نمبرز، نمبرز اور بس نمبرز/چوہدری عامر عباس

کل ایک عزیز سے بات ہوئی تو بڑی پریشانی سے بتا رہے تھے کہ امسال نہم کلاس کا نتیجہ آیا ہے اور انکے بچے کے نمبر صرف 65٪ آئے ہیں جو کہ بہت کم ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ بائیس برس قبل جب ہمارا میٹرک کا نتیجہ آیا تھا تو میرے ساٹھ فیصد نمبر آۂے تھے۔ میں ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا اور یہ ساٹھ فیصد نمبر کافی بہتر سمجھے جاتے تھے۔ فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس کرنے کی وجہ سے مبارک بادی پیغامات بھی ملے۔ رزلٹ کی وجہ سے میں پورا ایک ماہ تک شاداں و فرحاں رہا تھا۔
گزشتہ روز صوبہ پنجاب بھر کے تمام تعلیمی بورڈز نے جماعت نہم کے نتائج کا اعلان کیا۔ کُل ملا کر پنجاب بھر میں نہم جماعت کے امتحان میں نو لاکھ بچے فیل ہوگئے یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس بار نمبر بھی بہت کم آئے ہیں۔ اگر ہم لاہور بورڈ کے نتائج کی بات کریں تو انکے تحت ستاون فیصد بچے فیل ہوئے ہیں۔
پنجاب کے نو لاکھ بچوں کا فیل ہو جانا اتنا پریشان کن نہیں ہے جتنا واویلا کیا جا رہا ہے۔ اسکی کچھ بنیادی وجوہات ہیں۔
کورونا کے باعث دو سال تک تو بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع رہا اور بچوں کو تقریباً بغیر پڑھائے ہی اگلی جماعتوں میں پروموٹ کر دیا گیا جس کے باعث کمزور طلبہ بھی بغیر پڑھے کلاس نہم تک پہنچ گئے جنہوں نے پورے دو سال تک کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔
دوسرا فیکٹر گزشتہ برس گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر دینے کا ایسا فارمولا بنا دیا گیا جس نے نمبروں کی قدر ہی ختم کر دی۔ اس فارمولا کے نتائج اس سے متاثرہ بچے ساری زندگی بھگتتے رہیں گے اور زندگی کے کسی موڑ پر جا کر سوچیں گے کہ کاش ہمیں پروموٹ ہی ناں کیا جاتا۔
تیسرا فیکٹر گزشتہ دس پندرہ سال سے مارکنگ کا بہت لچکدار ہونا اور پیپر کا پیٹرن ایسا ہونا ہے کہ بچے پورے پورے نمبر بھی لے رہے ہیں۔ پیپر میں تھیوری کا حصہ ناں ہونے کے برابر ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ایک مضمون میں بچے کے نمبر تو سو فیصد ہوتے ہیں مگر اس مضمون کے بارے بچے کو بنیادی معلومات تک نہیں ہوتیں یہی پریکٹس ہمارے نظام تعلیم کی بربادی کا باعث بن رہی ہے ماہرین اس پر خاموش ہیں۔ بچے نے میٹرک اے گریڈ کے ساتھ پاس کیا ہوتا ہے مگر انتہائی معذرت کیساتھ اسے اپنے مضامین کے بارے میں علم ایک ٹکے کا بھی نہیں ہوتا۔ یہ نمبر گیم ہمارے سسٹم کی بربادی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
چوتھا فیکٹر پرائمری اور مڈل اسٹینڈرڈ امتحانات کا لازمی نہ ہونا ہے جبکہ ہمارے وقتوں میں یہ لازمی ہوتا تھا۔ ہمارے وقتوں میں کچھ غیرسنجیدہ بچوں کی پرائمری میں ہی بریک لگ جاتی تھی اور باقی کی مڈل اسٹینڈرڈ میں جا کر۔ آجکل بچے خرگوش کی مانند چھلانگیں لگاتے کلاس نہم تک پہنچ جاتے ہیں۔ پرائمری بورڈ اور مڈل اسٹینڈرڈ کا نہ ہونا بھی بچوں کی تعلیمی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہ بورڈز بحال کئے جائیں اور ہر بچے کیلئے پرائمری بورڈ اور مڈل سٹینڈرڈ امتحان پاس کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ایک تو بچے کی بنیاد اچھی بنے گی اس کے زہن میں بورڈ کا امتحان پاس کرنے کا ایک پریشر رہے گا جبکہ دوسرا یہ کہ بچہ محنت کرکے کلاس نہم میں پروموٹ ہو گا۔ کند ذہن اور نالائق بچے فلٹر ہو کر نچلی کلاسز میں ہی رہیں گے۔
قصہ مختصر ہماری بار بار بدلتی تعلیمی پالیسیوں نے ہمارے تعلیمی نظام کا ستیاناس کر دیا ہے۔ اپنا لٹریسی ریٹ دنیا کو دکھانے کیلئے پے در پے غلط قسم کے تجربات کرکے ہم نے اپنی نسل کی تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply