” سے بس کب کی گزر چکی تھی ، عمارتیں پیچھے رہ گئیں اور اب مکہ کے مضافات بھی تیزی سے پیچھے نکلتے چلے جا رہے تھے لیکن میں صدیوں کا مسافر صدیوں میں گم اپنے گرد و پیش سے بے نیاز سوچوں میں مگن تھا ۔
کچھ ہی دیر گزری ایک چیک پوسٹ آگئی ، وہاں پر بس روکی گئی ۔ ڈرائیور نے آواز لگائی کہ ” سب کے پاسپورٹ چیک ہوں گے سو پاسپورٹ نکال لیجیے “۔ ڈرائیو پاکستانی تھا اور مسافر بھی قریباً سب پاکستانی تھے ۔ ایک سعودی نوجوان وردی پہنے بس کے اندر داخل ہوا ، کچھ لمحے کھڑا رہا جیسے ہمارے چہرے پڑھ رہا ہو ۔ جانے اس کے جی میں کیا آئی ، نیچے اترا اور بس کو جانے کا اشارہ کیا ۔ یوں ہمارا خاصا وقت بچ گیا اور کوئی پاسپورٹ چیک نہ کیا گیا ۔ سورج کافی اوپر نکل آیا تھا اور بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی ۔ مکہ سے نکلے ہوئے ہمیں قریباً ایک گھنٹہ ہو گیا تھا کہ سڑک کنارے ایک بڑے ہوٹل کے سامنے ڈرائیور نے بس روک لی ۔یہ خاصا بڑا ہوٹل تھا لیکن بالکل سادہ سا ، مکمل دیسی ہوٹل جیسے ہمارے پاکستان کی سڑکوں کے کنارے ہوتے ہیں ۔کیشیئر سے لے کر کھانا دینے ، پکانے والے سب پاکستانی تھے ، اکثر ملتان کے علاقے کے تھے ، شاہ راہوں پر واقع ہوٹلوں میں کھانے کے نرخ شہروں کے ہوٹلوں سے عموماً زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس ہوٹل کے نرخ مکہ کے عام پاکستانی ہوٹلوں والے ہی تھے ، البتہ کھانے کا معیار بہت اعلی نہیں تھا ۔ ہوٹل کے پچھلے حصے میں کھلی جگہ پر بیت الخلاء بنے ہوئے تھے ، وہ بھی خاصی بوسیدہ حالت میں تھے۔ چونکہ اکثر مسافر صبحِ دم مکہ سے نکلے تھے سو سب کو ہی ناشتہ کرنا تھا ۔ اس لیے ہوٹل میں خاصا ہجوم تھا ۔ پون گھنٹہ بس یہاں رکی رہی اور اس کے بعد دوبارہ سفر شروع ہو گیا ۔
شدت طلب اور برسوں کا ہجر بار بار آ کے ستا رہا تھا اور میں کہ جو مسلسل سڑک کے اطراف میں تعمیرات ، خشک پہاڑ ، اور آتے جاتے راستوں کو دیکھ رہا تھا ، نشاندہی کرتے بورڈ پڑھ رہا تھا ، کبھی واپس لوٹ آتا اور کبھی پھر گم ہو جاتا۔۔
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
میں دیکھ رہا تھا کہ اطراف کی ویرانی کچھ کم ہو رہی تھی اور آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی آبادیاں آتی جا رہی تھیں ۔ ایک بڑی شاہراہ ہمارے بائیں ہاتھ جا رہی تھی جس پر بورڈ لگا ہوا تھا کہ یہ راستہ جدہ کو جاتا ہے ۔ کئی برس گزرے کہ ابو الحسن قدوسی فیصل آباد میں این ایف سی یونیورسٹی میں پڑھانے واسطے مقرر ہوئے ۔ جب کبھی کوئی دوست فیصل آباد سے آتا تو مجھے لگتا کہ اس سے مجھے ابو الحسن کی خوشبو آ رہی ہے ۔ پھر یوں ہوا کہ میرا بیٹا مسیب قدوسی کا اسلام آباد میں نسٹ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ۔ چار برس کے لیے مسیب قدوسی اسلام آباد رہے یوں جانیے کہ جیسے اپنے جگر کو کچھ دیر کے لیے وہاں چھوڑ دیا تھا ۔ ایک بار کسی کام سے اسلام آباد گیا اور اتفاق دیکھیے کہ اس روز مسیب لاہور تھے ۔ مسیب کا معمول تھا کہ وہ اکثر جمعہ پڑھنے یونیورسٹی سے ڈاکٹر حماد کے پیچھے جاتے جو ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ اب جب میں اسلام اباد کسی کام سے گیا تو دوپہر کا کھانا ڈاکٹر صاحب کے گھر کھایا نماز کا وقت ہوا تو مسجد چلے آئے یہ ایک بڑی دائرے کی شکل میں قریباً چار منزلہ عمارت تھی ۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الہی کہ میرے بزرگ ہیں اور مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں وہ مجھے مسجد دکھانے لگے ۔ ایک ایک حصہ دکھا رہے تھے اور مجھے جیسے ہر ہر کونے اور اینٹ سے مسیب کی خوشبو آ رہی تھی ۔ میں وضو کرنے بیٹھا تو مجھے ایسے لگا میرے اندر بھی مسیب کی خوشبو اتر آئی ۔ پلاسٹک کی بنی چوکی پر بیٹھ کر میں وضو کر رہا تھا اور دل میں خیال آ رہا تھا کہ ” چار برس ہوئے ہیں یقیناً اس چوکی پہ کسی روز مسیب بھی ضرور بیٹھے ہوں گے” ۔
دل محبت میں جیسے یعقوب ہوئے جا رہا تھا کہ یوسف دور ہے اور خوشبو چاروں طرف پھیلے ہوئے ہے ۔ اسی کیفیت میں تھا کہ ڈاکٹر فضل الہی صاحب مجھے مسجد دکھاتے دکھاتے چھت پر لے گئے ۔ چھت سے دور نیچے کشمیییر ہائی وے دکھائی دے رہی تھی ، جس کو اب سری نگر ہائی وے کہا جاتا ہے ۔ وہاں سے ، کافی اترائی میں ، دور گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دے رہی تھیں ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی کیفیت بتائی تو کہنے لگے کہ :
” کئی بار ایسا ہوتا کہ میں کشمیییر ہائی وے سے گزرتا ہوں تو لاہور کی بس آتی دکھائی دیتی ہے تو مجھے اس بس سے بھی محبت محسوس ہوتی ہے ، اس سبب کہ یہ خیال دل میں آتا ہے کہ لاہور میں میری کچھ محبتیں قیام پذیر ہیں ”
یہ محبتوں کے معاملے بھی عجیب ہوتے ہیں . یوسف علیہ السلام مصر میں تھے اور بھائی ان کے پاس غلہ لینے پہنچے سب حکایتیں ، سب شکایتیں ہو چکیں ، قصہ غم سنائے جا چکے ، تو یوسف نے اپنی قمیض بھائیوں کو دی اور کہا کہ ” ابا کے چہرے پہ ڈال دینا ” ۔ مصر سے قمیض چلی اور ادھر کنعان میں بیٹھے یعقوب کہہ رہے ہیں :
” اگر مجھے دیوانہ نہ جانو تو آج برسوں بعد مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے”
اور پاس بیٹھے گھر والے کہہ رہے ہیں :
“چھوڑیے ابا ! آپ تو پرانی محبتوں میں ابھی تک یوں ہی مبتلاء ہیں ”
ان کو کیا معلوم محبت بھلا مرجھایا کرتی ہیں ؟ یہ تو وقت گزرنے کے ساتھ اور تازہ ہوتی ہیں اور انسان کو ہر دم اپنے گھیرے میں لیے رکھتی ہیں ۔ مدینہ قریب آ رہا تھا اور میں پہلے سے ہی موجود محبتوں کے سحر میں مبتلا ایک بڑی محبت کے پاس ، اور پاس ، قریب تر جا رہا تھا ۔
میں کہ عجیب کیفیت میں تھا انسان کو جب غم گھیرتے ہیں تو وہ رو دیتا ہے ، لیکن کبھی کبھی ہوتا یوں ہے کہ وصل ، قربت اور نشاط ، ان سب کا موجود ہونا بھی آنسوؤں کا سبب ہو جاتا ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں یہ جو خوشی کے آنسو ہوتے ہیں ، یہ وصل کے نشاط کے سبب ہوتے ہیں ؟؟
نہیں ۔۔ ۔۔
ہرگز نہیں ۔۔ ۔
کیا یہ اس خوشی کے سبب ہوتے ہیں کہ لمحاتِ وصل و قرب میں انسان جن سے اپنا دامن بھر رہا ہوتا ہے ؟؟
نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔۔
یہ تو جب محبوب ملتا ہے اور انسان اس کو چھوتا ہے ، اس کو ہاتھ لگا لگا کے اپنی بے یقینی کو یقین میں بدل رہا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ رو رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ تو وہ تو ہجر کی تاریک راہوں ، جدائی کے پہاڑ سے بوجھل دنوں کے دکھوں سے ٹوٹا ہوتا ہے ۔ یہ آنسو تو مہر ہوتی ہے اس محبت کی تصدیق کی کہ جو ہجر دل پہ گزرا ، یہ آنسو تو ان فرقتوں کی گواہی ہوتے ہیں ، یہ آنسو تو ان تڑپتے دنوں کی شہادتیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں ان فرقتوں میں تڑپتے دنوں کی شہادتیں پیش کرتا ہوا قریب سے قریب تر جا رہا تھا۔۔۔
یہ مدینے سے پہلے راستے کی تصویر ہے جو میں نے چلتی بس سے اتاری ۔۔۔۔۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں