گذشتہ برس کی بات ہے

گذشتہ سال بھی میں  نے اپنی پرانی روش پر ہی گزارا- یعنی میں کسی کو دھوکا دینا بہت برا سمجھتا ہوں مگر جہاں جہاں موقع لگا میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی – میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی دل آزاری کسی صورت نہیں کرنی چاہیے مگر جب بھی ہلکی پھلکی نوک جھونک کہیں ہوئی میں نے اگلے کے وٹ نکال دیے اور ہر سطر میں، ہر لفظ میں، ہر رویے میں، ہر حرکت سے یہ یقینی بنایا کہ دوسرے کی دل آزاری کا مکمل سامان کر پاؤں  اور بہت حد تک کامیاب بھی رہا بلکہ اس پر مطمئن بھی ہوں – میں اس بات کا دل و جان سے قائل ہوں کہ میری ذات کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور میں صالح عقیدہ پر ہوں ، نیک راستہ میری رہگزر ہے، میں خدائی رازوں و منشاء کو پا گیا ہوں، مجھے کبھی حاجت نہیں رہتی کہ اب کوئی میرے مذکورہ عوامل میں دخل اندازی فرما کر اگر کچھ کمی بیشی ہے تو درستگی فرما دے مگر میں نے گزشتہ برس بھی تمام ہی کلمہ گو انسانوں کو اپنا سا مسلمان بنانے کی بھرپور سعی کی، بار بار انکے عقائد کو درست فرمانے کی کوشش کی، انہیں بارہا بتایا کہ میں خدائی منشاء جان گیا ہوں میں ہی خدا کا سول کنٹریکٹر ہوں جو وہاں سے آپ تک پہنچانے کی ذمہ داری لیے بیٹھا ہوں۔
میں آپکی درستگی کرنے کے معاملے میں اس درجہ متجسس و متفکر رہا کہ کوئی دن آپ پر نظر رکھے بغیر، آپ کو سیدھے راستے پر لانے کے بغیر نہ گزارا – میں جانتا ہوں کہ محبت سے ہر وہ کام کیا جا سکتا ہے جو کسی دوسرے طریقے سے ممکن نہیں، میں بخوبی آگاہ ہوں کہ محبت پتھر کو پگھلا سکتی ہے،میں نے قرآنی آیات جو نرم برتاؤ کا حکم دیتی ہیں پڑھ رکھی ہیں، جو حسن سلوک کا حکم دیتی وہ بھی بارہا پڑھ رکھی ہیں،میں نے آقا دو جہاں صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نرم برتاو کے بے شمار واقعات پڑھ رکھے ہیں، سن رکھے ہیں، میں نے صوفی صفت واصف علی واصف کا وہ قول بھی پڑھ رکھا ہے کہ “اس جہان میں کوئی چیز اگر آسمانی ہے تو وہ محبت ہے” مگر میں نے گذشتہ برس ایک بار صرف ایک بار بھی کسی ایسی جگہ محبت سے پیش نہیں آیا ، نرم برتاو نہیں رکھا ،ایسا کوئی لفظ غلطی سے بھی کسی دوسرے فقہ، فرقہ، عقیدہ والے کے لیے نہیں بولا جہاں بولا جا سکتا تھا، کہا جا سکتا تھا مگر نہیں کہا ،قطعاً نہیں کہا کیونکہ میں نیک ہوں، میرا عقیدہ درست ہے میں خدائی معرفت رکھتا ہوں تو ان ضمنی چیزوں کو کرنے کی بھلا کیا ضرورت؟ میں جانتا ہوں خدا  اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ میں بھی گذشتہ برس اسکی مخلوق سے محبت کا اظہار کر سکتا تھا، لفظوں کے نشتر  چلانے کےبجائے اپنی قبا میں محفوظ رکھ سکتا تھا  مگر وہ خدا کا کام ہے میرا خدائی کاموں میں کیا عمل دخل؟
میں بحیثیت انسان یہ مانتا ہوں کہ خطا کا پتلا انسان ہی تو ہے۔ بار ہا وہ غلطی کر سکتا ہے اور کرتا ہے مگر گذشتہ برس بھی میں کسی دن یہ  نہیں مانا کہ کسی جگہ میں بھی غلط تھا، کسی بات کی تفہیم میں مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ میں نے کسی لمحے یہ خیال تک نہ کیا کہ کسی دوسرے سے جو غلطی ہوئی وہ بحثیت انسان ہی تو ہوئی ،وہ معاف کی جا سکتی ہے، اسے درگذر کیا جا سکتا ہے، اسے بھلایا جا سکتا ہے – بلاشبہ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو دین و دنیا مجھ سے بہتر جانتے ہیں، وہ کمال محبت سے پیش آنے والے ہیں، وہ لاجواب بات کہنے والے ہیں، وہ دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے الفاظ  لکھنا اور بولنا جانتے ہیں، میں نے بارہا یہ خیال کیا کہ یہ شخص مجھ سے کس قدر بہتر ہے کتنا پیارا ہے کتنا اخلاق والا ہے مگر گذشتہ برس بھی میں نے کبھی کسی دوسرے کو نہیں بتایا کہ وہ کسی وجہ سے مجھے پسند ہے۔ میں اسکی کسی بات سے کبھی متفق ہوا تھا، اسکی کوئی ایک بات مجھے بھاگئی تھی، اسکی کسی بات نے مجھے نیا زاویہ عطا کیا تھا  کہ کہیں میری انا کو ٹھیس نہ لگ جائے – بہت ساری مبارک بادیں آرہی ہیں اور جھوٹے سچے ،میں بھی مبارکباد دیے جا رہا ہوں ،مگر میں جانتا ہوں کہ میرا گذشتہ برس کیسا گذرا اور میرا کوئی ارادہ نہیں آنے والے برس کو گذشتہ سے کچھ مختلف گزارنے کا۔ بہرحال نیا سال مبارک ۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply