بدن (5) ۔ جلد/وہاراامباکر

شاید اس بات پر حیرت ہو لیکن ہمارے جسم کا سب سے بڑا عضو کھال ہے اور یہ ایک ہرفن مولا عضو ہے۔ یہ بدن کے اندر کی چیزوں کو اندر اور بری چیزوں کو باہر رکھتی ہے۔ یہ لگنی والی کسی ضرب کی شدت کم کرتی ہے۔ ہمیں چھونے کی حس دیتی ہے۔ لطف، گرمی، تکلیف اور بہت سی چیزیں جو ہمارے لئے لازم ہیں۔ یہ میلانن بناتی ہے تا کہ ہم دھوپ کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ خود کی مرمت کرتی رہتی ہے۔ اور یہ ہمیں خوبصورت بناتی ہے۔ ہمارا خیال کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کا رسمی نام cutaneous system ہے۔ اس کا سائز بیس مربع فٹ ہے۔ اور یہ دس سے پندرہ پاونڈ وزن رکھتی ہے۔ سب سے پتلی یہ آنکھ کی پلک پر ہے جہاں اس کا سائز ایک انچ کا ہزاروں حصہ ہے جبکہ سب سے موٹی پیر کی ایڑی پر ہے۔ دل یا گردے کے برعکس، یہ کبھی fail نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں کہ کبھی یہ اچانک پھٹ جائے اور اندر کا مواد باہر آنے لگے۔
اس کے اندرونی تہہ dermis ہے جبکہ بیرونی epidermis کہلاتی ہے۔ بیرونی سطح کی سب سے باہر والی تمام تر تہہ مردہ خلیوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک قابلِ ذکر بات ہے کہ آپ کے بدن کا وہ تمام حصہ جو آپ کی خوبصورتی ہے، مر چکا ہے۔ جسم اور ہوا کا ملاپ والی جگہ پر ہم سب لاشیں ہیں۔ بیرونی جلد ہر مہینے نئی آ چکی ہوتی ہے۔ ہم ہر وقت جلد جھڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک منٹ میں پچیس ہزار چھلکے (flake) گرتے ہیں۔ ایک گھنٹے میں دس لاکھ۔ اپنے گرد آلود جسم کے کسی حصے پر انگلی پھیریں۔ اور آپ اپنے سابق حصے کو اتار کر ایک راستہ بنا رہیں ہیں۔ خاموشی کے ساتھ ہم مٹی بن رہے ہیں۔
ہم ہر سال اپنے پیچھے ایک پاونڈ مٹی چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر گھر کو ویکیوم کلینر سے صاف کریں اور اس کے بیگ کے اجزا کو آگے لگائیں تو پہچان سکیں گے کہ آنے والی بو ویسی ہو گی جیسے انسان کے بال جلائے جا رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کھال اور بال تقریباً ایک ہی شے سے بنے ہیں۔ کیراٹین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایپی ڈرمس کے نیچے زرخیز ڈرمس ہے جہاں پر کھال کے ایکٹو سسٹم موجود ہیں۔ خون اور لمف کے رگیں۔ اعصابی ریشے۔ بالوں کی جڑیں۔ پسینے اور چکنی رطوبت کے غدود۔
اس سے نیچے وہ تہہ ہے جہاں پر چربی ذخیرہ ہوتی ہے۔ یہ کھال کا حصہ نہیں لیکن جسم کا اہم حصہ ہے۔ یہاں پر جسم کی توانائی کا ذخیرہ ہے۔ یہ جسم کو انسولیشن دیتا ہے اور کھال کا ملاپ باقی جسم سے کرواتا ہے۔
کسی کو ٹھیک معلوم نہیں کہ جلد میں کتنے سوراخ ہیں لیکن یہ بہت سے ہیں۔ بیس سے پچاس لاکھ کے درمیان بالوں کے لئے۔ یہ سوراخ پسینے کے غدود سے دگنی تعداد میں ہیں اور ڈبل کام کرتے ہیں۔ یہاں سے بال نکلتے ہیں اور چکنی رطوبت بھی۔ یہ پسنے کے ساتھ ملکر سطح پر چکنائی کرتی ہے۔ اور یہ چکنائی کھال کو نرم بھی رکھتی ہے اور کئی بیرونی جانداروں اور جراثیم کے لئے یہاں رہائش ناممکن کر دیتی ہے۔
کئی بار یہ سوراخ مردہ کھال اور سوکھی چکنائی کی وجہ سے بلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ بلیک ہیڈ ہیں۔ اور کئی بار اگر یہاں انفیکشن اور سوجن ہو جاے تو پھر pimple بن جاتا ہے۔ یہ دانے خاص طور پر نوجوان لوگوں میں اس لئے عام ہیں کیونکہ باقی غدود کی طرح ان کے یہ والے غدود بھی بہت فعال ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرمس کے اندر کئی اقسام کے ریسپٹر ہیں جو دنیا سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اگر ہوا کا جھونکا آپ کے گال سے ٹکرایا ہے تو اس کو بتانے والے Meissner’s corpuscles ہیں۔ جب آپ کا ہاتھ گرم پلیٹ کو چھوا ہے تو Ruffini corpuscles نے چیخ ماری ہے۔ Merkel cells پریشر محسوس کرتے ہیں جبکہ Pacinian corpuscles ارتعاش کو۔
میسنر ہر ایک کے پسندیدہ ہیں۔ یہ ہلکا سا چھوا جانا محسوس کر لیتے ہیں اور جسم کے کئی حساس حصون میں زیادہ ہیں۔ ان کو دریافت کرنے والے 1852 کے سائنسدان جارج میسنر تھے۔ لیکن اس پر ان کا تنازعہ رڈولف ویگنر سے تھا۔ ان کی آپس میں ہونے والی لڑائی یہ بتاتی ہے کہ سائنس میں ہونے والا جھگڑا چھوٹی سے چھوٹی تفصیل پر بھی ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمام انتہائی نفیس ٹیوننگ میں ہیں اور ہمیں زندگی کا تجربہ فراہم کرتی ہیں۔ پاکینین 0.00001 ملی میٹر کی حرکت محسوس کر سکتا ہے۔ اور اس کو براہِ راست چھوئے جانے کی ضرورت بھی نہیں۔
اگر آپ بیلچہ ریت میں ڈالیں یا بجری میں۔ تو ان دونوں میں فرق کو محسوس کر سکتے ہیں۔ حالانکہ آپ کا براہِ راست رابطہ صرف بیلچے سے ہے۔
اور ایک دلچسپ چیز یہ ہے کہ گیلاہٹ محسوس کرنے کا کوئی الگ ریسپٹر نہیں ہے۔ یہ کام ہمارے تھرمل ریسپٹر کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی ایسی جگہ پر بیٹھ جائیں جو نم ہو تو یہ محسوس نہیں کر پاتے کہ یہ گیلی ہے یا صرف ٹھنڈی۔
چھونے کے بارے میں ایک اور دلچسپ چیز یہ ہے کہ ذہن صرف یہی نہیں بتاتا کہ کسی چیز کا احساس کیسا ہے بلکہ یہ بھی کہ اسے کیسا ہونا چاہیے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کسی محبت کرنے والا کا لمس خوشگوار لگتا ہے جبکہ یہی لمس اگر کسی اجنبی کا ہو تو ناگوار۔ اور یہی وجہ ہے کہ خود کو گدگدی کرنا بڑا مشکل ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply