کیا 9 مئی 2023 کو بھلا دیا جائے؟-محمد اسد شاہ

پاکستان کی تاریخ میں جہاں بعض شان دار کارنامے درج ہیں، وہاں کچھ سوانح ایسے بھی گزرے کہ جن پر قوم شرمندہ ہے۔ مزید شرمندگی کہ بات یہ کہ ان سوانح کا بے رحمانہ تجزیہ کرنے اور ذمہ داران کو نشان عبرت بنانے کی بجائے ہمیشہ مٹی ڈالنے، خاموشی اختیار کرنے اور بھلا دینے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہمارا یہ اجتماعی رویہ ان حادثات سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے مستقبل میں ایسے مزید سوانح کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ قائد اعظم کے آخری ایام میں ان کے ساتھ کیا ہوا، آئین شکنی کے بانی جنرل ایوب خان کا اقتدار پر غاصبانہ قبضہ، محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جنرل ایوب حکومت کا سلوک، جنرل یحیٰی خان کی رنگین و بدمست حکم رانی، سقوط ڈھاکہ، حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو تقریباً چار دہائیوں تک خفیہ رکھنا اور اس پر عمل نہ ہونے دینا، جنرل غلام عمر جیسے کرداروں کو سزاؤں سے بچایا جانا، جنرل ضیاء کا قبضہ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اقتدار پر جنرل پرویز کا غاصبانہ قبضہ اور رنگین و بدمست حکمرانی، وزیراعظم محمد نواز شریف کو زنجیروں کے ذریعے جہاز کی نشستوں کے ساتھ جکڑنا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغواء اور مبینہ فروخت، سانحہِ لال مسجد، نواب محمد اکبر بگٹی کا قتل، بے نظیر بھٹو کا قتل، 2014 میں ڈی چوک کا بدنام دھرنا، پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد مرکز پر سیاسی دہشت گردوں کا قبضہ اور پارلیمان کی عمارت پر حملہ، سانحہِ اے پی ایس پشاور، افتخار چودھری ، ثاقب نثار ، آصف کھوسہ، اور عمر عطاء بندیال جیسے متعصب ججز، الیکشن 2018 سے قبل مکمل “انتظامات” اور پھر بدترین دھاندلی، لاہور میں ملتان روڈ پر تحریک لبیک کے نہتے کارکنوں کا قتل عام، مارچ 2022 میں صدر، وزیراعظم اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں پر براجمان تین افراد کی کھلم کھلا آئین شکنی کے باوجود انھیں کوئی سزا سنائے بغیر چھوڑ دینا اور پھر 9 مئی 2023 کو ایک سیاسی جماعت کی طرف سے افواجِ پاکستان کی حساس تنصیبات پر باقاعدہ حملے؛
9 مئی 2023 کو پاکستان کے مختلف شہروں میں افواجِ پاکستان کی حساس تنصیبات اور بعض اعلیٰ فوجی افسران کی سرکاری رہائش گاہوں پر منظم جتھوں نے یلغار کی، آگ لگائی، اندھا دھند توڑ پھوڑ کی، شہداء وطن کی نشانیوں کو اکھاڑ اکھاڑ کر زمین پر پٹخا، آرمی کے کھڑے جہازوں تک کو آگ لگانے کی کوشش کی، فوجی وردیوں کو سر عام لہرا کر تھوک پھینکے اور گالیاں دیں اور بہت کچھ ناقابلِ بیان۔
اس سارے دہشت گردانہ عمل کا قطعاً کوئی سیاسی یا اخلاقی جواز نہیں تھا۔ عمران حکومت کے خاتمے میں افواجِ پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ عمران نے بارہا اپنی تقاریر میں تسلیم کیا کہ اس کا مطالبہ تھا کہ فوج تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنائے۔ فوج نے اس کا یہ غیر آئینی و غیر قانونی مطالبہ تسلیم نہ کیا تو بالکل ٹھیک کام کیا۔ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے ذریعے ہونا تھا، نہ کہ فوج کے ذریعے۔ البتہ سیاسی چکر بازی کے لیے افواجِ پاکستان اور امریکا کے ناموں کو منفی انداز میں بہت شدت سے استعمال کیا گیا اور سادہ لوح افراد کے جذبات بھڑکائے گئے۔ 9 مئی 2023 کے حملوں کی وڈیوز موجود ہیں جن میں بہت سے ملزموں کے چہرے واضح ہیں۔ یہ حملے غیر متوقع نہیں تھے۔ جب پورا نظام کسی ایک شخص کو ہر قانون سے ماوریٰ بنا کے رکھے گا تو یہی انجام ہو گا۔ 2014 کے دھرنوں، تھانے سے ملزموں کو زبردستی چھڑوا کر لے جانے، پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد مرکز پر قبضہ اور پھر ایک ریکارڈڈ ٹیلی فونک گفتگو، سرگودھا میں جلسے کے لیے سرکاری سٹیڈیم کی دیواریں اور گیٹ تڑوانا، پانامہ سازش کے دوران دس ارب روپے رشوت کا جھوٹا الزام، وزیراعظم بن کر ضمنی انتخابات والے علاقوں میں روکنے کے باوجود بار بار جلسے کرنے، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلی کے ساتھ ساتھ آئین بھی توڑنے، خاتون جج کو بھرے جلسے میں دھمکیاں دینے، اسلام آباد جلسے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کی اعلانیہ توہین، اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں مشتعل افراد کے ہم راہ جانے اور عدالت میں پیش ہوئے بغیر واپس چلے جانے وغیرہ جیسے معاملات میں کیا کسی شخص کو کوئی سزا سنائی گئی؟ تحریک عدم اعتماد کے بعد افواجِ پاکستان کے پورے ادارے کے خلاف ایک شخص کا لب و لہجہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا اس امر میں کوئی شک ہے کہ 9 مئی 2023 کی دہشت گردی باقاعدہ منصوبے کے تحت ہوئی؟ اس سے کئی ماہ قبل ایک شخص نے خود کو “ریڈ لائن” قرار دے دیا تھا، اور اس کے لوگ اعلانیہ کہتے تھے کہ اگر اس شخص کو کسی بھی جرم کی پاداش میں گرفتار کرنے یا اس پر پاکستانی قانون نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ قبول نہیں کریں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
حال آں کہ اس شخص کے ساتھ تو کبھی ایسا کچھ نہیں ہوا جیسا پاکستان میں سینکڑوں سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح، مفتی محمود، عطاء اللّٰہ شاہ بخاری، ابوالاعلیٰ مودودی، عبدالولی خان، نسیم ولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری، بے نظیر بھٹو، محترمہ کلثوم نواز، محترمہ مریم نواز شریف، میاں جاوید لطیف، سید یوسف رضا گیلانی، شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، حمزہ شہباز اور رانا ثناء اللّٰہ خان جیسے بڑے بڑے سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ قید و بند اور نظر بندی میں کیا کیا سلوک ہوتا رہا، اور انھیں کیسی کیسی اذیتیں دی گئیں۔۔۔۔۔ عمران خان تو ان تکالیف اور اذیتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف عمران کو تین مقدمات میں سزا یافتہ اخلاقی مجرم ہونے کے باوجود جیل میں قوم کے ٹیکسوں پر من پسند مراعات، فرمائشی کھانے، ورزشی سامان، دسیوں ملازمین، تمام موسمی سہولیات، روزانہ سیاسی ملاقاتوں، پارٹی چلانے، ملک میں احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی ہدایات جاری کرنے، ٹکٹس جاری کرنے، پریس ٹاک اور اخبارات میں مضامین لکھنے لکھوانے تک کی “سہولیات” حکماً دلوائی گئیں۔ کیا ایسی شاہانہ زندگی کو “قید” یا “سزا” کہا جا سکتا ہے؟ کیا کسی عدالت نے ایسی شہنشاہانہ مراعات ملک بھر کی جیلوں میں قید دیگر لاکھوں سزا یافتہ مجرموں کو دلوائیں؟
9 مئی 2023 کی بغاوت پاکستان کی تاریخ پر بدنما ترین داغ ہے۔ اس کے ہر ذمہ دار کو قرار واقعی سزا دینا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ معاملات اس کے برعکس چل رہے ہیں۔ ملزمان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت عطاء فرمائی گئی۔ بعض تو جیت کر پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اشتہاری قرار دیئے گئے، لیکن پھر کسی تھانے، تفتیش یا عدالت کا سامنا کیے بغیر دھڑا دھڑ ضمانتیں حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے۔ حتیٰ کہ ان کی گرفتاریوں سے بھی اداروں کو روکا گیا۔ انھیں وزیرِ اعلیٰ، وزیر اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سربراہ بننے تک کے “حقوق” حاصل ہیں۔ انٹرنیٹ پر خیبرپختونخوا کے ایک سیاسی لیڈر کی وڈیو موجود ہے جس میں وہ اپنے مشتعل کارکنوں کو جی ایچ کیو جانے کے لیے اکسا رہا ہے۔ لیکن اس شخص کو جب گرفتار کیا گیا تو رہائی کا حکم آ گیا۔ اسے نظر بند کیا گیا تو بڑے بڑے سرکاری افسران کو سزائیں سنا دی گئیں۔ ایک ملزم لاہور سے پشاور پہنچا اور صرف چند ہی منٹوں میں دسیوں مقدمات میں ضمانت حاصل کر لی۔ ایک ملزمہ پشاور پہنچی، تو معزز جج صاحب نے نہ صرف فوری ضمانتیں عطاء فرمائیں، بل کہ “اداروں سے تحفظ” کے مزید تسلی بخش اقدامات تک اسے عدالت میں ٹھہرنے کی پیش کش کی۔ جج صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس ملزمہ کی درخواست سننے کے لیے اسلام آباد میں اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات چھوڑ کر فوراً پشاور آ گئے۔
خصوصی رعایات کے طفیل 9 مئی 2023 کے جو ملزمان پارلیمنٹ کا حصہ بن گئے، وہی لوگ اب 9 مئی 2023 کے مجرموں کی رہائی کے مطالبے کر رہے ہیں، گرفتاریوں کو ظلم کہتے اور تمام مقدمات کو “سیاسی” قرار دیتے ہیں۔ ایک ملزم تو بڑے عہدے پر بیٹھ کر “اسلام آباد” پر قبضے کی دھمکی بھی دے چکا ہے۔
اور اب میڈیا، سول سوسائٹی، بڑی بڑی “کاروباری شخصیات” اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے باقاعدہ ایک مہم جاری ہے کہ “ملک میں سیاسی استحکام کے لیے 9 مئی 2023 کے ملزمان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، حکومت ان کے سربراہ سے بات کرے، انھیں سپیس یعنی سیاسی مقام دیا جائے، اس بغاوت کو بھلا دیا جائے”، وغیرہ وغیرہ ۔ ہمیں ان مجرموں کی رہائی، تحفظ، مراعات اور مذاکرات سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن پارلیمنٹ، افواجِ پاکستان، عدلیہ، میڈیا اور دیگر متعلقین سے یہ ضرور پوچھنا ہے کہ کیا سیاست اتنا مقدس نام ہے کہ اس کے لبادے میں ملک کے خلاف بغاوت بھی قبول ہے؟ اگر 9 مئی 2023 کی بغاوت، اور افواجِ پاکستان پر براہِ راست حملوں کے مجرموں کو سیاست کے نام پر خاموش تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے تو آئندہ ایسے واقعات کا راستہ کون روکے گا، اور کیسے روکے گا؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply