سگمنڈ فرائیڈ: بابائے نفسیات کےنظریات کاتعارف(4)-عدیل ایزد

فرائیڈ کا نظریہ خواب:
خواب اور اس کی تعبیر کا قضیہ بہت ہی پرانا ہے ۔فرائیڈ کے نظریات سے قبل خواب اور اس کی تعبیر کے سلسلے میں کئی روایات ملتی ہیں۔ مثلاًقرآن مجید میں حضرت یوسف ؑ کے متعلق تفصیل موجود ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں خوابوں کی تعبیر کا ملکہ عطا کیا تھا۔انہوں نے قید خانے میں اپنے دو ساتھیوں کے خواب کی تعبیر کی اور فرعون کے خواب کی تشریح کی تھی جو واقعی سچ ثابت ہوئی۔ اسلامی نکتہ نظر کے علاوہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ خوابوں کا تعلق ان مافوق الفطرت ہستیوں سے ہے جن پر ان کا اعتقاد تھا ۔ان کے خیال میں خواب دیوتاؤں یا شیطان کی طرف سے الہام ہوتے ہیں۔ایک خیال یہ بھی تھا کہ یہ دیوتا یا شیطان خواب دیکھنے والے کے لیے ایک خاص مدعا رکھتے ہیں ۔اس طرح قدیم لوگ خواب کی تعبیر مستقبل کی پیشگوئی کے حوالے سے کرتے تھے ۔ افلاطون نے اپنی کتاب جمہوریہ (Republic)میں خواب پر بحث کی ہے۔ افلاطون اور فرائیڈ کے نظریات میں ایک حد تک مماثلت پائی جاتی ہے ۔افلاطون کے نظریہ خواب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی دبائی گئی خواہشات کی خرابیوں اور فساد ،ان کی آسودگی،بہیمانہ تہیجات اور محبت کے وجود پر یقین رکھتاہے جو فرائیڈ کی فکر کے مشابہہ ہے۔ ارسطو نے اپنی کتاب میں قدما کے ان خیالات کو رد کیا ہے کہ خواب کوئی الہام ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا تعلق ما فوق الفطرت مظاہر سے ہے۔ بلکہ اس کا تعلق انسانی قوانین سے ہے ۔اس کے مطابق خواب ،خوابیدہ انسان کے نفسیاتی فعل کا نام ہے ۔ارسطو کے نزدیک خواب ایک ہلکے سے احساس کو شدید محسوسات میں بدل دیتا ہے ۔اس کے نزدیک قابل طبیب کو نہ صرف خواب پر غور کرنا ضروری ہے بلکہ خوابوں سے اصل مراد لینی بھی لازمی ہے ۔ کچھ قدما نے خوابوں کو روز مرہ کے واقعات کی پیداوار بھی کہا ہے ۔بعض علماء کے خیال میں ’’ہم اس چیز کا خواب دیکھتے ہیں جن کو ہم نے دن کے وقت دیکھا ،چاہا یا کیا ہو ‘‘ سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی مشہور کتاب ’’خوابوں کی تعبیر ‘‘ (Interpretation of Dream)میں تمام مکاتیب فکر کے برعکس خوابوں کا نظریہ پیش کیاجس کو بہت سراہا گیا۔فرائیڈ کو لاشعور کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ خوابوں کا تعلق زمانہ ماضی کے واقعات سے ہوتا ہے اور یہ فرد کی نا آسودہ خواہشوں کی تکمیل گاہ ہیں جو بیداری کے عالم میں پوری نہیں ہوسکتیں وہ خواب میں تسکین حاصل کر لیتی ہیں ۔ نفسیاتی مریضوں کے علاج کے دوران طریقہ علاج جن سے فرائیڈ کام چلا رہا تھا مثلاً تنویم اور ایعاذدونوں اس کے لیےکچھ زیادہ قابل بھروسہ نہ تھے ۔وجہ یہ تھی کہ تنویم کے ذریعے طاری کی جانے والی نیند کے دوران مریض گذشتہ زندگی کے احوال بیان تو کر دیتا مگر مصنوعی نیند سے جب وہ بیدار ہوتا تو اسے وہ تما م باتیں بھول جاتیں جو اس نے نیند میں بولی تھیں۔اس سے مرض سے مکمل خلاصی نا ملتی۔اس طرح ایعاذ کے طریقہ کار میں بھی خامیاں تھیں کیونکہ وقتی طور پر تو مریض دی جانے والی ہدایت پر عمل کرتا اور جب بہتری کے امکانات پیدا ہوتے مریض عدم تعاون پر اتر آتا ۔اس سے اس کی بیماری بھی لوٹ آتی۔اس دوران فرائیڈ کو محسوس ہوا کہ سختی کی بجائےشفقت سے مریض سے بہت کچھ اگلوایا جا سکتاہے۔اس سلسلے میں ’’آزاد تلازم خیالات(Free association of thoughts) ‘‘کا طریقہ بڑا کار آمد ثابت ہوا۔اس طریقہ علاج میں مریض کو چند منتخب الفاظ کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے،معالج ایک لفظ مریض کے سامنے رکھتا ہے اور اسے کہتا ہے جو منہ میں آئے بیان کرتے جِائے ۔’’تحلیل نفسی‘‘ میں اس طریقہ علاج سے مریض صحت مند ہونے لگے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ’’تحلیل نفسی‘‘ کا خواب سے کیا تعلق ہے؟بات دراصل یہ ہےکہ ’’تحلیل نفسی‘‘ کے تجربات یعنی مریضوں کے علاج کے دوران ہی فرائیڈ پر یہ انکشاف بھی ہواکہ مریض اگر اپنا کوئی خواب بیان کر دے تو خود کو بہت ہلکا اور قدرے صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے۔یہی وجہ کہ فرائیڈ خوابوں کی طرف متوجہ ہوا۔اس طرح خواب ’’تحلیل نفسی‘‘ میں اہمیت اختیار کر گئے۔ دورا ِن تحقیق،مریضوں پر کی جانے والی تحقیق سے اسے یہ بھی انکشاف ہواکہ اکثر و بیشتر خوابوں میں تمنا کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ خواب دبی ہوئی نا آسودہ خواہشات کی تسکین کی غرض سے آتے ہیں۔ فرائیڈ ان خواہشات کا تعلق لاشعوری خواہشات سے جوڑتا ہے جنہیں فرد بچپن سے دباتا آیا ہے ۔ان میں اکثر و بیشتر خواہشات جنسی ہوتی ہیں۔ خوابوں کی تشکیل میں لاشعور کی موجودگی کی کئی شہادتیں کثرت سے ملتی ہیں جن کو فرائیڈدرج ذیل صورتوں میں بیان کرتا ہے۔
الف۔بیداری کی زندگی کے مقابلے میں خوابوں میں قوت حافظہ بہت زیادہ ہمہ گیر ہوتی ہے۔خواب ان یادوں کو واپس لے آتے ہیں جنہیں خواب دیکھنے والا بھول چکا ہوتا ہے اور بیداری کی حالت میں اس کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔
ب۔ خواب بے شمار لسانی علامتوں(linguistic symbols) کو کام میں لاتے ہیں جن کا مفہوم بڑی حد تک خواب دیکھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا ،تاہم ہمارا تجربہ ہمیں ان کا مفہوم متعین کرنے میں مدد کرتا ہے۔ان علامتوں کی اصلاً ًًغالباً زبان کی نشونما کے گزشتہ ادوار میں ہوتی ہے۔
ج۔ اکثر خواب دیکھنے والے کے بچپن کے ابتدائی ادوار کے تاثرات دوبارہ پیش ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم قطعیت کے ساتھ یہ دعو ٰی کرسکتے ہیں کہ وہ نہ صرف فراموش شدہ ہیں بلکہ احتباس کے عمل کی بدولت لاشعوری بن چکے ہیں۔اس سےاس بات کی توضیح ہوتی ہے کہ اعصابی اختلال کے تحلیلی علاج کے دوران جب ہم خواب دیکھنے والے کی ابتدائی زندگی کی از سر نو تشکیل کرتے ہیں تو ہمیں خوابوں سے کتنی مدد ملتی ہے عموماً اس مدد کے بغیرکامیابی ممکن نہیں۔
فرائیڈ خوابوں کے مطالعے میں لا شعور کو فرد کے بچپن تک محدود نہیں رکھتا بلکہ یہ لا شعوری حصہ مورثی بھی ہوتا جس میں قدیم ترین روایات اور ماضی کے رسم و رواج کے اثرات و باقیات پائی جاتی ہیں۔
خواب ایسے مواد کو بھی روشنی میں لاتے ہیں جس کی اصل نہ خواب دیکھنے والے کی بعد از بلوغ میں ملتی ہے نہ اس کے فراموش شدہ بچپن میں ہم اسے عہد عتیق کا حصہ ماننے پر مجبور ہیں جو بچہ اور حواس کے ذاتی تجربات کےآغاز سے پہلے وجود میں آچکے ہیں،اپنے ساتھ دنیا میں لاتا ہے ۔یہ اس کے موروثوں کے تجربات کا نتیجہ ہے۔ہمیں قدیم ترین انسانی روایتوں اور ماضی کے رسم و رواج کی باقیات میں ایسے عناصر ملتے ہیں۔ خوابوں میں ہمیں ما قبل تاریخ تجربات کا سرچشمہ ملتا ہے جن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مندرجہ بالا دونوں اقتباس سے دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے ۔پہلی یہ کہ خواب کہ عمل میں تسکین کا پہلو غالب ہوتا ہے۔دوسرا یہ کہ خواب میں جن خواہشات کی تسکین ہوتی ہے وہ سرا سر لاشعوری اور جبلی ہوتی ہیں۔
خوابوں کی خصوصیات
فرائیڈ خوابوں کی خصوصیات کو مندرجہ ذیل صورتوں میں بیان کرتا ہے ۔
خواہشات کی تسکین
فرائیڈ کے نزدیک ہماری بے شمار خواہشات گندی اور بہیمانہ ہوتی ہیں جنہیں بیداری کی حالت میں سپر ایگو کے خوف سے آسودہ کرنا ممکن نہیں رہتا اور یہ خواہشات لا شعور میں چلی جاتی ہیں ۔نیند کے دوران محتسب جب گہری نیند سو جاتا ہے تو یہ لا شعوری خواہشات جنہیں دبا دیا گیا تھا تسکین کی غرض سے احاطہ شعور میں داخل ہو جاتی ہیں ۔چونکہ فرد ان کے متعلق سوچتا تو رہتا ہے مگر اخلاقی آداب اور معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے فرد انہیں آسودہ نہیں کر پاتا لہذا وہی نا آسودہ خواہشات خواب کی دنیا میں جہاں اخلاقی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور آسادگی حاصل کر لیتی ہیں ۔
نیند کی حفاظت
خواب نیند کے محافظ ہوتے ہیں چونکہ سوتے وقت شعوری و اخلاقی گرفت کمزور ہوتی ہے ۔اس دوران خارج سے دخل اندازی کا امکان نہیں رہتا لیکن خواب ان کو نیند میں دخل انداز ہونے کے بجائے ایک نئے مہیج کی حیثیت دے دیتے ہیں ۔جس سے خواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔اس طرح خواب بیرونی دخل اندازی کو روکتے ہیں اور نیند کی حفاظت کی کرتے ہیں ۔ وہ نا خوشگوار واقعات جو لاشعور کا حصہ تھے نیند کی حالت میں اپنی شکل و صورت مسخ کر کے سپر ایگو کو دھوکہ دے کر شعور میں در آتے ہیں ۔فرد کو نیند کی حالت میں ان کی ناگواری کا احساس تک نہیں ہوتا ۔وہ جو جاگتی آنکھوں کسی بھی بالغ اور باشعور فرد کے لیے بھیانک تھے نیند میں خوشگوار اور باعث تسکین تھے ۔ اگر یہ واقعات اپنی اصل صورت میں خوابوں میں بھی ظاہر ہوتے تو فرد ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ۔اس لیے خواب کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ نیند کی حفاظت ہوتی رہتی ہے اور خواہ کیسے ہی بھیانک واقعات نظر آئیں خواب میں ان کا حلیہ اس قدربگڑ جاتا ہے کہ فرد اصل سے بے خبر ہوکر میٹھی نیند سویا رہتا ہے۔اسی سے اسے آسودگی حاصل ہوتی ہے اور یہی آسودگی نیند کو اور زیادہ گہرا کر دیتی ہے ۔نیوراتی مریضوں کے خواب بھی اسی لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں چونکہ ان میں بھی ناآسودہ خواہشات ہوتی ہیں جو فرد کو تشویش اور پریشانی مبتلا کر دیتی ہیں جس کا سراغ تحلیل نفسی کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے ۔
خوابوں کا سچ ثابت ہونا
دوران خواب تمام واقعات سچ اور درست نظر آتے ہیں لیکن بیداری کے بعد یہ واقعات لغو ،جھوٹ اور بے معنی نظر آتے ہیں۔فرائیڈ کے نزدیک خواب کے دوران ان واقعات کا سچ ثابت ہونے کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ اس وقت فرد کی تنقیدی صلاحیت اور واقعات کی صحت کے متعلق چھان بین کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے ۔شعور بھی اس دوران سو جاتا ہے جس کی وجہ سے خوابوں کی صحت کو جانچنے کے لیے فرد کے پاس کوئی معیار موجود نہیں ہوتا ۔فرائیڈ بتاتا ہے کہ خوابوں کی جاذبیت اور ان کی شدت سے موثر ہونے کی بنا پر فرد ان کو سچا تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ عام خواب جس طرح دکھائی دیتے ہیں حقیقتاً وہ ایسے نہیں ہوتے بلکہ خواب کی علامات کچھ اور ظاہر کرتی ہے جبکہ تحلیل نفسی کے نزدیک اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے ۔
بے ربط زبان
خوابوں کی زبان ،نظارے اور واقعات ڈرامائی اور عجیب اور غریب ہوتے ہیں۔ربط اور تسلسل کا فقدان ہوتا ہے مگر فرائیڈ کے نزدیک ہر بات ،واقعہ اور ہر عمل کا کوئی نہ کوئی مطلب اور مفہوم ہوتا ہے ۔
اشاریت
گندی اور ناشائستہ خواہشات کی تسکین نیند میں بھی اپنی اصل صورت میں نہیں ہوپاتی چونکہ سپر ایگو خوابیدہ ہونے کے باوجود انہیں شعور میں نہیں آنے دیتا یہی وجہ ہے کہ یہ اپنا روپ بدل کر مختلف علامات کا جامہ پہن کر شعور میں داخل ہوتی ہیں تاکہ آسودگی حاصل کر سکیں ۔خواب کی تشریح و تحلیل کے ذریعے ہی ان علامتوں کے حقیقی مفہوم کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔
رجعت
فرائیڈ کے نزدیک خواب کے دوران اس حالت کی طرف لوٹ جانا ہے جس طرح بچہ پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ میں سوتا ہے ۔یعنی خوابوں میں بچپن کی طرف لوٹ جانے کی خواہش یا رجعت خلقی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی فرد موجودہ صورت حال سے نا خوش ہوتا ہے تو وہ ذہنی طور پر اس حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے جہاں وہ خوش اور پر سکون تھا ۔اس طرح وہ وقتی طور پر اپنی پریشانی پر قابو پا لیتا ہے ۔
پردہ پوشی
اگر ناخوش گوار واقعات اپنی اصلی حالت میں دکھائی دینے لگیں تو فرد سو نہیں سکتا اس لیے خواب پوشیدہ انداز میں گزرے ہوئے ناخوشگوار واقعات کو دہراتے ہیں اس طرح ایک طرف نیند کی حفاظت ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف وہ نا خوشگوار واقعات جو لاشعور میں اودھم مچا رہے تھے ان کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔

خوابوں کی اقسام
فرائیڈ خوابوں کو دو بڑی اقسام “عیاں مافیہ ” اور “پنہاں مافیہ” میں تقسیم کرتا ہے۔
بقول ڈاکٹر سلیم اختر :
پہلی قسم میں وہ خواب آ تے ہیں جنہیں وہ “عیاں مافیہ “کہتا ہے، ایسے خوابوں میں واقعات ٹھیک طرح دکھائی دیتے ہیں ۔محتسب کا ہاتھ بہت کم ہوتا ہے ،اور اس لیے دیکھنے والا انہیں بعد میں دہرا سکتا ہے ۔
دوسری قسم کو اس نے” پنہاں مافیہ ” کا نام دیا ہے ۔یہ وہ خواب ہیں جو دباو کی وجہ سے محتسب کے ہاتھوں نت نئے سوانگ رچا کر آتے ہیں اور ان ہی کی تشریح میں دقت پیش آتی ہے ۔
فرائیڈ خوابوں کی مزید مندرجہ ذیل تین اقسام بھی بتاتا ہے ۔
تمنائی خواب
فرائیڈ تمام خوابوں کو تمنائی گردانتا ہے چونکہ اس کے خیال میں تمام خواب خواہشات کی آسودگی کا ذریعہ ہوتے ہیں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جو خواہشات تسکین کی خواہاں ہوتی ہیں ضروری نہیں کہ ان کاتعلق ماضی قریب سے ہو بلکہ ان کا تعلق ماضی بعید سے بھی ہو سکتا ہے ۔یہاں وہ ایک بہت ہی دلچسپ بات کہ وہ یہا ں اوڈی پس اثرا ت کی بھی بات کرتا ہے کہ ان خوابوں میں اوڈی پس الجھن اور ترویج محرمات کے پیدا کردہ خواب بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
تشویشی خواب
اس قسم کے خواب دیکھنے والا فرد خواب میں خود کو کسی نہ کسی تشویش میں مبتلا دیکھتا ہے۔ اڑنا،تیرنا، رکاوٹیں پھلانگنا ،تمام تشویشی خواب کے زمرے میں آتے ہیں۔ فرائیڈ تشویشی خوابوں میں ایک اور بات کا اضافہ یہ بھی کرتا ہے کہ یہ خواب بیشتر جنسی ہوتے ہیں،ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ان کا تعلق دیگر ناخوشگوار اور تلخ یادوں سے بھی ہو سکتا ہے ۔ تشویشی خوابوں میں خواہشات یوں روپ بدلتی ہیں کی شعور کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور تسکین بھی حاصل ہو جاتی ہے۔مگر یوں بھی ہو سکتا ہے کس کبھی صورتحال اتنی سادہ نہیں رہتی اور محتسب کے ہاتھوں سے بھی نکلنے لگتی ہے توہ شعور کو جگا دیتا ہے۔شعور کی اچانک بیداری ہڑ بڑاہٹ،ڈر ،خوف اور گبھراہٹ کا سبب بنتی ہے، یہی سبب ڈراونے خوابوں کے پس پردہ ہوتے ہیں دلچسپ بات یہ کہ فرائیڈ تشویشی خوابوں میں بھی تسکین کا پہلو موجو د پاتا ہے ۔ اس کے نزدیک تشویشی خوابوں کا تعلق ان خواہشات سے ہوتا ہے جن کو فرد زبر دستی دبا کر لا شعور میں پھینک دیتا ہے۔
تعزیراتی خواب
اس قسم کے خوابوں میں لا شعوری خواہشات کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ سپر ایگو ان کے ناشائستہ ہونی پر اسے ڈانٹتی ہے اور اس سرزنش کی وجہ خود سپر ایگو کی تسکین ہوتی ہے لیکن یہ آسودگی منفی نوعیت کی ہوتی ہے ۔ فرائیڈ کے نزدیک تعزیراتی خوابوں کو تمنائی خوابوں سے ممیز کر نا چاہیے ۔ تعزیراتی خوابوں کا تعلق بھی لا شعور سے ہوتا ہے لیکن ان کا مواد دبائی جانے والی خواہشات سے نہیں ہوتا بلکہ یہ مواد ایگو فراہم کرتی ہے اور وہ تسکین بھی حاصل کرتی ہے۔اس طرح سپر ایگو فرد کو ڈانٹ کر سزا دیتی ہے اور سرزنش کے بعد اسے سکون اور اطمنان حاصل ہوتا ہے جس سے فرد کی شخصیت کئی طرح کا انتشار سے بچ جاتی ہے ۔ بنیادی طور پر فرائیڈ صرف اور صر ف تمنائی خوابوں کے حق میں ہیں باقی دونوں صورتیں دو مختلف صورتحال ہیں اس کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اول مثبت قسم کی ہیں جبکہ ثانی منفی حیثیت کی حامل ہیں۔
خواب کاری  (Dream work)
فرا ئیڈ کے نظریہ خواب میں خواب کاری کی بڑی اہمیت ہے ۔یہ وہ عمل ہے جس میں خواب کا مخفی مافیہ عیاں مافیہ کا روپ دھار لیتا ہے ۔اس عمل کی وہ مندرجہ ذیل صورتیں گنواتا ہے۔
الف۔اشاریت(Symbolism)
فرائیڈ خوابوں کی اشاریت پر بہت زور دیتا ہے ۔ اشاریت سےمراد واقعات،تجربات انتشار کو علامتوں کی زبان میں بیان کرنا۔خوابوں میں بہت کم ایسے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کا مفہوم وہی ہوتا ہے جیسا کہ وہ نظر آتے ہیں ۔اکثر و بیشتر ان علامتوں اور اشاروں کے مفہوم اور معنی ظاہری مفہوم سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔خواب جن چیزوں کا اظہار خواب میں اشاراتی انداز میں ملتا ہے ان کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ۔ یہ اشارات محتسب کو اس لیے بھی وضع کرنے پڑتے ہیں کیونکہ ایک تویہ جنسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ انسان خود بھی جنسی اعضا کے تصور کو برا سمجھتا ہے۔اس لیے کسی نا کسی اشرے کے پیچھے کوئی نہ کوئی جنسی خواہش پنہاں ہوتی ہے۔لیکن اس بات کا خیا ل رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایک خواب کی علامت اور دوسرے خواب کی وہی علامت یکساں مفہوم کی حامل نہیں ہوں گی۔ اسی طرح ایک فرد کے ہاں جو ایک علامت کا مفہوم ہو گا وہ دوسرے فرد کے خواب کی وہی علامت سے مختلف ہو گا۔
ب۔ڈرامائیت (Dramatization)
اس سے مراد وہ جزو ترکیبی ہے جس کے باعث لا شعور کے پوشیدہ مضمون کا کوئی نہ کوئی تصور مادی روپ دھار لیتا ہے ہر تصور کسی نہ کسی شکل میں جلوہ گر ہوتا ہے۔فرائیڈ کے نزدیک لا شعور میں انسانیت کا تصور پوشیدہ ہوتا ہے تو وہ ایک مجسمے یا روشنی میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس عمل میں فرد کو دو فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ ایک تو فرد کو آسودگی حاصل ہو گی دوسرا وہ تصور اسے ذہین نشین بھی ہو جاتا ہے ۔ یہ تصور ڈرامے کے کرداروں کی طرح عمل کرتے ہیں جس سے دلچسپی کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ اس طرح ڈرامے کی زبان کی طرح خواب کی زبان بھی جاندار ہوتی ہے حتی کہ انداز بھی جاذب نظر ہوتے ہیں یہ تمام خواب بصری نوعیت کے ہوتے ہیں۔
ج۔اختصار،تکثیف یا ادغام (Condensation)
اس میں ایک ہی علامت دو یا دو سے زائد اشیا کی نمائندگی کرتی ہے ۔ اس سے مراد ہے کہ جب کسی خواب میں علامات،تصورات، خیالات اور واقعات کو اکٹھا کر کے اسے کسی انوکھی وحدت میں تبدیل کر لیا جائے تواصطلاح میں اس وحدت کو تکثیف یا ادغام کہیں گے۔تکثیف سے مراد وہ عمل ہے جب بہت سے خوابی خیالات ایک ہی علامت یا تصور میں مجموعی حالت میں ظاہر ہوں۔وہ تصورات جو خواب میں ظاہر ہوتے ہیں وہ پوشیدہ تصورات کا محض خلاصہ ہوتے ہیں کیونکہ خواب بہت ہی مختصر وقت میں دیکھے جاتے ہیں۔ اس مختصر عرصے کے لیے لا شعور کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بہت سے ایسے عناصر جو ایک ہی خواہش کی نمائندگی کرتے ہیں ایک ہی علامت کا سہارا لیتے ہیں ۔
د۔استبدال یا انتقال (Displacement)
خواب میں انتقال سے مراد پوشیدہ مضمون کا اصل مفہوم منتقل ہو جاتا ہے۔ یعنی خواب میں نظر آنے والی اشیا دوسری اشیا میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ حقیقتاً ًً ان اشیا سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کے انتقال میں خواب کے اصل معنی ان ظاہر علامات میں پوشیدہ نہیں ہوں گے۔جو خواب میں سب سے اہم نظر آتے ہیں بلکہ اصل مقصد اس نہایت غیر اہم شے میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ محتسب خواب کے اصل مرکز کو یوں بدل دیتا ہے کہ خواب کے اصل نکتے کی طرف دھیان نہیں جاتا۔

زبان اور قلم کی لغزشیں
خوابوں کی طرح عام بول چال میں ہونے والی بھول چوک ،غلطیاں اور لغزشیں جنہیں ہم اتفاقی تصور کرتے ہیں ،کے پیچھے بھی لا شعور کی کار فرمائی ہوتی ہے۔سگمنڈ فرائیڈ زبان اور قلم کی معمولی لغزشوں کو ذہنی زندگی میں نہ صرف اہم سمجھتا ہے بلکہ ان میں معنی تلاش کرتا ہے ۔ ڈاکٹر نعیم احمد اس حوالے سے لکھتے ہیں :
فرائیڈ کا سائنسی ذہن یہ بات تسلیم کرنے پر تیار نہ تھا کہ روزمرہ کی زندگی میں ہونے والی لغزشیں ،خطائیں یا بھول چوک بے معنی ہیں ۔ اس کا خیال تھا کہ اس چھوٹی چھوٹی بے ربط باتوں کو اگر لاشعوری پس منظر مہیا کر دیا جائے تو یہ مربوط اور بامعنی بن جاتی ہیں ۔
ان کو وہ حرکی اور حسی میں تقسیم کرتا ہے ۔
۱۔ حرکی
زبان ،قلم اور اسی قسم کی ایسی لغزشیں جس کے ذریعے ایک خاص مقصد کا اظہار کیا جا سکے ۔ کسی ایسی حرکت کا سر زد ہونا جسے فرد خود نہیں چاہتا۔
۲۔حسی
بات کا بھول جانا :
غلط تصور ،یاداشت یا نگاہ کی لغزش
یہ لغزشیں بادی النظر میں محض ذہن کی نارمل حالت میں ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتاہے لیکن اگر اسے کریدا جائے تو اس کے پیچھے ایک خاص مقصد ہوتا ہے جو اس لغزش کی وجہ بنتا ۔فرائیڈ نے جب ان پر تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ ان باتوں سے فرد خود بھی ناواقف ہوتا ہے ۔مثلاً کسی سے ملنے کا وعدہ کر کے بھول جانا ،بیوی سے ناچاقی کی صورت میں اس کے لیے اگر کچھ لانا ہے بھول جانا،کسی کا نام بھول جانا یا کسی اور نام سے اسے پکارنا،بے سبب یا بلاوجہ نہیں ہوتا بلکہ فرائیڈ کے مطابق ’’دباؤ‘‘ کا اثر ہوتا ہے کہ ایک شخص کا نام ہم اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ایک خاص موقع پر اچانک اس کا نام ہمارے ذہن سے اتر جاتا ہے۔ یہ حادثہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ ہوسکتی ہے کہ ذہن اس نام کو یاد نہیں کرنا چاہتا ۔ایسا مقصد لا شعوری ہوتا ہے۔کیونکہ لا شعوری طور پر نام سے ناپسندیدہ یادیں وابستہ ہیں ۔فرائیڈکے خیال میں جو اس بھول کو حافظے کا نقص قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔یہ ذہن کا عمل ہے جو لاشعوری طور پر ہوتاہے۔
تجزی ِہ نفس کے ذریعے ان لغزشیوں کی تحقیق سے پتا چلاکہ تمام ذہنی امراض کا انحصار نسیان پر ہوتا ہے اور بعض ہسٹریا کے مریضوں میں بھی یہ پایا جاتاہے۔یہاں تک کہ مریض اپنانام ،شناخت اور گزشتہ زندگی کے احوال تک کو بھول جاتا ہے ۔ فرائیڈ کی تحقیقات سے پہلے بچوں کی ذہنی زندگی کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا تھا لیکن ا س نے اس زندگی میں سے ایسے نتائج اخذ کیے جن پر ہماری آئندہ زندگی کا انحصار ہوتاہے ۔فرائیڈ کہتا ہے کہ ہم اپنے بچپن کی اکثر باتیں بھول جاتے ہیں اور یاد کرنے کے باوجود انہیں یا د نہیں کر پاتے شائد کبھی کوئی بات یاد آ جائے ۔حالانکہ اس زمانے میں ہمارا ذہن تجربات کے لحاظ سے زیادہ زرخیز ہوتا ہے۔ ان لغزشوں کے سلسلے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی ایک ہیجان دوسرے میں دخل اندازی کرتا ہے۔مثلاًخوش کے بجائے ناخوش کا لفظ غلطی سے لکھ کر چھپے ہوئے جذبات کا اظہار ہو سکتا ہے ۔ماہرین لسانیات کے لیے شائدلفظوں کا یہ ہیر پھیر کوئی بڑا واقعہ نہ ہو لیکن ماہر نفسیات کے نزدیک لفظ ’’نا‘‘کے پیچھے ایک پوری کہانی لاشعور میں دفن ہوتی ہے ۔بعض حالتوں میں فرد سے غلطی کے ساتھ ساتھ ایسی جسمانی حرکات کا ارتکا ب بھی ہوتا ہے جو شعوری ارادے کے الٹ ہوتا ہے ۔وہ اگرچہ بلاارادہ ایک فعل کا مرتکب ہوتا ہے حالانکہ اسے ایسا کرنے کی بالکل خواہش نہیں ہوتی ۔اس ضمن میں جہاں ’’اتفاقاًپانی کے گلاس کا گر کر ٹوٹ جانا آتا ہے ‘‘۔ (جس سے ناراضگی کاا ظہار ہوتا ہے) ان میں مہلک حادثات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو بلاارادہ یا اتفاقیہ رونما ہوتی ہیں۔ان کا تجزیہ کیا گیا تو یہ بے اختیاری حادثات در اصل لاشعوری ہیجان جس
میں قتل ،خود کشی جیسے رجحان کا اظہار ثابت ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply