بے مہارے

ہم لوگ کتنے سادہ ہیں، ڈر اور خوف کی فاضل حد کے اندر بنی ہوئی پگڈنڈی پر ہی قدم اٹھاتے ہیں۔ کم از کم میرے نزدیک تو عام آدمی کی سمت حیات حلوے کی تھالی میں انگلی سے کھینچی ہوئی لکیر کی مانند ہے، جس میں گھی آہستہ آہستہ رینگ کر دوسری طرف سفر کر رہا ہوتا ہے جدھر لکیر کھینچنے والے مولوی صاحب بیٹھے ہیں۔
بات کر رہا تھا ڈر کی، جو زندگی میں ہر طرف ہے، چلو میری مثال ہی لے لو، میں پنکھا چلانے کیلئے بٹن کو بھی بڑا چھان پھٹک کر ہاتھ لگاتا ہوں، ذہن میں بجلی کا ایک خوف ہے۔ یہ خوف کہاں نہیں ہے، یقیناًجو لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں، بڑی بے خوفی سے ننگے تار پکڑے مہارت سے اپنا کام کرتے جاتے ہیں۔ ان کے سامنے بجلی کے پیدا کردہ تمام خوف بےمعنی لگتے ہیں۔
عثمان پانی کے خوف سے کانپتا ہے، مطلب گہرے پانیوں کا خوف اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ محاورہ ہے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، پانی میں انسان کی بے بسی کا ڈر، ایسی بے بسی جہاں تنکے کا آسرا گنوا دینا بھی کفران نعمت ہے۔ مگر لہروں کے پالے ہوئے ملاح گہرے پانیوں اور تیز چھلوں سے کبھی نہیں ڈرتے۔ دریاوں کی طغیانی، سمندروں میں بپھری لہروں کی پرغضب آواز ان کے جسم میں ذ را بھر میں خوف پیدا نہیں کرتی۔
آج میں کیا کہے جا رہا ہوں، مان لو میں خوف کی موجودگی اور غیر موجودگی کا احاطہ کر رہا ہوں۔ یہ خوف ہر طرف ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ جو اس خوف کو پار کرنے میں پہل کر جاتا ہے وہ بہادر ہے، پروفیسر حسین صاحب سے ایک دن بہادری پہ بات ہورہی تھی، کہنے لگے، بہادر وہ ہے جو آپ سے دس منٹ آگے ہو۔ سبھی نے ایک لمحہ پروفیسر صاحب کی طرف دیکھا، جن کی زبان سے نادانستہ یہ انوکھی تعریف برآمد ہو گئی تھی۔
یہ بات تو طے ہے کہ روزمرہ زندگی میں ڈر بار بار کے تجربے سے ہرایا جا سکتا ہے۔ بہرحال مذہب اور شخصیات کے معاملے میں شدید عقیدت و احترام بھی داخلی ڈر کی شکل اختیار کر جاتا ہے، میں داخلی ڈر کی جو وجہ سمجھتا ہوں شاید غلط ہو۔ بہرحال ملک میں مذہب اور شخصیات کی عقیدت و احترام کے معاملے میں خارجی ڈر تو یقینا ًموجود ہے۔ اسی ڈر کی وجہ سے کوئی بھی بندہ مذہب اور شخصیات کے بارے میں انگوٹھے چومے بغیر، نام کے ساتھ سابقہ لاحقہ لگائے بغیر تکلفانہ گفتگو نہیں کر سکتا۔ عام آدمی کیلئے یہ بھی شدید خوف کی ایک شکل ہے مگر جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ متعلقہ شعبے کے لوگ متعلقہ خوف سے بری ہوتے ہیں، مذہب میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ جو دیکھنے سننے کے بعد عام آدمی دل ہی دل میں لا حول ، استغفراللہ ایاز بااللہ کہہ پاتا ہے۔ اگر ایسا کچھ عام آدمی کےمنہ سے نکل پڑے تو بعض اوقات یہ ایسا پاپ بن جاتا ہے جس سے خلاصی جان کی قربانی سے ممکن ہوتی ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں، نجانے میں کیسے کچھ ان جان باریش لوگوں کی محفل میں تھا جن کا شعبہ مسجد، محراب و ممبر، تحفظ ناموس رسالت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے وابستہ تھا۔ خبر دی گئی کہ فلاں قاری صاحب کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے،
ماشا اللہ کیا اسم سوچا ہے؟
مولانا بڑا عالی مرتبت نام سوچا ہے، رائے دیجئے، کیسا رہے گا؟
جی فرمائیے
محمد!!!
واہ سبحان اللہ، میں کیا رائے دے سکتا ہوں مفتی صاحب! اور کیا چاہئے اب اس کے بعد عالی مرتبت نام تو اللہ ہی بچتا ہے۔
قہقہوں کی گونج میں، میں کھسیانہ سا ہو کر استغفراللہ کا ورد کرتے باہر کھسک آیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply