گولڈن ایج (21) ۔ اندلس/وہاراامباکر

یورپ کے جنوب مغربی اور افریقہ کے شمال کے درمیان پتلی سی آبنائے جبرالٹر ہے۔ اس کا نام چونے کے پتھر کی ایک پہاڑی پر رکھا گیا جہاں سے بحیرہ روم کا نظارہ دِکھتا ہے۔ اس کا نام عربی میں جبل الطارق تھا جو اموی جرنل طارق بن زیاد کے نام پر رکھا گیا تھا۔ طارق اسلامی سلطنت کو 711 میں یورپ میں لے گئے تھے۔ یہاں پر ہونے والی فتوحات کے بعد آٹھ سو سال تک اندلس کی زمین پر ہونے والی حکومت کے بڑے اثرات تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اندلس میں اموی حکومت ایک سو سال رہی اور اپنے عروج پر قرطبہ یورپ کا سب سے اہم اور بغداد کے مقابلے کا شہر تھا۔ اور یہاں پر سائنس کے کارنامے کسی بھی طرح مشرق میں ہونے والی سائنس سے کم نہ تھے۔
ہسپانیہ ہی وہ جگہ تھی جہاں سے سائنس یورپ کی طرف گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
عباسیوں نے اموی خلافت کا خاتمہ 750 میں کر کے تمام اموی خاندان کو قتل کر دیا تھا۔ ایک شہزادہ اس انجام سے بچ رہا تھا جس نے اپنے ساتھی بدر کے ہمراہ دریائے فرات تیر کر پار کرلیا تھا۔ یہاں سے مصر اور پھر ہسپانیہ میں داخل ہو گیا تھا۔ یہ عبدالرحمان تھے، جنہوں نے اپنی جرات اور ذہانت سے 756 میں طاقت بنانا شروع کر دی تھی۔ سب سے پہلے اشبیلیة (Sevile) اور پھر قرطبہ میں عباسی گورنر کو شکست دے کر خود کو امیرِ اندلس بنا لیا۔
ان کے پڑپوتے عبدالرحمان دوئم کا دور وہ پہلا تھا جب اس علاقے میں امن اور ترقی کا وقت آیا اور ساتھ ہی دانش کا انقلاب بھی۔ جس وقت مامون بغداد میں بیت الحکمة بنا رہے تھے، اسی وقت میں اندلس میں بھی حکمت کی کونپل پھوٹ رہی تھی۔
مشرق سے سفر کر کے آنے والوں کے ساتھ داستانیں، فیشن، نغمے، پکوان، ہئیرسٹائل، رسوم اور علم بھی سفر کر کے مغرب میں پہنچتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندلس میں الخوارزمی اور الکندی جیسے سکالرز کا کام بھی پہنچا۔ لیکن اندلس کا سنہرا دور عبدالرحمان سوئم کے وقت میں شروع ہوا جو 929 میں حکمران بنے۔ انہوں نے خود کو امیر کہنے پر اکتفا نہیں کیا اور خود کو خلیفة المسلمین کا خطاب دیا۔ ان کے دور کی خاص بات عسکری فتوحات اور تلوار کے زور پر بغاوتوں کو کچل کر علاقے میں امن لانا تھا۔ یہ وہ قدم ہے جو ترقی کی راہ کیلئے لازم ہے۔ ان کے دور میں قربطہ یورپ کا سب سے بڑا اور ترقی یافتہ شہر بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالرحمان کے بیٹھے الحکم کے دور میں قرطبہ کی لائبریری میں پانچ لاکھ کتابیں تھیں۔ جبکہ باقی یورپ میں سب سے بڑی لائبریری میں بھی سینکڑوں سے زیادہ کتابیں نہ تھیں۔
ان کا بسایا ہوا شہر مدینة الزہرا تھا جو حکومت کا نیا مرکز بنا۔ اسے صرف دس سال میں بسایا گیا تھا۔ اور یہ عظیم اور شاندار شہر اپنے بسائے جانے کے صرف ساٹھ سال کے بعد ہی خونی خانہ جنگی میں تہس نہس کر دیا گیا جس نے یہاں سے اموی خلافت کا خاتمہ کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
الحکم کی وفات کے بعد خلافت کا عہدہ ان کے دس سالہ بیٹے ہشام کے پاس آیا۔ حکمرانی اصل میں ان کے وزیر ابو عامر المنظور کے پاس تھی۔ انہوں نے خلیفہ کو عملی طور پر محل میں قید کر لیا تھا۔ اپنے لئے نیا محل تعمیر کروا کر انتظامی امور وہاں لے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المنصور کو سائنس پسند نہیں تھی۔ انہوں نے الحکم کی لائی گئی بہت سی کتابیں جلا دی گئیں۔ ریاضی اور طب اس دستبرد سے بچ گئے۔ ان کی وفات 1002 میں ہوئی جس کے بعد فلسفے جیسے مضامین میں دلچسپی واپس آئی۔
لیکن خلیفہ ہشام کمزور تھے۔ المنصور کے بیٹے سانجول نے ان سے خلافت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے آبادی کو تقسیم کر دیا۔ لوگ زیادہ تر اموی خاندان کے وفادار تھے۔ اس نے فسادات شروع کر دئے۔
دوسری طرف افریقہ بربر زور پکڑ رہے تھے۔ بربر افواج نے 1010 میں مدینة الزہرا کا محاصرہ کر لیا۔ اگلے تین سال میں یہ جنگ چلتی رہی جس میں یہ شہر تباہ ہوا۔ بربروں نے الحکم کی لائبریری کی بچی کھچی کتابوں کو بیچ دیا یا تباہ کر دیا۔ یہ شہر قصہ پارینہ ہوا۔ اس کے کھنڈرات بھی نو سو سال بعد 1911 میں دریافت کئے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندلس سے اموی خلافت 1031 میں ختم ہوئی۔ اندلس کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ یہاں کے حکمران ملوک الطوائف کہلائے (علاقوں کے بادشاہ)۔ مغرب میں انہیں Taifa kings کہا جاتا ہے۔ طوائف الملوکی کا دور آپس میں مسلسل جاری جنگوں اور فساد کا تھا۔ زمین اور وسائل پر جھگڑے جاری تھے جبکہ عسکری قوت کسی کے پاس زیادہ نہیں تھی۔ اندلس میں افواج یا تو یورپی غلاموں پر مشتمل تھیں یا افریقی بربروں پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمال اور مغرب (پرتگال) سے ہونے والے حملوں کے دفاع کے لئے طوائف الملوک نے بربر حکمرانوں کی مدد حاصل کی گئی۔ جب طلیطلیہ (Toledo) پر الفونسو ششم نے قبضہ کر لیا تو باقی طائفوں پر بربر آ گئے۔ المرابطون اور المواحدین خاندانوں نے 1238 تک حکومت کی۔ یہ طاقتور خاندان تھے لیکن مقامی آبادی سے سلوک اچھا نہ تھا اور علم و تحقیق سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ شمال اور مغرب سے فتوحات جاری رہیں۔ آخر میں صرف غرناطہ کا طائفہ بربروں کے پاس رہ گیا تھا۔
جب 1492 میں الحمرا کا قلعہ فتح ہوا تو اس کے ساتھ ہی آٹھ سو سال رہنے والی اسلامی حکومت کا ہسپانیہ سے خاتمہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ دیا گیا نقشہ 1080 کے اندلس کا۔ اموی خلافت کے خاتمے کے بعد یہ علاقہ آزاد اور خودمختار طائفوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply