اور جب بہت سے بندر آدمی بننے سے چُوک گئے/ٹیپو بغلانی

ہر معاشرہ اپنے جوانوں کی  ان کی خاصیتوں کی بنیاد پر چھانٹی کر لیتا ہے۔چھانٹی کرنے کی بنیاد اچھائیاں برائیاں، خوبیاں خامیاں، صفتیں عیب ، کمزوریاں اور ان جوانوں کی بہادریاں ہیں۔چھانٹی شدہ گروپ زیادہ بھی بن سکتے ہیں لیکن کم از کم تین گروپ تو ضرور ہی بنتے ہیں۔

1- اصلی کچے کچوک آدمی کا گروپ
2 – اصلی پکے پکوک آدمی کا گروپ
3 – کچے پکے آدمی کی مکس نسل کا گروپ

 گروپوں کی بنیاد کی صحیح وجہ !

جب سب جوان دو ٹانگوں پر چلتے ہیں، کام ہنر سیکھتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں، سیکس کرتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں، خاندان بناتے ہیں اور ان کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تو پھر ان کو ایک ہی گروپ میں جمع کرنے کے بجائے الگ الگ کیوں رکھا گیا؟

یہ سوال بہت اہم ہے
اور اس کا جواب تو سوال سے بھی زیادہ اہم ہے اور جواب ہے ارتقاء !

ارتقاء کا فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ آدمی یکدم سے وجود میں نہیں آ گیا تھا، یہ صدیوں تک ایک نسل سے دوسری نسل کشید ہو ہو کر خود کو “موسم اور ضرورت” کے مطابق “مرحلہ وار سنوارتا اور ڈالتا” رہا ہے۔

شروع شروع کا آدمی اصل میں کچا آدمی تھا، وہ پکا آدمی نہیں تھا۔ سائنس آج اسی کچے آدمی کو نیئنڈرتھل کہہ کر پکار رہی ہے،لیکن کیا یہی کچا آدمی جو ابھی بہت سے نقص رکھتا ہے، یہی قدرت کا شاہکار، اشرف المخلوقات اور وجہ ء تخلیق کائنات تھا؟

ظاہر ہے یہ کچا آدمی یعنی نیئنڈرتھل فطرت کی پسند اور منزل ہرگز ہرگز نہیں تھا، کام جاری تھا، محنت جاری تھی۔

ایک جنس سے دوسری جنس پیدا کی جا رہی تھی تا کہ بالکل آخر میں وہ جنس پیدا ہو سکے جو سب مخلوقات پر چھا جائے اور قدرت فخر کر سکے کہ دیکھو میں نے کیسا  ماسٹر پیس پیدا کیا۔

کچا آدمی آخر قدرت اور خدا کی پسند کیوں نہیں تھا؟
آئیے پہلے ذرا ہم ایک جھلک  اس کچے آدمی کی دیکھ لیتے ہیں

اپنی آنکھیں بند کریں اور تصور کریں کہ ایک آدمی جو دو ٹانگوں پر کھڑا ہوتا ہے، مکمل سیدھا اکڑ کر تو کھڑا نہیں ہو سکتا، تھوڑا کندھے اور کمر جھکا کر چلتا ہے۔اس کا جسم بھی خوبصورت اور نفیس نہیں بلکہ بہت بے ڈھنگا، موٹا اور بھدا ہے۔
نین نقش بھی خاص تیکھے اور پُرکشش نہیں۔ناک بہت چپٹی، موٹی اور کر لیں، نتھنے چوڑے کر لیں، کان ذرا بڑے کر لیں، ماتھا چھوٹا اور کھوپڑی بھی چھوٹی کر لیں، نیچے والا جبڑا اوپر والے جبڑے سے چھوٹا اور پیچھے کی طرف سرکا ہوا کر لیں، ٹھوڑی بس نشانی کے  طور پر چھوٹی سی بنا لیں، آنکھیں بھی گول گول اور چھوٹی بنا لیں، منہ بھی بڑا بنا لیں اور ہونٹ لٹکے ہوئے ہوں،جسم پر ریچھ کی طرح گھنے بال لگا لیں، موٹے موٹے بڑے بڑے پاؤں اور ہاتھ بنا لیں،لمبے مگر موٹے بازو،چھوٹی مگر موٹی ٹانگیں اور مضبوط زور آور جسم بنا لیں،چونکہ سر اور کھوپڑی چھوٹی ہے لہذا یہ کچا آدمی طاقتور تو ضرور ہے لیکن اس کا دماغ کمزور ہے اور یہ کچا آدمی زیادہ عقلمند اور ذہین نہیں ہے۔
اس لیے یہ کچا آدمی فطرت کی منزل نہیں ہے۔
اب اس کچے آدمی نے پکا آدمی بننے کے لیے کچھ مزید محنت کرنا ہے۔

(پکے آدمی کا تصور کرنا ہو تو میری صلاح ہے کہ آپ انگریزوں کو سامنے رکھیے، اس مفروضے پر آپ سب کے بڑے سخت کمنٹس اور ری ایکشن آ سکتے ہیں، لیکن میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ اور محققین تحقیق کریں، گورے لوگ ارتقاء کے سب سے بہترین درجے پر کھڑی انسانی نسل ہے
اور افریقی نسل ارتقاء کے سب سے نچلے اور آخری درجے پر کھڑی انسانی نسل ہے۔
میرا مفروضہ غلط ہو سکتا ہے لیکن اسے ہرگز ہرگز نسل پرستی کے لیے استعمال نہ کیا جائے، یہ صرف ارتقاء کے درجات پر رائے ہے۔ )

بالکل سیدھا جسم، لمبا قدر، سینہ کھلا ہوا اور چوڑا، آنکھ بڑی اور دلکش، ناک پتلی اور اونچی، ماتھا صاف اور کشادہ، سر بڑا، کھوپڑی بڑی یعنی دماغ بڑا، ہاتھ پیر بھی پتلے اور دلکش، جسم پر کم بال، ہونٹ برابر تراشے ہوئے اور دانت ساتھ ساتھ جڑے ہوئے ترتیب میں، جبڑے برابر ترتیب میں۔
اس پکے آدمی میں ایک خاص تبدیلی آئی ہے جو کچے آدمی سے اسے پکا آدمی یعنی “نیئنڈرتھل” سے “ہومو سیپیئنز” بناتی ہے۔

تحقیق بتاتی ہے کہ نیئنڈرتھلز اور ہومو سیپیئنز یعنی کچا آدمی اور پکا آدمی صدیوں تک آپس میں ساتھ رہتے رہے، شادیاں بھی کرتے رہے اور بچے بھی پیدا کرتے رہے۔

آج سیارہ زمین کے مختلف براعظموں پر ہمیں آدمیوں کی مختلف نسلیں ملتی ہیں۔جس براعظم پر ذہین مخلوق ملے لیکن جسمانی طور پر کمزور ہوں تو یقین کر لیں کہ یہ بالکل پکا پکوک آدمی ہے۔جس براعظم پر مضبوط جسم والے لوگ ملیں لیکن وہ زیادہ ذہین نہ ہوں جیسے افریقہ میں 100 فیصد جبکہ ساؤتھ ایشیاء (ہندوستان اور پاکستان اور ساتھ کے چھوٹے ملکوں میں) 50 سے 70 فیصد لوگ پکے پکوک آدمی نہیں ہیں۔ان میں سے 30 فیصد کے قریب ہومو سیپیئنز یعنی پکے آدمی ہیں جبکہ باقی کے 70 فیصد میں سے آدھے کچے آدمی یعنی نیئنڈرتھلز ہیں اور باقی کے آدھے کچے آدمی اور پکے آدمی کے ملاپ سے پیدا ہونے والا مکسچر ہیں۔

اب تک یہاں کچے آدمی اور پکے آدمی کا اچھا خاصا تعارف ہو چکا ہے۔
دونوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والے آدمی جو دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں لیکن فرق پھر بھی موجود ہے اور فرق ہے ان دونوں آدمیوں کی خوبیوں اور خامیوں کا۔

ایک طرف
آج کے جن آدمیوں کے دماغ موٹے ہیں، یعنی کند ذہن اور تھوڑے عقل والے ہیں مگر ان کے جسم مضبوط اور طاقتور ہیں۔
وہ لڑائی بھڑائی کا کام اچھی طرح سے کر سکتے ہیں لیکن ذہن اور عقل والے کام میں وہ صفر ہوتے ہیں یا بہت تھوڑے نمبر لے پاتے ہیں۔

دوسری طرف
آج کے جن آدمیوں کے دماغ اچھے ہیں، یعنی وہ تیز ذہن اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں، ان کے جسم بھی دبلے پتلے اور جلدی تھک جانے والے ہو سکتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کی زیادہ طاقت ذہن لے لیتا ہے اور جسم کے لیے طاقت اور توانائی نہیں بچتی۔
ایسے لوگ لیڈرز ہوتے ہیں، فل بٹہ فل رزلٹ لیتے ہیں اور ہیرو بنتے ہیں۔

 کچے آدمی کی خاصیت اور پکے آدمی کی خاصیت والے آدمی آپس میں مل کر کیسے سسٹم کو چلاتے ہیں؟  

سماج اور تہذیب سے ہم سب واقف ہیں لہذا یہاں گہرائی میں جانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
ریاست کے نظام کے ہر شعبے کے سربراہ اور اس کا سٹاف پکے آدمی کی خاصیت والا تعینات ہونا چاہیے۔
پکا آدمی ہی ہے جو بہتر اور پر امن پالیسی اور سسٹم بنا کر سکون سے آگے بڑھ کر دنیا کے لیے ترقی کے خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
پکا آدمی ریاست کے لیے اوپر بیٹھ کر کام کرے (ٹاپ مینجمنٹ) ، قانون بنائے، عدالت میں فیصلے کرے، ہسپتال میں علاج کرے، سکول میں پڑھائے، کتابیں لکھے، تحقیق کے شعبے میں کام کرے، ریاست کے ہر ایک آدمی کے لیے ایسی پالیسی بنائے جو شہری کے حال اور مستقبل کا دفاع کرے اور تحفظ کرے۔

کچا آدمی، پکے آدمی کی بنائی گئی پالیسی پر ہو بہو عمل کرنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔
(مڈل مینجمنٹ اور لوئر مینجمنٹ)
کچے آدمی کو ریاست کی صنعت میں کام کرنا ہو گا، کچے آدمی کو ہنر سیکھنا ہو گا، کارخانے چلانا ہوں گے۔ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہو گی اور ملک کے اندر امن و امان قائم رکھنے کے لیے اسلحہ کی مدد سے اور اپنے طاقتور جسم کی مدد سے نظام اور سسٹم کے لیے کام کرنا ہو گا لیکن یہ بات یاد رہے کہ کچا آدمی ہر وہ کام کرے جو اسے پکا آدمی کرنے کے لیے بتائے گا۔
صحت مند اور فعال ریاستی نظام کے لیے یہ یقینی بنا لیں
کہ
کچے آدمی کے پاس فیصلہ کرنے اور اپنی پالیسی بنانے کا اختیار ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

کچا آدمی دماغ تھوڑا ہونے کی وجہ سے اگر بازو کے زور اور اسلحہ کے سر پر ریاست کو یرغمال بنا لے تو ریاست کی بقاء اور سالمیت سبوتاژ ہو جائے، ریاست کا امن و امان بدترین خطرے میں پڑ جائے۔

تہذیب اور سماج میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا، معاشرے کے پکے آدمی والے وہ گروپ جو کچے آدمی کی حکمرانی اور ذہنیت کی وجہ سے خطرے میں ہوں گے وہ جھڑپوں اور گوریلہ حملوں میں مجبوراً ملوث ہو کر اپنی اور آدمیت کی بقاء کے لیے ایک بار پھر صدیوں پرانے اس دور میں واپس پہنچ جائیں گے جب کچا آدمی اپنے زور اور مضبوط جسم سے پکے آدمی کی نسل کو مار کر ختم کر رہا تھا۔
لیکن پھر اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟
کیا کچا آدمی جیت گیا اور دنیا پر حکمرانی کرنے لگا؟
قدرت جس شہکار کی تخلیق یعنی پکے آدمی کی کشید کے لیے اربوں سالوں سے ریاضت کر رہی تھی وہ آدمی کچے آدمی سے ہار کر فنا ہو گیا؟
نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوا،
کچے آدمی نے جی جان سے لڑائی کی اور میدان پر چھایا رہا، وہ طاقت کے بل پر لڑ سکتا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ اگرچہ کمزور جسم کے مالک سے تھا,لیکن کمزور جسم کا مالک یہ پکا آدمی بے حد ذہین اور چالاک تھا۔جس کے نتیجے میں..
کچا آدمی ہی دنیا سے ختم ہوا کیونکہ پکے آدمی نے اپنے اچھے دماغ اور سوچ سمجھ کی وجہ سے اچھی چال چلی اور کچے آدمی کو لڑائی میں شکست دے کر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔

کچے آدمی کے دنیا سے خاتمے کے بعد بھی انسانیت اور آدمیت ایک نہیں ہو پائے اور لوگ ایک جیسا نہیں سوچ سکتے کیونکہ کچے آدمی کا بیج آج بھی نئی نسلوں میں ظاہر ہو کر اپنے وجود کو منواتا ہے۔

 پاکستانی معاشرہ میں کچے آدمی، پکے آدمی اور کچے پکے آدمی کا نظام پر کتنا اختیار ہے؟  

اس مضمون کا حاصل یہی حصہ ہے، پہلا حصہ اس حصے کی تشریح کے لیے مرتب اور درج ہوا۔

ہمارے سماج کی مٹی زرخیز نہیں، یہاں ذہین لوگ پیدا نہیں ہوتے، ہم انہیں موٹے دماغ والے، کمزور دماغ والے یا درمیانی خصوصیات والے لوگ کہہ سکتے ہیں۔
ان خصوصیات کی بنیاد پر یہ بالکل ظاہر ہے کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت “کچے پکے آدمی کی مکس نسل” پر مشتمل ہے۔
یہ کنفیوزڈ لوگ ہیں، ڈرے ہوئے لوگ ہیں ،جرات مند نہیں ہیں، جذباتی لوگ ہیں، سوچنے سمجھنے کو عیب اور گناہ سمجھتے ہیں، لڑنے بھڑنے کو اپنا فخر اور شیوہ سمجھتے ہیں۔

ہم بات سکول سے شروع کرتے ہیں، سکول کو ایک فیلڈ بنا لیتے ہیں اور اسی پر اپنی ڈسکشن کا فوکس رکھتے ہیں۔

سکول میں جو بچے آگے رہیں وہ ملک کی ٹاپ مینجمنٹ کا حصہ بنتے ہیں، وائٹ کالر جابز کے لیے ہیومن ریورس فراہم کرتے ہیں، یہی جوان ہمارے مضمون کے پکے آدمی کی مثالیں ہیں۔
یہ لوگ تعلیم جاری رکھتے ہیں اور شعبہ تدریس، شعبہ صحت، شعبہ تحقیق اور شعبہ پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں خدمات سر انجام دیتے ہیں۔

سکول کے جو بچے جو کمزور ذہن اور اوسط درجے کی خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں، وہ فیصلہ سازی اور معاملہ فہمی جیسی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں، یہی لوگ کچے پکے آدمی کی مکس نسل ہیں۔
ایسے لوگ تعلیم کے شعبے میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتے، دھکے کھا کھر کر آگے بڑھتے رتے ہیں ایسے گروپ کے جوان سکولوں میں نہ چل پانے کے سبب علما  اور حفاظ بن جاتے ہیں، حکیم اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر بن جاتے ہیں، وکیل اور ڈنگر ڈاکٹر بن جاتے ہیں، پیر و مرشد بن کر تعویذ گنڈے کا کام سیکھ لیتے ہیں۔ بارہ جماعتیں کر کے، کسی سے سفارش کرا کے فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بھی لگ جاتے ہیں، دفتروں کے لیے کلرک مٹیریل بھی یہیں سے تیار ہوتا ہے۔تجارت اور کاروبار میں بھی اس گروپ کی اکثریت ہوتی ہے۔

اب سکول کے بچوں کا بالکل آخری گروپ ڈسکس ہونے جا رہا ہے۔
یہ تیسرا گروپ ہے۔
اس گروپ کے بچے سکول میں بالکل نہیں چل پاتے، یہ اصلی کچے آدمی کی نسل ہیں، یعنی نیئنڈرتھل کے جینز ان پر حاوی ہوتے ہیں، سکول میں ان کا کوئی کام نہیں نکلتا، یہ کام اور ہنر بھی نہیں سیکھ پاتے۔
ان کا فلسفہ مار دھاڑ اور وقف گزاری پر منحصر ہوتا ہے۔
سکول میں یہ گروپ مڈل کلاس یا مشکل سے مر کر کر میٹرک پاس کر لیتا ہے۔
یہ گروپ نشے کی لت میں پڑنا پسند کرتا ہے، جرم اور شرارت اس کا مشغلہ ہوتا ہے، عاشقی معشوقی تو نہیں لیکن جنسیت پر ان کا مکمل دھیان رہتا ہے، ایسے لوگ بچپن سے ہی پولیس یا آرمی میں جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں تا کہ وردی سے ان کو طاقت ملے، یہ رعب و دبدبہ قائم کریں، شوقیہ اسلحہ بھی رکھتے ہیں اور گاہے بگاہے اس کا، استعمال بھی کرتے ہیں۔
فوج میں بھرتی کے لیے ملک کی آبادی کا سب سے زیادہ حصہ جوانوں کے اسی گروپ سے دستیاب ہوتا ہے۔

 پاکستانی نظام میں پکا آدمی اور کچا آدمی اپنی اپنی جگہ پر کام کر رہا ہے؟ 

اوپر یہ نکتہ تفصیل سے درج ہے کہ پکا آدمی سسٹم کی پالیسی بنائے گا اور کچا آدمی اس سسٹم کی پالیسی کو نافذ کرنے میں مدد کرے گا۔

مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا، آج یہی وجہ بے چینی اور بے ترتیبی کو جنم دے رہی ہے۔
کچا آدمی اسلحے اور طاقت کے زور پر، پکے آدمی کو جھکانے پر مجبور کر رہا ہے۔
پکا آدمی اپنے شعور اور اپنے ذہین دناغ کی وجہ سے کچے آدمی کے نیچے نہیں لگنا چاہ رہا اور مزاحمت کر ریا ہے۔
پکا آدمی مستقبل کو دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ اس کی بقاء خطرے میں ہے۔
پکے آدمی کے گروپ کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کچے آدمیوں سے مار کھا رہے ہیں جو میرٹ اور اہلیت نہ ہونے کے باوجود سفارش اور خوشامد کے سہارے آگے پہنچے اور بااختیار عہدوں پر قابض ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔
مزاحمت جاری ہے، کوشش جاری ہے۔
پکا آدمی دلائل اور ذہانت کے سہارے میدان میں ہے۔
کچا آدمی طاقت اور ہتھیار کے دم پر ڈٹا ہوا ہے۔
76 سال ہو چکے اور اب تک کے نتائج بتاتے ہیں کہ ہتھیار جیت رہے ہیں اور ذہانت ہار رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں سوال یہ ہے کہ قدرت نے اپنے جس شہکار پر بے حد فخر کیا اور کروڑوں نسلوں کو چھان چھان کر یہ ہیرا ان میں سے کشید کیا،
کیا یہ ہیرا، کیا یہ پکا آدمی، کیا یہ ہوموسیپیئن، کیا یہ اشرف المخلوقات اس ناقص کچے آدمی، نیئنڈرتھل سے ہار جائے گا جو آج بھی جانوروں کے ساتھ شمار ہوتا ہے۔
قدرت اپنے شہکار کے ساتھ یہ برتاؤ گوارہ کرتی رہے گی یا پھر وہ مداخلت کرے گی؟
کیونکہ پاکستانی ہوموسیپیئن قدرت کو مداخلت کرنے کے لیے بار بار آواز دے رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply