• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مسلم حکومتوں میں رشوت لینے /دینے کی روایت۔۔۔(سوم،آخری قسط)تحریر: محمدشعبان/ ترجمہ: نایاب حسن

مسلم حکومتوں میں رشوت لینے /دینے کی روایت۔۔۔(سوم،آخری قسط)تحریر: محمدشعبان/ ترجمہ: نایاب حسن

کچھ لوگ توایسے بھی تھے، جورشوت میں اوقاف کامال ہی پیش کردیتے تھے، ڈاکٹرمحمدامین نے اپنی کتاب “الأوقاف والحیاة الاجتماعية في مصر 648-923ھ “میں علامہ ابن حجرعسقلانی کے حوالے سے لکھاہے کہ “قاضی کمال الدین بن عدیم (وفات: 1416ء)شعبۂ اوقاف کے ذمہ دارتھے اورانھوں نے نہ صرف خودان کاغلط استعمال کیا؛ بلکہ اپنے بیٹے کوبھی وصیت کی کہ عہدۂ قضاکے حصول کے لیے “ہرطرح کی “کوشش کرے؛ چنانچہ اس نے باپ کاکہنامانتے ہوئے سرکارکورشوت دے کر قاضی کاعہدہ حاصل کرلیا،یہ شخص احناف کے اوقاف کونہایت معمولی اجرت کے عوض کرایے پراٹھاتااورذاتی مفادات حاصل کرتاتھا

Advertisements
julia rana solicitors london

مسلم حکومتوں میں رشوت لینے /دینے کی روایت۔۔۔(قسط دوم)تحریر: محمدشعبان/ ترجمہ: نایاب حسن
بیت المال کے شعبے میں بھی رشوت کی گرم بازاری تھی؛ چنانچہ محمدبن ایاس حنفی نے اپنی کتاب “بدائع الزھور فی وقائع الدھور “میں روایت کیاہے کہ 1512ءمیں سلطان غوری نے شرف الدین بن روق کوپانچ ہزاردینارکے عوض بیت المال کانگراں بنایا، لوگوں کوپتاچلا، توانھیں شرف الدین کی خفیف العقلی پرحیرت ہوئی، ان کاگمان تھاکہ یہ شعبہ کچھ خاص منفعت کاحامل توتھانہیں کہ اس کاذمے داربننے کے لیے پانچ ہزاردینارخرچ کیاجائے ـ شام میں تومحاسب بننے کے لیے رشوتوں کے لینے /دینے کاعام چلن تھا، صلاح الدین صفدی نے اپنی کتاب “الوافی بالوفیات” میں لکھاہے کہ “وزیرتقی الدین بن ہلال کامل شعبان کے زمانۂ حکومت میں مصر پہنچااوربیت المال وکلکٹری کاعہدہ حاصل کرنے کے لیے اس کی خدمت میں اسی ہزاردرہم پیش کیے، مگراسے زیادہ دن اس عہدے پررہنے کاموقع نہیں ملا؛ کیوں کہ مظفرحاجی نے 1346میں مصرکی حکومت پرقبضہ جمانے کے بعد ہزاردینارکے عوض وہ عہدہ کسی اورکے سپردکردیاتھا ـ
کلکٹرکاعہدہ ایساتھاکہ اسے حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ رشوت چلتی تھی، ڈاکٹرمحمدحلمی سالم نے اپنی کتاب “اقتصادمصرالداخلي وأنظمته في عهدالمماليك “میں لکھاکہ ہے کہ سلطان سیف الدین برقوق ( 1336-1399)کے عہدمیں کلکٹروں کی تقرری رشوت دے لے کرہوتی تھی اور1406میں صرف ایک ماہ کے اندریکے بعددیگرے چارکلکٹربحال ہوئے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان چاروں کے درمیان اس عہدے کے لیے مسابقہ ہونے لگا؛چنانچہ ایک شخص دوسرے سے زیادہ رشوت پیش کردیتا، تواس کی تقرری ہوجاتی، پھریہ دوسراشخص پہلے سے بھی زیادہ مال خرچ کرتا، تواسے بحال کردیاجاتا اوراس طرح ایک عہدے پر چارلوگ آتے جاتے رہے، اس واقعے کاتذکرہ ابن حجرعسقلانی نے بھی اپنی کتاب “إنباء الغمر بأنباء العمر “میں کیاہے ـ
پھرچوں کہ یہ کلکٹرحضرات اس منصب تک پہنچنے کے لیے خاصامال خرچ کرتے تھے؛ اس لیے حکومتِ وقت ان کی الٹی سیدھی حرکتوں کوصاف نظراندازکردیتی تھی؛ چنانچہ محمدحلمی سالم کی روایت کے مطابق یہ لوگ عام تاجروں اورکاروباریوں پر ضرورت سے زیادہ ٹیکسزلگادیتے تھے اور اس طرح وہ حکومت کودی ہوئی رشوت یاآیندہ دی جانے والی رشوت کامعاوضہ عام لوگوں سے وصول کرتے تھے ـ ابن حجرکی روایت کے مطابق 1317ء میں شمس الدین بن یعقوب نے اس عہدے کوپانے کے لیےسلطان المؤیدشیخ کی خدمت میں دس ہزاردینارپیش کیے، اگرچہ وہ دس ماہ ہی اس عہدے پربرقراررہ سکا ـ
اسی طرح دیارِ مصرمیں شیخ الشیوخ کاعہدہ بھی رشوتوں کے ذریعے حاصل کیاجانے لگاتھا ـ یہ عہدہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1173ء میں ایجادکیاتھا، جس پر ریاست کے عظیم وبااثرمذہبی اشخاص بحال کیے جاتے تھے؛ لیکن عہدِ ممالیک میں صورتِ حال بگڑتی گئی اورایسا قابلِ احترام عہدہ بھی رشوتوں کے بل پرحاصل کیاجانے لگا؛ چنانچہ ابن حجرعسقلانی کے بیان کے مطابق 1386ء میں شہاب الدین انصاری نام کے شخص نے تیس ہزاردرہم خرچ کرکے یہ عہدہ حاصل کیاتھاـ
درس وتدریس کے شعبے میں رشوت عام ہوگئی تھی؛شیخونیہ کی درسگاہ کی معلمی حاصل کرنے کے لیے ناصرالدین بن عدیم نے 1409ءمیں ایک بڑی رقم خرچ کی، اگرچہ وہ زیادہ دن رہ نہیں پایا اورجلدہی حج کے سفرپرنکل گیا، جس کے بعد شہاب سفری وہاں کااستاذمقررکیا گیا، مگراسی سال شرف التبانی نے موقع غنیمت جان کراسے معزول کرواکے خوداستاذبن گیا، یہ ساری تفصیلات علامہ شمس الدین سخاوی نے اپنی کتاب “الضوء اللامع لأھل القرن التاسع “میں ذکرکی ہیں ـ
حیرت کی بات ہے کہ امامت کاعہدہ جوبراہِ راست سلطان کی نگرانی میں ہوتاتھا، وہ بھی رشوت سے پاک نہ تھا، مؤرخ ابن ایاس نے اس سلسلے میں خصوصیت سے دوواقعات کاذکرکیاہے: ایک واقعہ 1516ء میں پیش آیا، جب شیخ محب الدین شاذلی کی وفات کے بعد شمس الدین سکندری نے بارہ سودینارکے عوض امامت حاصل کی اوردوسرا واقعہ بھی اسی سال پیش آیا، جب سکندری کے انتقال کے بعد شہاب الدین بن رومی نے ایک ہزار دینارکے عوض یہ عہدہ حاصل کیاـ ابن حجرعسقلانی نے لکھاہے کہ 1399ء میں ابن غانم نابلسی کی جگہ سائح رملی کو اسی ہزاردرہم کے عوض بیت المقدس کی امامت وخطابت سونپی گئی تھی ـ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply