وَلا یَغْتَبْ ۔۔ڈاکٹراظہر وحید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

میں نے پڑھا کہ سورۃ الحجرات کو سورۃ آداب بھی کہتے ہیں۔ فی الواقع سورۃ الحجرات میں ایک خوش گوار معاشرت قائم کرنے کے بنیادی اخلاقی اصول تعلیم کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ کالم’’لاتجسسو‘‘ کے بعدخیال وار ہوا کہ اِس سے اگلے حکم ’’ولایغتب‘‘( اور غیبت نہ کرو) پربھی غور کرنا چاہیے۔ پہلے ہمارے خیال میں کوئی چیز دَر آتی ہے، اِس کے بعد وہ ہماری نیت اور پھر عمل کی صورت میں ڈھلتی ہے۔ اگر نیت کے بغیرکوئی عمل کیا جائے تو وہ عمل نہیں‘ بلکہ محض ایک فعل ہے… سبب اور نتیجے کی دیواروں سے ٹکراتا ہوا ، شور و غوغا کرتا ہوا ، اچھلتا ہوا ایک بچگانہ فعل ہے… اور فاعل ایک مجبورِ محض ہے… اپنی جبلتوں اور معروضی حالات میں محبوس ایک مجموعہ حیوانیت ہے۔ یہ نیّت ہےٗ جو کسی فعل کو عمل کی صورت میں ڈھالتی ہے اور ہمیں قابلِ جزا اور سزا ٹھہراتی ہے۔ دراصل نیّت ہی انسان کی آزادی کی سند ہے۔ اِنسان اس لیے مختار ہے کہ وہ نیت کرنے میں خود مختار ہے۔

قرآن میں حکم ہے کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، غیبت کو ایسے قبیح عمل سے مشابہہ قرار دیا گیا ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ مردہ شخص اپنی حسّیات سے کام نہیں لے سکتا ہے، وہ سُن سکتا ہے، نہ بول کر اپنے وجود پر کسی حملے کا جواب دے سکتا ہے، یعنی وہ بول کر اپنے متعلق کسی الزام کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ غیر حاضر شخص بھی ایک مردہ شخص کی مانند ہے، اُس کی سمع و بصر کی حسیّات اس منظر نامے میں کام نہیں کر رہیں ٗ جس منظر کے ناموں میں اُس کی عزتِ نفس پر حملہ ہو رہا ہے۔ اُسے کچھ خبر نہیں کہ اُس کے کس احسان کو کس ڈھٹائی سے جھٹلایا جا رہا ہے، وہ قطعاً لاعلم ہے کہ اس کے کس عیب کو کس طرح نشر کیا جا رہا ہے، اور وہ اس بات سے بھی ناواقف ہے کہ اس کی طرف کوئی غلط بات کیسے منسوب کر دی گئی ہے۔

غیبت کی تعریف اِن الفاظ میں کی گئی ہے کہ تم کسی کی غیر موجودگی میں اُس کے بارے میں ایسی عیب دار بات کہو کہ اگر اس کے سامنے کروٗ تو اُسے بُرا معلوم ہو۔ سیرت پاک میں درج ہے کہ اصحابِ ذی مقام نے عرض کیا کہ اگر وہ عیب اُس شخص میں واقعی موجود ہو تو کیا پھر بھی اُس کا بیان کرنا بُرا ہے؟ پیغمبر ِ اخلاقؐ نے فرمایا کہ تب ہی تو یہ غیبت ہے، اگر تم وہ عیب بیان کروٗ جو اُس میں نہیں ہے‘ تو اِس صورت میں یہ بہتان ہو گا۔ کسی نے کہا کہ اگر ہم اُس کا عیب اُس کے منہ پر بیان کر دیں تو؟ رسولِ رحمتؐ نے فرمایا کہ یہ ایک بے حیائی ہو گی۔ سبحان اللہ! عیبوں کی سترپوشی کا یہ مقام کہ اِسے حیا سے تعبیر کیا گیا ہے، کسی کا پردہ فاش کرنا ‘گویا بے حیائی ہے۔ عیب جوئی کرنے والے پر وعید ہے۔ سورۃ ھمزۃ کا آغاز ہی اِس وعید پر ہوتا ہے’’بڑی خرابی ہے‘ ہر ایسے شخص کے لیے جو عیب ٹٹولنے والا‘ غیبت کرنے والا ہو‘‘۔ ھُمَزَۃ وہ شخص ہے ٗجو منہ پر برائی کرے اور لُمَزَۃ وہ جو پیٹھ پیچھے غیبت کرے۔یہ بھی کہا گیا کہ ھُمَزَۃ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے برائی کرنا ہے اور لُمَزَۃ زبان سے۔ الحذر! الحذر!! وہ معمولی باتیں جو ہمارے نزدیک شاید وقت گزارنے کا بہانہ ہیں‘ وہ ربِّ کائنات کے نزدیک کس قدر غیر معمولی جرائم ہیں۔ اِس آسمانی اخلاقی تعلیم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ربّ کے نزدیک بنی آدم کی تکریم کس قدر ہے۔ وہ اپنے شاہکار کی شان میں ذرّہ برابر بُری بات برداشت نہیں کرتا۔ کس قدر سخت الفاظ میں تنبیہہ کی گئی ہے۔ انسان واقعی احسنِ تقویم ہے۔ مان نہ مان — خالق ِ کائنات نے انسان کو بڑے مان سے تخلیق کیاہے۔ اُس نے کہا ہے کہ میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ یَدُ اللہ کی حقیقت جاننے والے ہی عظمت ِ انسانی کے قائل ہو سکتے ہیں۔ انسان کی تعریف انسان بنانے والے کی تعریف ہے—- اور اِس کی ہجو‘ اِس کے خالق کی ہجو قرار دی جا سکتی ہے۔

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے غیبت کو آسان ترین لفظوں میں یوں سمجھایا’’ کسی دوسرے کی بات تیسرے کو بتانا غیبت ہے‘‘۔ انگریزی میں یوں بتایا کرتے’’ سیکنڈ پرسن second person سے تھرڈ پرسن third person کی بات نہ کرو‘‘۔ غیبت نہ تو اپنے بڑوں کی کرنی چاہیے اور نہ اپنے چھوٹوں ہی کی کبھی کی جائے— اور دوستوں کی عیب جوئی تو بالکل ہی ناروا ہے ۔ جب ہم اپنے بڑوں کی برائی بیان کرتے ہیں تو اپنا قد چھوٹا کر لیتے ہیں، سننے والا سوچتا ہے کہ اگر اِس کے بڑے اتنے بُرے ہیں‘ تو یہ کتنا بُرا ہو گا۔ اپنے جونیئر کی بدتعریفی کرنا دراصل اپنی نااہلی کا اعلان ہوتا ہے، یعنی سننے والا یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ یہ شخص ابھی تک اپنے ماتحتوں کو لائق نہیں بنا سکا ‘ یہ خود کتنا نالائق ہوگا۔ دوست ہمارا تعارف ہوتے ہیں۔ دوست ہماری معاشرتی قوت ہیں۔ اپنے دوستوں کی غیبت کرنے والا خود کو اپنے ہاتھوں سے ایک شرف اور قوت سے معزول کر رہا ہے۔ دوستوں کے عیب بیان کرنے والا دراصل خود کو عیب دار کرتا ہے۔

غیبت بڑھتے بڑھتے بہتان کی صورت اختیار کر لیتی ہے، کیونکہ غیبت کرنے والا دوسروں کو شک کی نگا ہ سے دیکھتا ہے، وہ اس کے معاملات کی ٹوہ لگاتا ہے ٗ ا ن کے بارے میں منفی سوچتا ہے —اور پھر جیسے وہ سوچتا ہے ٗ ویسے ہی بولنا شروع کر دیتا ہے ، یعنی منفی بولنا شروع کر دیتا ہے۔ اکثر اوقات وہ حقیقت بیان کرنے کی بجائے اپنی رائے کا اظہار کرنے لگتا ہے — اور یوں بتدریج بہتان طرازی تک پہنچ جاتا ہے۔ غیبت کرنے والا دراصل واقعات کو مسخ بھی کرتا ہے، وہ عام طور پر سیاق و سباق سے ہٹ کر بات پیش کرتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سننے والا ایک غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے، اس طرح غیبت کرنے والا نفرت اور فساد پھیلانے کا مرتکب ہوتا ہے۔وہ اپنے ہدف کی عزت میں کمی کرنے کا جرم کرتا ہے اِس جرم کی سزا یہ ہے کہ خود اِس کی عزت بھی جاتی ر ہے۔ خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو جھوٹا ثابت کرنے والا شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ بھی سچوں کی فہرست سے خارج ہو چکا ہے۔ شکوہ شکائت بھی غیبت کرنے پر مجبور کر تے ہیں۔ کسی کی شکائت اگر اس کی غیر حاضری میں کی جائے تو یہ غیبت ہی کے زمرے میں آئے گی۔ جو شخص شکوہ شکائت کی عادت سے دُور ہے ٗ وہ عام طور پر غیبت سے بھی دُور ہوتا ہے۔ غیبت اور شکوہ شکائت سے اجتناب کرنے والا دراصل اپنے معاملات اپنے رب کے سپرد کر دیتا ہے۔ جب اپنے معاملات اپنے رب کے سپرد کر دیے جائیں تو پھر شکوہ، شکائت اور غیبت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ کارِ ما ٗبفکرِ کارسازِ ما۔

زندگی کے کینوس پر ہمارے تمام تر واقعات اور تعلقات ایک رنگ دار تصویر کی طرح منقش ہیں، جب ہم کسی رنگ پر غیبت کی سیاہی پھیر دیتے ہیں تو ہماری اپنی ہی تصویر گویا مسخ ہو جاتی ہے۔ ’’خود کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ ایسے قرآنی حکم کی ایک تعبیر یوں بھی ہے۔ غیبتوں اور شکائتوں کے انبار لگا کر ہم اپنا معاشرتی میدان خود ہی محدود کر دیتے ہیں۔ اپنے تعلقات کے نرم گرم دھاگے جب ہم عیب جوئی کی قینچی سے کاٹ دیتے ہیں تو ہماری کمند اور کمک کمزور ہو جاتی ہے۔ ہمارے تعلقات ہمارے قیمتی اثاثہ جات ہیں۔ زندگی میں معاشی ، معاشرتی اور روحانی ترقی ہمارے تعلقات کی مرہونِ منت ہے۔ تعلق جیسا بھی ہے‘ ایک اثاثہ ہے اور اپنے اثاثوں کو کوئی ذی عقل سرِ بازار آگ نہیں لگاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وحدت الوجود کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہاں جزو اور کُل ہم آواز ہیں۔ اَنائے کُل اپنی کسی اَنائے جزو کی توہین برداشت نہیں کرتی۔ احادیث مبارکہ میں بھی بتایا گیا کہ ہے تمام مسلمان ایک جسد ِ واحد کی طرح ہیںٗ اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اِس کی دَرد محسوس کرتا ہے۔ یہ تکلیف کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے، کسی کی عزتِ نفس میں کمی کی صورت میں ‘یا پھر کسی کے جذبات کے مجروح ہونے کی صورت میں — بہر صورت جزو کو زچ کرنا‘ کُل کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ ہم سمجھتے نہیں‘ رسولِ رحمتؐ کے نام لیوا ٗجب اُنؐ کی اُمّت کے کسی فرد کو ایذا دیتے ہیں تو والی ٔ اُمّت کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ ذرا غور تو کریں— اگر کوئی اُمّتی ہمارے خلاف درخواست لے کر مدینے کی عدالت میں پیش ہو گیا تو ہم کس منہ سے بروزِ حشر شافع ِ اُمت ؐسے اپنے لیے شفاعت کے طالب ہوں گے؟؟ دُعا ہونی چاہیے کہ رب کریم ہمیں اُن تمام اِخلاقی اقدارکو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ‘ جو پیغمبر ِ اخلاق ؐ نے ہمیں تعلیم فرمائی ہیں ‘ تاکہ ہم اُنؐ کے رُوبرو سرخرو ہو سکیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply