کیا یہی تو “بیرونی سازش”نہیں ؟۔۔انوار احمد

پچھلے دو ہفتوں سے پوری قوم ایک ہیجان کا شکار ہے ۔ معاشرہ بُری طرح بٹ چکا ہے۔ ہر فرد اپنے موقف اور پسند کی پارٹی کو سچا اور مخالف کو غدار اور نامعلوم کن کن القابات سے نواز رہا ہے ۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات تو یہ ہے کہ شاید پہلی مرتبہ فوج کے کردار کو مشکوک بنا دیا گیا ہے اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اور فوج کہیں آمنے سامنے نہ آجائیں یا یہ تاثر ملتا ہے کہ اس منظم ادارے میں بھی گروپ بندی ہوگئی ہے ۔ دیگر سکیورٹی اداروں پر بھی سوالیہ نشانات کھڑے کردئیے گئے ہیں ۔ ایک اور تشویشناک بات ،اعلیٰ عدلیہ کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور معزز جج صاحبان کی کردار کشی کی جارہی ہے ۔

یہ معمولی بات نہیں ہے ،بلکہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیشوں اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کے غیر مناسب رویوں اور بیانات کی وجہ سے ریاست کا وجود اور سالمیت خطرے میں نظر آرہی ہے جو کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں۔ ذرا سوچیے اس صورتحال سے سب سے زیادہ فائدہ کسے کو ہوگا ۔ کیا ہمارے بیرونی دشمنوں کا مقصد کہیں اس سے الگ ہے ۔ کیا آپ نادانستہ طور پر ان ہی کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ۔؟

پتہ نہیں کیوں ایک فیلنگ یہ بھی آرہی ہے شاید اصل بیرونی ایجنڈا یا ” سازش ” یہی تو نہیں ہے جس کو خانصاحب آگے بڑھا رہے ہیں۔ چچا سام کے کھیل نرالے ہوتے ہیں ۔ اکثر انکی تعریف کرنے والے بھی اور گالیاں دینے والے بھی انہیں کے لوگ ہوتے ہیں۔ پینٹاگون، سی آئی اے اور دوسرے اداروں کی اپنی اپنی لابیز الگ الگ کام کررہی ہوتی ہیں اور سب کی منزل ایک ہی ہوتی ہے ۔

ذرا سوچیں اگر خانصاحب اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ملک انارکی کا شکار ہوجاتا ہے یا خدانخواستہ فوج اور عوام آمنے سامنے آجاتے ہیں یا فوج میں کوئی گروپنگ ہوجاتی ہے اسکے نتائج کتنے خوفناک ہونگے اور اسکا فائدہ کسے ہوگا ۔۔ ایٹمی اثاثے محفوظ رہ پائیں گے؟ اور مملکت خداداد کہاں ہوگی ۔؟

بہتر ہے خانصاحب اس جنون سے باہر آئیں ۔ آئین کی تذلیل کرنے سے گریز کریں اور آئیں و قانون پر عمل کرتے ہوئے انتخابات میں جائیں اور نیا مینڈیٹ لیکر واپس آئیں۔ یہ عارضی پسپائی کوئی بات نہیں ۔ یہ سیاست کا حصہ ہے ۔

خانصاحب آپ اسپورٹس مین ہیں تو اسپورٹس مین اسپرٹ کا بھی مظاہرہ کریں ۔ میں نہ مانوں کی ضد سے باز آئیں اور سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں۔ بہتر ہوگا کہ اپنی تقاریر میں کرکٹ اور ورلڈ کپ کا ذکر بھی نہ کریں۔ سیاست کو سیاست کی طرح کریں اور کرکٹ گراؤنڈ سے باہر آکر زمینی حقائق کا ادراک کریں۔ ایک بال سے تین وکٹ گرادونگا جیسی بونگیاں شاید لونڈے لپاڑوں میں تو بک جائے لیکن سنجیدہ حلقوں میں اسکی کوئی پذیرائی نہیں ہوگی۔

بھارت کے کپتان کپیل دیو دو مرتبہ ، ویسٹ انڈیز نے شاید پانچ اور اسی طرح آسٹریلوی بھی متعدد بار ورلڈ کپ جیت چکے ہیں کیا کبھی کسی نے اس طرح ڈھنڈورا پیٹا ہے ۔؟ کیا جہانگیر خان سے بڑا اسپورٹس میں آج تک پیدا ہوا ہے جس نے اکیلے پانچ سو سے زیادہ میچ بِنا کسی ہار کے جیتے اور ملک کا نام روشن کیا؟ اسی طرح ہاکی میں بھی ہمارا ثانی کوئی نہیں تھا لیکن کیا کبھی اصلاح الدین یا جہانگیر خان نے اپنی کامیابیوں کو اس طرح کیش کرنے کی کوشش کی۔؟

سیاست میں بُردباری،دور اندیشی اور صبر و تحمل ضروری ہے۔ مخالفوں کی چالوں کو سمجھنے اور اسکو کاؤنٹر کرنے کے لیے جذباتی نعرے نہیں بلکہ ان سے بہتر حکمت عملی چاہیے ۔

اسی طرح مجمع اکھٹا کرلینا اور بزعم خود کہنا کہ ہم نے سب سے بڑا جلسہ کرلیا کوئی دلیل نہیں کہ بس آپ ہی ایک پاپولر لیڈر ہیں ۔ مجمع اکھٹا کرلینا اور اس مجمع کو ووٹ میں تبدیل کرنا دو علیحدہ باتیں ہیں۔

یاد رہے پچھلے الیکشن میں اوپر والوں کی تمام تر آشیرباد کے باوجود آپکو تیس فیصد سے بھی کم ووٹ پڑے تھے اور اب وہ ” سپورٹ ” شاید اب آپ کے پاس نہ ہو ۔۔ ہر ادارے سے ٹکراؤ کی پالیسی آپ کے لیے مناسب نہیں۔

آپکے اور آپکی جماعت کے دیگر افراد کے خلاف اب فائلیں بھی کھلیں گی اور مقدمے بھی چلیں گے ۔ توشہ خانہ اور فرح گوگی کے کیس سامنے آچکے ہی جو آپ کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں اور یہ بھی نہ بھولیں کہ مخالف کیمپ میں گھاگ سیاستداں ہیں جو آپکی زندگی اجیرن کردینگے ،لہذا ہوش کے ناخن لیں اور سمجھ داری سے سیاست کریں۔

آج ہی قومی سلامتی کونسل جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان ،وفاقی وزرا ء اور دوسرے ذمہ داران اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بھی آپ کے مبینہ خط کو کسی قسم کی ” سازش ” کی تردید کر چکے ہیں ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح کیا آپ ایک اور یو ٹرن لینگے یا قوم سے اس غلط بیانی کی معافی مانگیں گے یا قومی سلامتی کے اس اعلامیہ اور اس میٹنگ میں شامل تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور حساس اداروں کو بھی اس ” سازش” میں شراکت دار قرار دینگے ۔؟

عمران خان آپ امریکہ دشمنی اور اسلام دشمنی کا چورن کب تک بیچیں گے ۔ کل ہی آپ اور آپکے رفقا ء امریکی خاتون کانگریس سے خوش گپیاں کرتے نظر آئے جبکہ آپ کی نظر میں وہی سازش کے موجب ہیں ۔

سیاست میں مفادات اور ٹائمنگ اہم ہوتی ہیں اگر الیکشن کسی طرح موخر ہوجاتے ہیں تو کیا آپکا ” امریکہ دشمنی اور امریکی سازش” کا بیانیہ چل پائے گا ۔ کیا فواد چوہدری، شیخ رشید اور آپکے امریکی شہریت کے حامل وزرا ء اور مشیران پر آپ اعتماد کرسکتے ہیں ؟۔ یہ وہ گرگٹ ہیں جو آنکھیں بدلتے دیر نہیں لگاتے کہیں ایسا نہ ہو کہ کل یہی آپکے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں ۔

زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ بلوچستان اور سندھ میں آپکی کوئی شنوائی نہیں ہوگی ۔ خیبر پختون خوا میں عمران خان ڈرون اور مظلومیت کا کارڈ کسی حد تک چل بھی جائیگا لیکن یہ نہ بھولیں کہ وہاں جے یو آئی، جماعت اسلامی اور اے این پی ٹف ٹائم ڈیں گی۔ بلوچستان میں قوم پرست اور جے یو آئی کا توڑ ممکن نہیں ہوگا۔

صرف پنجاب کے شہری علاقوں میں برگر کلاس اور ٹوئیٹر اکاؤنٹ اور سوشل میڈیا پر خانصاحب مقبول ہیں لیکن پنجاب کا اصل ووٹ اسکے دیہی علاقوں میں ہے جہاں نواز لیگ اور دوسری سیاسی مذہبی جماعتیں اپنا اثر رکھتی ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی بھی ہوتی ہے جو اپنا جادو جگا سکتے ہیں اور اسکا مظاہرہ آپ تحریک عدم اعتماد میں دیکھ ہی چکے ہیں ۔

رہی بات کراچی کی، یہاں ایم کیو ایم کی سیاسی انجینئرنگ کے بعد بہت بڑی پولرائزیشن اور سیاسی ویکیوم ہے جسے خانصاحب کیش کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس شہر میں ایم کیو ایم،جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی بھی اسی طرح برقرار ہیں، یہ قوتیں آپ کو کھلا میدان نہیں دیں گی، جبکہ اب آپ کے پاس نادیدہ قوتوں کی حمایت بھی نہیں ہوگی ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر والے عمران خان کے اس زور کو کاؤنٹر کرنے کے لیے پرانی ایم کیو ایم کو فعال کردیں، یہ نہ بھولیں انکی جڑیں عوام میں گہری ہیں اور یہ جماعت کسی بھی وقت متحرک ہوسکتی ہے۔ عین ممکن ہے الطاف حسین صاحب کی زباں بندی بھی ختم کردی جائے اور ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو اکھٹا کردیا جائے اور وہ ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی سیٹیں واپس لے لیں ۔۔ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی بلکہ یہ مفادات کا کھیل ہے جو ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے۔

اب رہی بات اورسیز پاکستانیوں کی تو انکی اپنی مجبوریاں اورحدود ہیں، وہ شاید آپکی پارٹی فنڈنگ تو کردیں اور ٹویٹر یا سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلا دیں لیکن عملی طور پر وہ ایجیٹیشنل پالیٹکس کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اسکی تازہ مثال واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے کے لیے لگے پوسٹرز پر واضح ہدایت ہے کہ ” اینٹی امریکہ نعرے نہ لگائے جائیں ” شاید ڈی پورٹ ہونے یا امریکی ویزا اور شہریت کا رسک وہ نہیں لے سکتے اور یہی عقلیت بھی ہے۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ چورن صرف پاکستان ہی کے لیے ہے ۔؟

حال ہی میں ترکی کے کسی شہر میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو مظاہرہ کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ۔ اسی طرح سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے پہلے ہی کسی احتجاج پر باپندی لگا دی ہے وہاں شرطہ انکی لال کردیگا اور اگلی فلائٹ سے الباکستان واپسی ہوجائیگی ۔

بس ایک واحد ملک پاکستان ہی ہے جہاں جس کا جو جی چاہے بونگی مارے ،پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ جہاں قوم یوتھ کے خیال میں انکے علاوہ باقی سب غدار ہیں۔

آخر میں خانصاحب اور انکے حواریوں سے اتنی سی گزارش ہے کہ حالات کو اس قدر خراب نہ کردیں کہ آئین و قانون اور پارلیمنٹ کی عملداری ہی ختم ہوجائے اور ایک بار پھر آمریت ہم پر مسلط ہوجائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ خزاں نہ رہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا یہی تو “بیرونی سازش”نہیں ؟۔۔انوار احمد

  1. ایک متوازن، زمینی حقائق سے قریب اور پُر خلوص تجزیہ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شائید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات
    خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے
    وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ خزاں نہ رہے

Leave a Reply