مینا کماری(1)-ناصر خان ناصر

فلمی دنیا نقل، جھوٹ اور فریب کی دنیا ہے۔ چالبازی، چاپلوسی اور مکر و فریب سے ہی لوگ وہاں پنپتے ہیں۔ وہاں گھڑی گھڑی ساتھ، ساتھی اور وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں۔ قدم قدم پر لوگ دوستیاں مطلب کے لیے کرتے ہیں اور دوستوں کو اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی طرح استعمال کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔

مینا کماری کی موت پر بھی ایک طرف جہاں سب فلمی سرگرمیاں بند کر دی گئیں تھیں وہیں دوسری طرف ہیما مالنی کی فلم لال پتھر کا پریمیئر خوب دھوم دھڑکے سے ہوا اور ہیما مالنی سمیت کئی بڑے فنکاروں نے اس میں بھرپور شرکت کی۔

فلم میرے اپنے کی کہانی گلزار صاحب نے اداکارہ مینا کماری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی لکھی تھی۔ مینا جی کی طبعیت ان دنوں بے حد ناساز رہتی تھی اور وہ مالی پریشانیوں کا شکار بھی تھیں۔ گلزار صاحب کی ان سے بہت دوستی تھی اور وہ ان کی خودار طبعیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے یہ کہانی لکھ کر اس پر خود فلم بنائی تاکہ مینا جی کچھ مصروف ہو کر اپنے غموں سے چھٹکارہ پا سکیں۔ حساس مینا کماری نے اس شرط پر فلم میں کام کرنے کی حامی بھری کہ وہ فلم کا کوئی معاوضہ نہیں لیں گی۔ اگرچہ بہانوں بہانوں سے انھیں قلیل معاوضہ عطا کر دیا گیا تھا۔
فلم پاکیزہ اور میرے اپنے ایک ساتھ ریلیز ہوئیں اور آمنے سامنے سینماؤں میں لگیں۔ لوگ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ ایک فلم میں وہ بالکل بوڑھی تھیں اور دوسری میں نوجوان۔

دراصل پاکیزہ آدھی بن کر چودہ برسوں ڈبوں میں بند رہی۔ پہلے اس کے ہیرو دھرمیندر تھے۔ مینا کماری صاحبہ کی اپنے شوہر کمال امروہوی صاحب سے ناچاقی ہو گئی اور وہ ان کا  گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔ فلم آدھی بن کر بند ہو گئی۔ برسوں بعد مینا کماری سخت بیمار پڑیں اور مرنے کے قریب ہو گئیں تو انھوں نے خود یہ فلم مکمل کروانا چاہی۔ بھاری میک اپ اور ڈبلز کی مدد سے ان کا کام یوں مکمل کروایا گیا کہ وہ سیٹ پر بے ہوش ہو ہو جاتی تھیں اور بالٹیاں بھر بھر کر خون تھوکتی تھیں۔ پان اور کثرت شراب نوشی کی بنا پر ان کے دونوں پھیپھڑے، گردے اور جگر تباہ ہو چکے تھے اور سارے دانت کھائے گئے تھے۔ آخری عمر میں انھوں نے خود اپنی پرواہ کرنا بھی چھوڑ دی تھی۔ انھوں نے ایک دن مشہور موسیقار نوشاد سے فرمایا کہ” میں رات بھرجاگتی ہوں اس خوف سے کہ دن نکلے گا اور دن اس کشمکش میں گزرتا ہے کہ اب اندھیرا ہونے والا ہے”۔
بقول نوشاد صاحب ان سے مینا کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ انھوں نے کاغذ قلم اٹھایا اور مینا کی کیفیت کو اس قطعہ میں سمو دیا۔۔۔
دیکھو سورج افق میں ڈوب گیا
دھوپ اک سر سے تیرے اور ڈھلی
ایک دن الجھنوں کا اور گیا
اک کڑی زندگی کی اور کٹی۔۔

مینا نے یہ قطعہ بارہا پڑھا اور رونے لگیں۔۔۔۔یہ واقعہ نوشاد کی “خود نوشت” صحفہ 264 سے لیا گیا ہے۔

مینا کماری کو ان کی فلم پاکیزہ کا کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا تھا ۔ ان کے مرنے کے بعد ان کے ٹرسٹ کی مالک اداکارہ نرگس نے کمال امروہوی صاحب پر ٹرسٹ کی طرف سے پاکیزہ کے معاوضے کے لیے مقدمہ بھی دائر کیا تھا۔ مقدمے میں کمال صاحب نے یہ بیان دیا کہ اس فلم کا معاوضہ مینا کماری صاحبہ نے جو ان کی قانونی بیوی تھیں، صرف ایک اشرفی مانگا تھا اور وہ یہ ایک اشرفی انھیں ان کی زندگی میں عطا کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ مینا کماری کی قانوناً طلاق نہیں ہوئی تھی۔
مینا کماری نے اپنی تمام شاعری گلزار صاحب کے حوالے کر دی تھی۔ ان کے مرنے کے بعد گلزار صاحب نے ہی ان کا واحد مجموعہ کلام تنہا چاند کے نام سے چھپوایا تھا۔۔۔
ان کے اشعار ہیں
ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا
دھجی دھجی رات ملی
جس کا جتنا آنچل تھا
اتنی ہی سوغات ملی

مینا کماری نے فلم سہارا میں ایک اندھی لڑکی کا کردار بہت خوبصورتی سے ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم کی کہانی سے بہت متاثر ہوئیں اور اپنی وصیت میں اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ اپنے بنائے گئے ٹرسٹ کے نام وصیت لکھ گئیں۔ انھوں نے اپنے ٹرسٹ کا انچارج اداکارہ نرگس دت اور خواجہ احمد عباس صاحب کو بنایا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اندھوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اداروں کی امداد کی جائے۔
مینا جی کے مرنے کے بعد ان کے عزیزوں نے ان کی وصیت کا کوئی احترام نہیں کیا اور ٹرسٹ کو اندھوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی رقم یا جائیداد نہیں دی گئی۔ اداکارہ نرگس نے مینا کماری کی آخری ریلیز کردہ فلم “گومتی کے کنارے” کا اسپیشل چیرٹی شو کروایا۔ ان کا ٹارگٹ ایک لاکھ روپے تھا مگر شومئی قسمت سے اس شو سے صرف پچاس ہزار روپے ہی جمع ہو سکے۔ اداکارہ نرگس نے فلم انڈسٹری کے سرکردہ لوگوں اور مینا کماری کے دوستوں سے چندے کی اپیل کی اور وہاں موجود اداکاروں نے مل جل کر پچاس ہزار روپے بعد میں دینے کا اعلان کر دیا۔

بعد میں کسی نے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ محترمہ نرگس صاحبہ اپنے ساتھی فلمی اداکاروں کے اس روئیے سے بہت برافروختہ اور ناراض ہوئیں۔ انھوں نے پچاس ہزار کی رقم ممبئ کے ایک نابینا لوگوں کے سکول کو بھجوا دی اور اس ٹرسٹ کو بند کر دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply