• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دھرتی ماں کی حفاظت پر مامور لال۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

دھرتی ماں کی حفاظت پر مامور لال۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

لاہور بم دھماکے کے مقام پر پولیس والے کو خون سے لت پت دیکھ کر محسوس ہوا، یہ اُن ماؤں کے لال ہیں جو دھرتی ماں کی حفاظت اور دھرتی کے لوگوں پر قربان ہونے کی تربیت دے کر بیٹوں کو وردی پہننے کا حکم دیتی ہیں۔ جہاں دل میں بہت کچھ ٹوٹ گیا وہیں اک آس اور حوصلے کا شجر بھی سرگوشی کرتا رہا کہ جس ملک کے جوان قربانی، ایثار اور ذمہ داری کے جذبے سے سرشار ہوں وہ ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ پچھلے بیس پچیس برسوں میں ملک پر گرنے والی زمانی آفتوں، حادثاتی بجلیوں اور پھیلنے والی وباؤں نے ہم سب کو کافی مشکلات سے دوچار کیا۔ ہم اذیت میں تو رہے مگر اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے جبکہ پولیس والوں نے ان آفتوں کا براہِ راست سامنا کیا۔ وہ نہ کووڈ سے خوفزدہ ہوئے، نہ بارود سے بھری گاڑی روکنے سے ہچکچائے اور نہ دھماکوں، دنگلوں والے مقامات پر پہنچنے میں تاخیر کی۔ جب بھی کبھی ایسے پولیس افسروں کا تذکرہ سنتی ہوں تو دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ میری دھرتی اور میرے لوگوں کے محافظوں کو خدا آباد رکھے، ان کا ایمان کبھی متزلزل نہ ہو، ان کے حوصلے کبھی نہ ڈگمگائیں اور ان کی امیدیں کبھی نہ ٹوٹیں۔
منوں بھائی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں نئے نئے تعینات ہوئے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو دیکھ کر صحافیوں، شاعروں، ادیبوں اور تجزیہ نگاروں کا تاثر یہ تھا کہ وہ بہت مثبت سوچ رکھنے والے انسان ہیں۔ آج وقت نے ثابت کیا کہ وہ ہماری توقعات پر کافی حد تک پورا اُترے ہیں۔ لاہور ایک بہت ہی مشکل شہر ہے اس کا انتظام، اس کے معاملات، اس کی رونقیں دنیا سے منفرد نوعیت کی ہیں۔ جس شہر میں بیک وقت بہت سی تقاریب ہو رہی ہوں گی، جو شہر ہر طبقہ فکر کےلئے بنیادی اہمیت کا حامل ہو گا، وہاں محکمہ پولیس کو زیادہ متحرک رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی حوالے سے بھی لاہور شہر پورے پاکستان کی توجہ کا حامل رہتا ہے۔ اس طرح اس قلب و نظر کی وسعت اور بڑے دل والے شہر کی خوبصورتیاں بحال رکھنے کے لئے بڑے حوصلے اور دھیمے مزاج افسر کی ضرورت ہوتی ہے جو بروقت نئے نئے چیلنجز کا سامنا کرے اور دکھوں کی شنوائی بھی کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر پولیس افسر کسی نہ کسی سنہری اصول کو جیب میں ڈالے رکھتا ہے مطلب وہ اس کی ترجیح ہوتا ہے۔ آپ نے لاہور جیسے شہر کی پولیس کی کمان سنبھالتے ہی لاہور شہر کی زمین، ہوائوں اور متاثرہ لوگوں کے خوابوں کو قبضہ مافیا کے چنگل سے آزاد کرنے کی ٹھانی، شہریوں کا چھینا گیا اثاثہ واپس دلوا کر ان کا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا جا چکا ہے۔ اس طرح متعلقہ محکموں کے تعاون سے اربوں روپے مالیت کی سینکڑوں ایکڑ سرکاری و نجی زمینیں اور جائیداد واگزار کروا کر حکومت اور اصل مالکان کے حوالے کرنا بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ 700سے زائد ایسے بااثر ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جو اتنی اونچی اڑان رکھتے تھے کہ وہاں تک پہنچنے کے لئے اکثر کے پر جلتے تھے۔ اوورسیز پاکستانیز کمیشن اور محکمہ کوآپریٹوز پر مشتمل اینٹی قبضہ مافیا سیل اور خصوصی ہیلپ لائن 1242کا قیام بہت خوش آئند ہے۔ ایک فراڈ نجی ہاؤسنگ اسکیم سے ساڑھے آٹھ کروڑ روپے نکلوا کر متاثرہ لوگوں کو واپس کرنا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
تھانہ کلچر میں فوری اور عملی بہتری کے لئے لاہور کے 84تھانوں میں سب انسپکٹر اور اے ایس آئی رینک کے کمیونٹی گائیڈ بھرتی کئے گئے ہیں جن کا کام شہریوں کی رہنمائی اور فوری مدد ہے۔ یہ جدید تعلیم یافتہ گائیڈ تھانے کے گیٹ پر صرف خوش آمدید نہیں کہتے بلکہ درخواست تحریر کرنے، فرنٹ ڈیسک، ایس ایچ اوز، انچارج انوسٹی گیشن،حوالاتیوں تک رسائی، ایف آئی آر، ڈیٹا انٹری، گمشدگی رپورٹس کے اندراج، زیر تفتیش کیسز اور پولیس سروسز کے بارےمیں تمام معلومات اور تعاون فراہم کررہے ہیں۔ چالیس جوانوں اور بیس موٹر سائیکلز پر مشتمل ابابیل فورس شہر کے زیادہ کرائم والے ہاٹ اسپاٹس ایریاز میں امن و امان بحال رکھنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں شعبہ انوسٹی گیشن کی خراب کارکردگی کے باعث کیسز التواء کا شکار رہتے ہیں اور انصاف کے حصول میں تاخیر ہوتی ہے۔ اب اس شعبے کو مضبوط بنانے کے لئے ایس ایچ او لگنے کیلئے دو سال انوسٹی گیشن ونگ میں خدمات کو لازمی شرط بنا دیا گیا ہے۔میں زندگی میں پہلی بار اس عمارت میں گئی۔ مجھے کوئی کام نہیں تھا، صرف عوام کے محافظ اور عوام کی بہتری کے خواب کو تعبیر میں بدلنے کا عزم کئے ہوئے افسر کو دعائوں سے نوازنا مقصود تھا۔ ان سے کچھ باتیں ہوئیں اور بہت سی ادھوری رہ گئیں، پہلے بھی میں نے کئی کالم لکھے جس میں حکومتوں سے درخواست کی کہ دیگر شعبوں کی طرح پولیس کا بھی آٹھ گھنٹے کا دورانیہ کیا جائے کیونکہ وہ بھی انسان ہیں۔ انسانی زندگی گزارنا ان کا بھی حق ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے بھی درخواست ہے کہ براہِ مہربانی پولیس کے محکمے کو درپیش مسائل کا ادراک کریں اور ان کو مطلوبہ حفاظتی سامان فراہم کرنے کے علاوہ ان کے اوقات کار بھی آٹھ گھنٹے کر دیے جائیں تاکہ ملک میں نظم و ضبط اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہو سکے۔ ان کی چوبیس گھنٹے والی ڈیوٹی ایک جبر سے کم نہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply