وزیر خزانہ کا نام اور کام۔۔خالد مسعود

میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم کے حوالے سے ایک مہربان قاری نے تقریباً میرے کالم کی طوالت کے برابر تبصرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میرا سارا تھیسس ہی غلطی پر استوار تھا۔ اس کا مؤقف تھا کہ میں نے دراصل وزیر خزانہ کی ساری تشریح اور تعریف ہی غلط کی ہے۔ اس قاری نے اپنے طویل تبصرے میں مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا وزیر خزانہ کوئی وزیر معاشیات یا وزیر اقتصادیات نہیں ہوتا کیونکہ اس کا اقتصادیات‘ معاشیات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کو انگریزی میں فنانس منسٹر اور اردو میں وزیر خزانہ کہا جاتا ہے جبکہ آپ (یعنی میں) اسے وزیر معاشیات یا وزیر اقتصادیات سمجھ رہے ہیں۔ اس قاری کو میری اس بات پر بھی بہت اعتراض تھا کہ میں نے بینکار اور اکاؤنٹنٹ وغیرہ کو اس وزارت کے لیے کیوں نا مناسب انتخاب قرار دیا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم سب سے پہلے تو نام کی بات ہو جائے۔ اگر پاکستان میں وزیر خزانہ سے مراد صرف ایک ایسا وزیر ہے جس کا کام اس کے نام کے مطابق خزانے سے متعلق معاملات ہیں تو جب خزانہ خالی ہوتا ہے تب اس وزیر کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے اگر نام اور اس سے منسوب کام کو جواز بنایا جائے تو اس ملک میں وزیر قانون کے عہدے کا کیا جواز ہے؟ لیکن آخر ہمارے ہاں وزیر قانون بھی تو ہوتا ہی ہے۔
ہمارے ملک میں وزیر خزانہ کے جواز کے بارے میں کراچی میں ایک گاڑی کے پیچھے ایک شعر لکھا ہوا تھا۔ لوگ باگ بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھے ہوئے شعروں کا مذاق بناتے ہیں تاہم اس گاڑی کے پیچھے جو شعر لکھا ہوا تھا میں نے ویسا با معنی شعر کم ہی دیکھا ہے۔ یہ شعر دراصل تضمین تھی‘ آپ بھی لطف لیں؎
کوئی وزیر خزانہ تھا‘ جب خزانہ تھا
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
بہت سی چیزیں وزارت خزانہ کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہیں اور ان لازمی چیزوں میں ملکی معاشی ترقی اور مستقبل کے لیے ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کے ذریعے خود انحصاری اور دولت کی ایسی تقسیم کا نظام وضع کرنا بھی شامل ہے جس میں دولت کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف آئے اور اس کے نتیجے میں غربت میں کمی آئے اور عام آدمی کا طرزِ زندگی بہتر ہو سکے۔ کسی زمانے میں ہمارا وزیر خزانہ اپنی وزارت کی مدد سے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے بنایا کرتا تھا اور انہی منصوبوں پر عمل کر کے کئی ممالک نے اتنی ترقی کی کہ آج ہم ان کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ تب درج بالا سارے کام وزارت خزانہ ہی کیا کرتی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ وزیر خزانہ اپنے کام کو اس وسیع تر تناظر میں دیکھتے تھے جو دیرپا بنیادوں پر ملکی معاشی ترقی کے لیے ضروری تھا۔ پھر بینکار آنا شروع ہو گئے اور ملکی معیشت دیرپا بنیادوں کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر چلنے لگ گئی۔ قرضوں کا حصول مطمح نظر ٹھہرا اور ہر گزرتے دن حکمرانوں نے اپنے اللے تللے پورے کرنے کی غرض سے ہمیں ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ اے ڈی پی اور اسی قبیل کے دوسرے اداروں کے بس میں ڈال دیا۔ یہ سارے بینکار اور اکاؤنٹنٹ دراصل انہی عالمی اداروں کے ٹاؤٹ تھے۔ آپ مہذب الفاظ میں ان لوگوں کو ان عالمی معاشی اداروں کے ”پرسنل بینکار‘‘ برائے پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ عملی طور پر ان کا کام یہی تھا۔
پاکستان کے وزیر خزانہ کو اگر معیشت اور اقتصادیات کے معاملات کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے تو یہ قدرتی امر ہے کہ کیونکہ اس ملک میں میرے اس ناقد قاری کے اعتراض کے مطابق نہ تو کوئی وزیر برائے معیشت ہے اور نہ ہی کوئی وزیر برائے اقتصادیات (جو وہ ترجمہ فرما رہے تھے) تو کیا اب ملک کی معیشت کی دکان بند کر دی جائے؟ اسے کس نے چلانا ہے؟ ظاہر ہے یہ کام وزارتِ خزانہ کا ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک عرصہ تک یہ کام وزارت خزانہ ہی کی ذمہ داری تھی اور وہ اسے نبھاتی رہی ہے‘ جیسے ماضی بعید میں ملک غلام محمد اور اس کے بعد ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم وغیرہ۔ اب کیا ہو گیا ہے؟ کیا اب ان کاموں کے لیے کوئی علیحدہ وزارت بن گئی ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ اہم کام کون کرے گا؟

بینکار کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت کیسی ہے؟ اس کے لیے اگر ایک مثال دوں تو شاید میرے اس ناقد کو میرا مؤقف سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ جب ہمارے موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب جب ایک بینک کے صدر تھے تو انہوں نے پاکستان میں بینکنگ کے شعبہ میں ایک بالکل نئی اختراع کی۔ ماشاء اللہ سے ان کے ذہین ہونے میں تو مجھے بھی کوئی شک نہیں صرف ان کی قابلیت اور ذہانت کے صحیح استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ انہوں نے بینک میں کم از کم بیلنس پر ماہانہ جرمانے کا اصول لاگو کر دیا۔ یعنی اگر کسی کے اکاؤنٹ میں پانچ ہزار سے کم رقم ہو گی تو اس شخص کے اکاؤنٹ میں سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ جس اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے سے کم رقم ہو گی وہ کسی سیٹھ‘ صنعت کار‘ دولت مند‘ کاروباری یا امیر آدمی کا اکاؤنٹ تو نہیں ہو گا۔ کسی غریب یا پنشنر‘ زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے والے بے وسیلہ آدمی کا ہی ہو گا۔ ترین صاحب نے اس پہلے سے غریب اور مقہور شخص کے اکاؤنٹ سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹنے شروع کر دیے۔ اس قانون کو سٹیٹ بینک نے بعد ازاں غیر قانونی قرار دے کر بینک کو کروڑوں روپے جرمانہ کر دیا۔ غریب کے پیسے بینک نے ڈکار لیے۔ اس بینک کا جرمانہ بڑے بینک نے ہضم کر لیا۔ جن کے اکاؤنٹ سے پیسے کٹے تھے ان کی نہ شنوائی ہوئی اور نہ ہی داد رسی ہو سکی۔
دراصل یہ وہ ذہنیت ہے جو بینکار اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور اس کا سارا ملبہ اس کے پاس پھنسے ہوئے اکاؤنٹ ہولڈرز پر گرتا ہے۔ میں نے ایک ہی بینک کی ایک ہی برانچ کے لیے جاری کردہ دو عدد چیکس کو کلیئرنس کے لیے ایک بینک کی برانچ میں جمع کروایا تو بینک نے ایک ہی لفافے میں بھیجے جانے والے ان دو عدد چیکس کے عوض میرے اکاؤنٹ سے دو عدد کوریئر کرنے کے پیسے کاٹ لیے۔ ایسی ہی لوٹ مار اور جمع نفی کے چکر کے طفیل آج بینکوں کا نفع اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بینکوں کے صدور پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے ملازم ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملکی بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم۔ لانگ ٹرم منصوبہ بندی ماہرین معاشیات کا کام ہے جبکہ شارٹ ٹرم طریقہ بڑا آسان ہے وہ یہ کہ قرضہ لے کر بجٹ کا خسارہ پورا کر لیا جائے۔ قرض کے حصول کی صلاحیت اور مہارت صرف بینکار اور اکاؤنٹنٹ ٹائپ لوگوں میں ہوتی ہے‘ ادھر روزانہ کی بنیاد پر چلنے والی ہماری حکومتوں کو اپنے اللے تللے پورے کرنے اور موج میلے کی غرض سے قرضہ لینا ہوتا ہے اور وہ اس کام پر انہی عالمی بینکوں کے ایجنٹوں کو مامور کرتی ہیں۔ بھلا یہ کام ان عالمی معاشی اداروں کے ایجنٹوں سے بہتر کون کر سکتا ہے؟ نالائق اور کوتاہ نظری کی حامل ہماری حکومتوں‘ عالمی معاشی اداروں اور ان کے تیز طرار ایجنٹوں پر مشتمل اس ٹرائیکا نے انجمن امداد باہمی کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے قرضوں کا پہاڑ جیسا ”گٹھڑ‘‘ اس ملک پر لاد دیا ہے جس کو اتارنے کی ذمہ داری مجھ پر اور میری آنے والی نسلوں ڈال دی گئی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply