میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(5)-گوہر تاج

میر پور سے کلو کیمپ تک

میرپور سے ہمارا ٹرک چلتا ہی چلا جا رہا تھا۔

میری نظر اس پھٹے ہوۓ تھیلے اور ٹرک کے فرش پہ بکھرے ہوۓ چیوڑے پہ پڑتی جومیرے ہاتھ سے گر گیا تھا ۔ ساتھ ہی ٹرک کے پیچھے بھاگتے اور ساتھ لے کر جانے کےلیے گڑگڑاتے اور روتے ہوۓ لقمان کا خیال دل کو ریزہ ریزہ کررہا تھا۔ خدا جانے کلّن چچااور عباس چچا نے اسے حفاظت سے میرپور سے نکلنے میں مدد دی یا نہیں۔ راستہ سے ہمارے چچا کی فیملی کو بھی انکے گھر سے لیا گیا۔

بیس جنوری کی رات کو کلو کیمپ میں پہنچے جو ایک صاف سُتھرا  علاقہ  تھا لیکن کنٹونمنٹ کی طرح یہاں بیر کس نہیں تھے۔ کلو کیمپ میں لوگ گروپ کی صورت میں آتے اور جاتے رہتے ہوں گے ۔ اس وقت بھی وہاں پانچ چھ ہزار لوگ ہوں گے۔ ہم جہاں تھےوہ ایک بڑا سا کمرہ تھا ہر خاندان کو ایک کونہ دیا گیا  تھا۔ ہم سب شہری تھے۔ اس جگہ ہمیں  چاۓ ڈبل روٹی اور روٹی ،دال سبزی کا ناشتہ ملتا۔فوج کے لوگ پکاتے اور ہم لائین میں لگ کے کھانا لیتے۔انتظام پاکستانی فوج کا تھا اور سکیورٹی ہندوستان نے فراہم کی۔

میر پور میں رہتے ہوۓ ابّی کی ذہنی حالت بہتر ہوگئی تھی لیکن یہاں آکر وہی حالت ہوگئی ۔ انہیں یہ خوف تھا کہ وہ واپس میر پور نہ بھیج دیے جائیں ۔یہاں رہتے ہوۓ ہم سب کا تاثر تو یہی تھا کہ اس میں کچھ دن رہنے کے بعد ہم مزید کچھ دن انڈیا میں قیام کے بعد پاکستان پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہم بھول گئے تھے کہ اب ہم پاکستان نہیں بنگلہ دیش میں ہیں جہاں کے لوگ اب ہم وطن دوست نہیں بلکہ  کینہ رکھنے والے دشمن بن چکےہیں۔ہم ان کی نفرت کی قید میں ہیں۔کسی بھی آزار سے آزادی کا سفر سہل نہیں ہوتا۔اس میں بے یقینی، بے چینی اور اضمحلال ہوتا ہے۔

کلو کیمپ کا انتظام پاکستانی فوج کے ہاتھ میں تھا۔ انکے کہنے کے مطابق ہم اتنے سارے افراد کو نہیں لے جاسکتے ۔ جو یہاں یعنی مشرقی پاکستان میں مستقل ہیں وہ یہیں رہیں گے ۔ہم صرف ان کو ہی لے جائیں گے جن کا خاندان منقسم ہے اور کچھ پاکستان میں اور کچھ یہاں رہ گئے ہیں ۔اس لحاظ سے ہمارا ایک بڑا بھائی تو تعلیم کی غرض سےکراچی میں تھا اور باقی ہم سب یہاں لیکن ہم تو مستقل ہی یہاں رہتے تھے۔ لہٰذا اپنےجانے کے متعلق ہمارے دل میں بے یقینی کی کُھدبُد تھی۔کیمپ میں یہاں سے جانے کیلئے ہر طرف نمازیں دعائیں اور آیاتِ کریمہ کا ورد عام تھا۔

ساتھ لے کر جانے والے لوگوں کے انتخاب کے لیے انٹرویو کو پیمانہ بنایا گیا۔ہمارا لہجہ ہماری پکڑ تھا۔ مغربی پاکستان کے بہاری “ مَیں “اور مشرقی پاکستا ن  کے بہاری “ہم” سے بات کرتے ہیں۔گھر کے سربراہ کی حیثیت سے ہمارے والد کا انٹرویو ہونا تھا۔ جبکہ ان کی ذہنی حالت کافی پریشان کُن تھی۔ انٹرویو کی تاریخ ۲۷ یا ۲۸ جنوری تھی ۔ ہم ابّی کو مستقل سِکھا رہے تھے کہ کل انٹرویو ہے اور آپ کو کس طرح بولنا ہے۔میں ان کابیٹا تو تھا مگر بارہ تیرہ سال کی عمر میں  جب ایک لڑکے کو بچہ تصوّر کیا جاتا ہے۔ لیکن کسی کو کیا معلوم کہ ننھے بہن بھائیوں اور ابّا کی گرتی ہوئی ذہنی حالت نے مجھ میں ایک  دم ہی اپنے گھرانے کی سربراہی کا احساس پیدا کردیا تھا۔ اور میں بچے سے اپنے والدین کا  ذمہ   دار سمجھدار بیٹا ہوچکا تھا۔

مجھ سے چھوٹی دو دس اور آٹھ سال کی بہنیں کچھ سمجھ دار تھیں۔ جبکہ باقی بہن بھائی بہت ناسمجھ تھے۔ ان بچوں کے لیے الگ سے دودھ ملتا تھا۔ ہمارے ساتھ ممانی کا ننھا بچہ تھا ۔ اس کی غذا صرف دودھ ہی تھی کھانا قطار میں لگ کے ملتا۔گوسارا انتظام بہت اچھا تھا لیکن جسمانی نہیں بلکہ ذہنی تکلیف کا سامنا تھا۔

خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ۲۷ جنوری کو کچھ مسلئہ ہوگیا اور ۲۸ جنوری کو بقرعید پڑگئی۔ہم سب سے کہا گیا کہ انٹرویو اب عید کی نماز کے بعد ہوں  گے۔بقرعید کی نماز کااہتمام کیا گیا تھا۔ابھی ہم پہلی ہی رکعت میں سجدے میں تھے کہ اچانک فائرنگ ہوگئی۔یوں محسوس ہُوا کہ جیسے ہمارے سَروں کے عین اوپر سے تڑتڑ کرتی گولیاں گزررہی ہیں۔ہم لوگ گولی لگنے کے ڈر سے سجدے ہی میں رہے اور کچھ نمازی تو بالکل لیٹ گئے ۔ فائرنگ مکتی باہنی والوں نے دُور سے کی تھی۔کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ یہاں ہم لوگ آۓ ہوۓ ہیں۔

اس کے بعد افراتفری مچ گئی۔نماز کا علاقہ انڈین آرمی کے کنٹرول میں تھا۔انہوں نےجوابی فائرنگ کی ۔ ہم لوگ اپنے کمروں میں واپس آگئے۔ہم سے کہا گیا کہ انٹرویو اب ۲۹اور ۳۰ جنوری کو ہوں گے۔ اس سے پہلے کچھ لوگوں کو انٹرویو کے بعد رَد کرکے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ لہٰذا ہم سب کو ڈر تھا کہ کہیں نااہل نہ قرار دے دیا جاۓ۔اس ڈر سےمیرے اسکول اور والد صاحب کے ملازمت کے دستاویزات پھاڑ نے کے بعد جلا دیے گئے کہ کہیں اسکی وجہ سے ہمیں مشرقی پاکستان کا سمجھ کے روک نہ لیا جاۓ۔ ہمارےکاغذات میں لائف انشورنس کا کاغذ بھی تھا۔ والدہ صاحبہ نے دانشمندی سے کام لیتےہوۓ اس پیپر کر ایک پلاسٹک میں لپیٹ کے میرے پاجامے کے نیفے میں محفوظ کر لیا تھا۔

خوش قسمتی سے اس دن کی افراتفری کے بعد فیصلہ یہ ہُوا کہ لِسٹ میں موجود تمام لوگ بغیر انٹرویو کے جائیں گے۔۲۸ جنوری کی رات گزر گئی ۔ انٹرویو نہیں ہوۓ۔اوربقیہ لوگوں کی فہرست لگ گئی۔ہم نے ڈرتے ڈرتے لِسٹ دیکھی تو سب گھر والوں کے نام موجود تھے۔ اس دن ایک ہلچل سی تھی ۔پاکستانی فوجی نوجوانوں نے پُوری اور چاۓکا مزےدار ناشتہ وافر مقدار میں تیار کیا تھا۔ تاکہ ہم سَیر ہوکے کھائیں ۔ بالآخر آج ہم نکل رہے تھے۔

سارا سامان پیک کیا گیا۔ ۲۹ جنوری کی صبح سخت سردی تھی سب نے اونی ٹوپی پہنی ہوئی تھی ۔ہمیں گیارہ بارہ بجے نکلنا تھا۔

ریڈ کراس کا عملہ بھی تھا۔ باہر لائین سے بارہ پندرہ ٹرک لگے ہوۓ تھے۔جن کے انجن کاشور بہت ناگوار گزر  رہا تھا لیکن ان سے نکلنے والی گرمی اور حدت اس سردی میں بہت بھلی لگ رہی تھی۔ وفورِ شوق میں اگلی منزل پہ جانے کے لیے بےتاب لوگ فہرست کےحساب سے لائین میں کھڑے تھے ۔ اور سبھوں کو ڈبل روٹی اور چپاتی دی گئی ۔لیکن اس کے علاوہ بچی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑے بھی بوریوں میں بھر کے ساتھ کردیے گئے کہ اگلا سفر لمبا ہوگا ۔ اس وقت یہ روٹیاں کام آئیں گی۔

ہمیں یہ پتہ تھا کہ یہ کیمپ عارضی ہے ۔ اب ہم انڈیا کے کیمپ میں بھی کچھ دن ہی رہیں گے اور پھر وہاں سے پاکستان چلے جائیں گے۔ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں جنگی قیدی بن جانے کا تصوّر تک نہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply