پشتون حاجی ۔۔۔ عارف خٹک

ہمارے ہاں حج عموماً اس وقت کیا جاتا ہے جب انسان کو کنفرم ہو جائے کہ اب مزید گُناہ کرنے کی عمر، شکل اور سکت نہیں رہی۔

حج کافی لوگوں نے کئے ہیں۔ مگر آفرین ہے میرے دادا پر جن کی حج واپسی پر دور دراز علاقوں سے لوگ مبارکباد دینے کیلئے حاضری دینے لگے۔ وہ بیچارے زیارت مبارک کے ایمان افروز قصے سننے کے متمنی ہوتے اور دادا ان کو فقط یہ بتاتے کہ سعودی عرب کی کھجور بہت مزے کی تھی۔ بالآخر بڑے چچا نے ابا کو سمجھایا کہ ابا لوگوں کو مقامات مقدسہ کے بارے تجسس ہے اور آپ کھجوروں کے قصے سنائیں جارہے ہیں۔ دادا جلالی لہجے میں گویا ہوئے کہ لاکھوں اپنے پلے سے خرچ کرکے میں مفت میں انھیں کیوں ایمان کی دولت سے مالامال کروں۔ خود کریں پھر پتہ چلے۔

یوسفی کہتے ہیں کہ میاں اورنگزیب آف بنوں کے دادا نے ستر قتل کئے،اور ستر ہی حج کئے۔ میں نے پوچھا اب مزید کتنے قتل کرنے کا ارادہ ہے؟ جواب دیا کہ اب وہ کمزور ہوچکے ہیں۔ حج کرنے کی ہمت نہیں رہی۔

ہمارے پشتونوں میں بچپن ہی سے فیصلہ کیا جاتا ہے،کہ پچپن تک خوب گُناہ کرنے ہیں اور چھپن میں جاکر حج کر کے ساتھ میں حاجی کا لاحقہ بھی لگوانا ہے۔

اب حاجی صاب کو مسجد کی اگلی صف میں عین امام کے پیچھے کھڑا ہونے سے کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا۔ محلے میں کسی بھی لڑائی کا غلط فیصلہ کرنا،اور مخالفین کی زبانی کلامی ماں بہن ایک کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر کی کنواری لڑکی کو اپنی دوسری منکوحہ بنانا ان کے حقوق میں شامل ہوجاتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے حاجی ضمیر خان نے چار حج کئے اور چار شادیاں کیں۔ میں نےپانچویں حج کا پوچھا تو صدمے کی کیفیت میں سر جُھکا کر فرمایا اسلام میں چار بیویوں سے زیادہ کی ممانعت ہے۔

اگر شومئی قسمت اوائل عمری میں بندہ حج کرلے تو اس کی قسمت ہی کھل جاتی ہے اور معجزات کی بارش ہونے لگتی ہے۔ کچھ معجزات کے تو ہم بھی گواہ ہیں۔ اگر حاجی صاب کا کپڑے کا کاروبار ہے تو حج کرنے کے بعد اس کے پیمائشی گز کا معجزے سے مزید چھوٹا ہوجانا، اگر گاؤں کا ملک ہے  تو دوسرے کے حقوق بمعہ ان کی زمینوں کا اس کا ہوجانا اور ہمشہ اپنے غلط فیصلے کو ٹھیک اور دوسرے کے فیصلے کو غلط سمجھنا جیسے معجزات تو بہت معمولی تصور کئے جاتے ہیں۔ اگر حاجی صاحب کا تعلق کرک یا بنوں سے ہے  تو بغل میں ایک کی بجائے دو دو خوبصورت لونڈے رکھنا اُس کیلئے ناگزیر ہیں ورنہ ایسے حاجیوں کیلئے پشتو میں ایک بہت بُرا لفظ ہے۔

حاجی صاحب عموماً فائدے میں رہتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالی کا خصوصی کرم تو صرف انہی پر ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ ماں بہن ہم غریب رشتہ داروں کی ایک ہوجاتی ہے۔ جیسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ فلاں تاریخ کو حاجی ضمیر خان کا جہاز پشاور ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والا ہے، چھوٹے سے گاؤں کی ہر دیوار پر

 “حاجیانو صاحبانو حج مو مبارک شہ” 

(حاجی صاحبان کو حج مُبارک ہو)

لکھنا اب ہر رشتہ دار پر گویا فرض ہوجاتا ہے ورنہ حاجی صاب نے نہ گلے ملنا ہوتا ہے نا ہی اس کو تسبیح، ٹوپی یا آب زمزم کا گھونٹ پینا نصیب ہوسکتا ہے۔ ایسے رشتہ داروں کےلئے بھی پشتو میں ایک بہت بُرا لفظ ہے۔

اس دن پشاور ایئرپورٹ کے لئے پورے گاؤں کے خواتین و حضرات  بمعۂ اپنے بے شُمار و لاتعداد بچوں کے باجماعت گاڑیوں پر لدے ہوئےایئرپورٹ پدھار جاتے ہیں۔ خواتین گِھس ِگھس کر دنداسہ لگائے نارنجی ہونٹوں، سُرمے سے بھری آنکھوں اور سرسوں کے تیل کی بوتل سر پر اُنڈیل کر جس عقیدت کےساتھ پک اپ کے پائیدانوں سے لٹک جاتی ہیں للہ ہم جیسے بے ایمانوں کافروں کے ایمان ڈانواں ڈول تو ہوتے ہی ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ کافی دیر تلک ڈگمگائی ہوئی پوزیشن سے واپس آنے کانام بھی نہیں لیتے۔ میں نے تو ایسی خواتین کو بھی دیکھا ہے جو فرطِ عقیدت میں نازیہ اقبال کے پشتو گانوں پر تالیاں پیٹ پیٹ کر بیچاریاں یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ شاید اُنھیں شوہر کی تیسری بارات میں زندہ سلامت جانا نصیب ہورہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو پہلی بار پشاور جارہے ہوتے ہیں ان کی خوشیاں دیدنی ہوتی ہیں۔ رنگ برنگے کپڑوں میں وہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھ کر انتہائی فخر کےساتھ فطری ضروریات پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک حاجی صاب کے پیچھے کم از کم بیس لواحقین کا آنا ازحد ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر ایک ہی گھر سے دو حاجی ہیں، تو تعداد پھر چالیس تو ہونی ہی ہونی ہے۔ اگر حاجی صاب کے ساتھ ان کی بیگمات بھی ہیں تو ان کی بیگمات کے میکے سے اس سے دوگنے لواحقین کا آنا از حد ضروری بن جاتا ہے ورنہ سسرال میں ایسی حاجنیں بہت کم ذات تصور کی جاتی ہیں۔ بقول حاجی تلاوت خان کے ایسے حاجیوں کا حج بھی قبول نہیں ہوتا اور پشتو میں ان کیلئے ایک بہت بُرا لفظ ہے۔

بین الاقوامی آمد والے راستے کے دونوں طرف لوگوں کی ایسی بیتابیاں اور بدحواسیاں دیکھنے میں آتی ہیں، کہ الامان ۔ ریلنگ پہ آدھے اندر آدھ ےباہر ایسے لٹکے جُھول رہے ہوتے ہیں جیسے بس اگر ایک پل کو بھی نظر جھپکی تو اُن کے قیمتی حاجی کوکسی اور نے اُڑا لینا ہے۔

لال، پیلے، ہرے، نیلے کاغذی گُلابوں والے ہار ہر کسی کے ہاتھ میں نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کوئی نوٹوں والا ہار ہاتھوں میں لیے گھوم رہا ہوتا ہے جسے دیکھ کر اپنی شادی کا منحوس دن یاد آجاتا ہے۔ میں شادی اور ہار دونوں پر لعنت بھیج کر مُنہ دوسری طرف کر لیتا ہوں۔

خدا خدا کرکے حاجی صاحب کا نُورانی چہرہ نظر آتا ہے تو لواحقین سیکیورٹی کی پرواہ کئے بغیر رُکاوٹوں پر سے چھلانگیں مار کر سارے کے سارےاُس پر ایسےجھپٹ پڑتے ہیں جیسے چیل کوے فاختہ کے بچوں پر جھپٹتے ہیں۔ اب کوئی ایک طرف سے کھینچ کر اپنے ساتھ اتنی شدتوں سے لپٹا اور چمٹا رہاہوتا ہے جیسے بندہ حج سے نہیں بلکہ کسی خُونی جنگ کے محاذ سے مرتے مرتے بچ کر شہید کی بجائے غازی بن کر لوٹا ہو،

تو کوئی دوسری طرف سے ہاتھ پیر چُومنے کے لئے ہلکان ہوئے جارہا ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ آنسو بہانے کی رسم بھی زور و شور سے ادا کی جارہی ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پشاور ایئرپورٹ کے فرش پر لوٹتے پوٹتے ہزاروں کی تعداد میں شٹل کاک برقعے اور فی عدد برقعے کے ساتھ موجود ان کے اکلوتے شوہر جو سُرخ ہار پہنے اِدھر اُدھر گھوم رہے ہوتے ہیں یہ بات ثابت کرنے کےلئے کافی ہے کہ الحمداللہ پشتونوں کی وجہ سے اسلام کو جو سربُلندیاں نصیب ہوئی ہیں وہ پنجابی جیسے کافر کیا جانیں!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply