امریکہ ، یورپ اور اسرائیل (1)-محمد سعید ارشد

دنیا میں آج تک جتنے بھی نشے پائے جاتے ہیں اُن میں سے سب سے زیادہ مہلک اور خطر ناک نشہ طاقت کا نشہ ہے ۔اور یقین مانے یورپ اور امریکہ سر سے پاؤں تک اِس نشے کی لت میں بری طرح مبتلا ہے۔ لوگوں کو اپنا غلام بنا لینے ، اُن پر حکومت کرنے، اُن کے وسائل پر قابض ہوجانے اوراُن کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرنے کیلئے کسی بھی حد سے گزر جانا یورپی اور امریکی معاشرے کا صدیوں سے وطیرہ رہاہے۔

1492ء میں کولمبس کے امریکہ کو دریافت کرلینےکے بعد یورپ سے جوق در جوق لوگ امریکہ پہنچنے لگے۔ ان یورپی مہاجرین کے پاس بندوقیں اور اُس وقت کا جدید ترین اسلحہ موجودہوتا تھا۔ ان مہاجرین نے امریکی مقامی باشندے جنہیں “ریڈ انڈینز” کہا جاتا تھا، کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کرنا شروع کردیا ۔ اپنی بندوقوں اور جدید اسلحہ کے ساتھ لاکھوں ریڈ اانڈ ینز کو قتل کیا اور انہیں اُن کے گھروں سے نکال کر اُن کی زمینوں اور کھیتوں پر بھی اپنا قبضہ جمالیا۔ مقامی ریڈ انڈینز امریکہ میں مختلف قبائل کی صورت میں آباد تھے۔ اُن میں سے کتنے ہی قبائل تھے جن کو یورپی مہاجرین نے صفحہ ہستی سے مکمل طور پر ختم کر دیا ۔ نسل کُشی کی ایک مکمل تاریخ ہے جو اِن یورپی مہاجرین نے امریکہ کی دریافت کے بعد وہاں جاکر رقم کی۔ امریکہ میں آج بھی وہی لوگ آباد ہے جن کے آباؤاجداد یورپ سے ہجرت کرکے امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔

یورپی اقوام کی دوسروں کے وسائل پر قابض ہونے اور لوٹ کھسوٹ کرنے کی حوس امریکہ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ امریکہ کی دریافت کے بعد اِن کی حوس میں مزید اضافہ ہوگیا۔کولمبس کی دریافت کے بعد یورپ بھر سے ان گنت بحری بیڑے نئی نئی زمینیں اور نئے ملک دریافت کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے تاکہ وہاں بھی امریکہ ہی کی طرح لوٹ کھسوٹ مچاکر لوگوں کو غلام بنایا جاسکے۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں یورپ نے اپنے ممالک سے باہر مختلف ممالک پر قبضہ کرکے انہیں اپنی کالونیاں بنانے کا کام شروع کردیا تھا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی آتے تک یورپ نے دنیا کے بہت سے ممالک کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر اپنی کالونیوں میں شامل کرلیاتھا۔

پرتگال نے گوا (Goa)سے لیکر میکاؤ اور ناگاساکی تک کو اپنی کالونی بنا لیا تھا۔ اسپین برونائی،ملائشیا ، چین اور جاپان کے کچھ حصے ،اومان اور سری لنکا کو اپنی کالونی بنا چکاتھا۔ ہالینڈ ہندوستان کے کچھ حصوں اور تائیوان کو اپنی کالونی بنا چکاتھا۔ فرانس کمبوڈیا، لاؤس ،میانمار ، تھائی لینڈ ، ویتنام اور ملائیشیا کے کچھ حصوں کو اپنی کالونی بناچکاتھا۔ اس کے ساتھ فرانس نے الجیریا، تیونس اور مراکش کو بھی اپنی کالونیوں میں شامل کررکھاتھا۔ برطانیہ نے ہندوستان، برما، سری لنکا اور سنگاپور کو اپنی کالونی بنالیاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ نے مصر اور سوڈان کو بھی اپنی کالونی میں شامل کررکھاتھاجبکہ اٹلی نے لیبا پر قبضہ کر کے اسے اپنی کالونی میں شامل کر رکھاتھا۔

ان یورپی ممالک نے بعد میں کالونیاں بنائے گئے ممالک کے وسائل کو اِس بے دردی سے لوٹا کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان ممالک نے اپنا ناجائز قبضہ قائم رکھنے کیلئے مظالم کی وہ دردناک داستانیں رقم کی کہ جو بیان سے باہر ہیں۔ آپ باقی دنیا کو چھوڑیں صرف ہندوستان کی مثال لے لیں کہ برطانیہ نے ہندوستان کے وسائل کو کس قدر بے دردی سے لوٹاتھا۔ بحری جہاز بھر بھر کر ہندوستانی اشیاء اور اجناس کے برطانیہ بھیجے جاتے تھے جس کی وجہ سے متعدد بار ہندوستان میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی تھی۔ 1877ء میں رابرٹ لینن ہندوستان میں وائسرائے ہندتھا۔ رابرٹ لینن نے سوا تین لاکھ ٹن گندم برطانیہ میں ایکسپورٹ کردی تھی ۔ یہ تب تک کی برطانیہ کو ہندوستان کی طرف سے ایکسپورٹ کی جانے والی گندم کی ریکارڈ ایکسپورٹ تھی اس سے پہلے اتنی مقدار میں گندم برطانیہ کو کبھی ایکسپورٹ نہیں کی گئی تھی۔ اِس ایکسپورٹ کے نتیجے میں ہندوستان بھر میں قحط پھیل گیااور اس مصنوعی پیدا کئے گئے قحط کی وجہ سے ایک کروڑ ہندوستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

1919ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برطانوی فوج نے دن دیہاڑے نہتے ہندوستانیوں پر فائر کھول دیئے تھے جس کی وجہ سے سینکڑوں معصوم لوگ مارے گئے۔ یہ صرف چند واقعات ہیں ۔ یقین مانے برطانوی ہندوستان کی تاریخ ایسے خون آلود واقعات سے بھری پڑی ہے۔ باقی یورپی ممالک نے جن ملکوں کو اپنی کالونیوں میں شامل کیا تھا وہاں کے حالات بھی یکسر مختلف نہ تھے۔

میں جب یورپی اور امریکی معاشرے کی تاریخ پڑھتاہوں تو اُن لوگوں پر بہت حیران ہوتا ہوں جو یورپی اور امریکی معاشرے کو مہذب اور انسانیت دوست سمجھتے اور لکھتے ہیں۔ ہمارے کچھ دووست احباب جب پیرس ،نیویارک یا لندن کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں ایک چمک ہے جو اتر آتی ہے۔ وہ لندن کی سڑکوں اور عمارتوں کا ذکر اِس رومانوی انداز سے کرتے ہیں کہ انسان سُن کر اور پڑھ کر ہی احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے مگر ہمارے دوست احباب لوگوں یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ یہ سڑکیں اور عمارتیں بنانے کیلئے برطانیہ اور فرانس نے سرمایہ کہاں سے حاصل کیا ہوگا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کتنے ہی ہندوستانیوں یا عام لوگوں کے لاشے ہونگے جو اِن سڑکوں کے نیچے دفن ہونگے۔ کتنے ہی انسان بھوک اور افلاس کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جاچکے ہونگے کہ جن کے بےجان جسموں پر لندن اور پیرس کی عالیشان عمارتیں کھڑی کی گئی ہونگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اِس بات سے کوئی انکاری نہیں ہے کہ امریکہ اور یورپ نے سائنسی میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے مگر سائنسی میدان میں کی گئی ترقی کسی بھی معاشرے کو مہذب اور انسانیت دوست نہیں بنادیتی۔ کھانے کی میزوں پر چمچوں اور پلیٹوں کی بہتات یا عمدہ شراب کی چسکیاں بھرتے ہوئے بہترین سوٹوں میں ملبوس افراد مہذب اور انسانیت دوست معاشرے کی علامات کبھی نہیں ہوتے۔ طاقت اور دولت کے نشے میں دھت دل اور انسان بہترین کپڑوں میں ملبوس ہو یا ننگے بدن ہو وہ کبھی بھی مہذب اور انسانیت دوست معاشرے کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔ یورپی اور امریکی معاشرہ کس قدر انسانیت دوست ہے اِس کا اندازہ آپ پہلی جنگ عظیم سے لگا سکتے ہیں۔ ( جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply