• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہندو مندر کی تعمیر کا معمہ۔۔سید کلیم اللہ شاہ بخاری

ہندو مندر کی تعمیر کا معمہ۔۔سید کلیم اللہ شاہ بخاری

اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے ایک مندر بنانے کے مقصد سے کچھ زمین حکومت کی طرف سے دی گئی جہاں سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس پر متضاد آراء سے سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع ہے جس میں ایک طبقہ پاکستان کو دارلاسلام قرار سے کر یہاں کسی بھی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ بنانے کی مخالفت کر رہاہے اور حکومت پر لعن طعن کر رہا ہے۔ جبکہ ایک طبقہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے دے کر اس کی حمایت کر رہا ہے۔

کچھ لوگ ہندوستان میں بابری مسجد کا حوالہ دے کر دہائی دے رہے ہیں اور کچھ لوگ لال مسجد کی مثال دے کر حکومت کو اسلام دشمن ثابت کرنے میں لگے ہیں۔
تحریک انصاف کے حلقوں سے دفاع کی کوشش میں کہا جا رہا ہے کہ جی منظوری تو نواز شریف گورنمنٹ نے دی تھی اب تحریک انصاف کی حکومت نے تو نہیں دی۔

غالباً چار مرلے جگہ دی گئی ہے اور گویا ایک کہرام سا برپا ہے۔
غیر مسلم ممالک میں مساجد بننے پر مجاہدین پاکستان شادیانے بجاتے ہیں کہ بیلجئم یا نیویارک میں اتنی بڑی مسجد بنا دی گئی۔ لیکن اپنے ملک میں چار مرلہ کا ایک مندر نہیں ہضم ہو رہا اور اکثریت کے ان دیکھے غضب سے ڈرا ہوا  ہندو چار مرلے کی چار دیواری میں بند ہو کر بھی اجتماعی عبادت کرتا برداشت نہیں ہو رہا جبکہ خود روزانہ فخر سے تصاویر شئیر کرتے ہیں کہ فلاں کافر ملک کے ریلوے سٹیشن پر با جماعت نماز ادا کر کے کفار کے سینے پر اسلام کی دھاک بٹھائی گئی۔
پاکستان کے آئین  میں اقلیتوں کو اپنی مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہ جس طرح چاہیں اپنے مذہب پر عمل بھی کر سکتے ہیں اور جائز طریقہ سے عبادت گاہیں بھی بنا سکتے ہیں ( سوائے قادیانیوں پر چند پابندیوں کے)۔ پاکستان کو دارلاسلام قرار دے کر مذہبی طبقہ کےجو لوگ قرون اولیٰ  کے محدثین کے احکامات کا حوالہ دے رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ آپ کے ہر مسلک کے اکابر علماء نے بھی پاکستان کے متفقہ آئین کو منظور کیا تھا تو کیا وہ لوگ امر سے نابلد تھے کہ اقلیتوں کو دی جانے والی مذہبی آزادی میں نئی عبادت گاہ بنانے کا حق بھی دیا جا رہا ہے؟

محدثین کے حوالے دے کر لعن طعن کرنے والوں کو سب سے پہلے اپنے مرحومین علماء پر گرفت کرنی چاہیے کہ اس ” غیر اسلامی ” آئین پر متفق کیسے ہو گئے۔ اس کے بعد موجودہ علماء اور ان کی تنظیموں سے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ اس کے خلاف تحریک چلائیں۔ تقریبا ًسبھی مذہبی تنظیموں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے۔اگر ہمت ہے تو یہ مسئلہ لے کے آئیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی علماء موجود ہیں جس کا کام ہی ملک کے قوانین کو اسلامی شکل میں ڈھالنا ہے۔

جب جمہوریت آپ کا طرز حکومت طے پایا ہے تو دارا لاسلام کی اصطلاح کیسے استعمال کی جا رہی ہے جبکہ یہ تو خالص اسلامی طرز حکومت سے منسلک ہے۔

اگر آپ اقلیتوں کی بڑھتی آبادی کے حساب سے نئی عبادت گاہ کے حق سے انکاری ہیں تو پھر یہ بھی توقع رکھیں کہ غیر مسلم ممالک بھی آپ کو مساجد بنانے سے روک سکتے ہیں پھر آہ و فغاں نہیں کرنی۔ اگر کوئی ہم سے بھی بڑا شدت پسند خدانخواستہ دارلکفر میں بنی مساجد کو مسمار کرنے کا خیال کر لے تو ؟

صرف ایک مسجد جو ان کے خیال میں مندر پر بنی تھی جب گرائی گئی تو اس کا گھاؤ تین دہائیوں بعد بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔
پاکستان اور خصوصا ًسندھ میں جو حشر ہندو اقلیت کا “دارلاسلام” کے مجاہدین کر رہے ہیں اس کی وجہ سے اوسطا پانچ ہزار ہندو ہر سال پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلے جاتے ہیں اور وہاں چاہے برسوں کیمپوں میں پڑے رہیں واپسی کا نام نہیں لیتے۔

پاکستان میں سب کا ایک جیسا حق ہے اور آپ کی سوچ اس کو تسلیم نہیں کر سکتی تو خدا کے لیے اپنے دماغ کھولنے کی سعی کریں۔

پاکستان اقلیتوں کے خلاف برے سلوک کی وجہ سے عالمی واچ لسٹ میں ہے اور مختلف مغربی ممالک جن سے ہمارا دال ساگ کا رشتہ قائم ہے ان کا پاکستان پر بے انتہا دباؤہے۔ سکھوں اور ہندوؤں کی عبادگاہوں کی بحالی پر بھی اپنے فرزندان اسلام کا پارہ چڑھ جاتا ہے جبکہ عالمی سطح پر ان اقدامات سے بھارتی پروپیگنڈہ کا بھی توڑ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں سسک سسک کر زندگی گزار رہی  ہیں۔ ہمارے پاس بھارت جیسی پروپیگنڈہ کی صلاحیت نہیں ہے لیکن اقلیتوں کو خوش کرنے کے ان اقدامات سے ہی ہم دنیا میں پروپیگنڈہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ لوگ خوش ہیں لیکن بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کیا کیا ہو رہا ہے۔ اخلاقی طور پر بھی جب آپ کی اپنی اقلیتیں سسک رہی ہوں تو ہم بھارتی مسلمانوں کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے آواز بلند کرتے اچھے لگتے ہیں ؟
چند مرلہ زمین مندر کو دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن عالمی سطح پر ہاکستان کے دارلحکومت میں پہلا مندر تعمیر ہونے کی یہ خبر کیسے لی گئی ہے ذرا دوسرے ملکوں کے اخبار پڑھ کر دیکھیں۔

قاری حنیف ڈار کی بات کو دہراؤں گا کہ دنیا بدل گئی ہے اس لیے قرون اولی کے محدثین کے اقوال ہر جگہ نہیں فٹ کیے جا سکتے۔ میں اور آپ کعبہ پر اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا سعودی بادشاہ۔ کسی دور میں کوئی بھی زاد راہ لے کر کعبہ کی زیارت کو نکل جاتا اور کوئی قانون اس کو نہیں روک سکتا تھا۔ کیا اب بلا اجازت آپ جا سکتے ہیں ؟ کیا کعبہ پر آپ کا حق کسی شرعی نص سے ختم ہو گیا ؟ یقینا ًحق وہی ہے لیکن دنیاوی قوانین بدل گئے ہیں۔ ویزہ پاسپورٹ بین الاقوامی سرحدیں سب آپ کے حق میں حائل ہو گئیں۔ دنیا بدل گئی ہے اس لیے کچھ خود کو بھی بدلیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جمہوریت میں سب کو حق دیں۔ اقلیتوں کا گلا گھونٹیں گے تو جہاں جہاں آپ اقلیت میں ہیں وہاں وہاں آپ کا گلا بھی گھونٹا جا رہا ہے۔ پھر کشمییر فلسطین اور برما کے مسلمانوں پر رونا منافقت ہے۔

Facebook Comments

سیّد کلیم اللہ شاہ بخاری
سید کلیم اللہ شاہ بخاری عرصہ تیرہ سال سے دبئی میں مقیم ہیں۔ ٹیلی کام انجینئر ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف دبئی کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ دنیا گھومنے اور لکھنے لکھانے کے بھی شوقین ہیں۔ ان کے پہلے کئی مضامین اردو پوائنٹ پر شائع ہو چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply