اک اور سہاگ اُجڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

ایک گھر اُجڑ گیا،ایک عورت سے اسکا سہاگ چھن گیا،والدین کے بڑھاپے کا سہار ا چلا گیا،بچے یتیم ہو گئے،بہنوں کا آسرا نہ رہا،بھائیوں کا دست بازو الگ ہو گیا،ایک سہاگن کو تاعمر اب بیوہ کی زندگی گزارنا پڑے گی،ایک قابل شخص،ایک معلم ایک استاد اپنے اُوپر لگائے گئے ایک جھوٹے الزام کی وجہ سے غیر طبعی موت کا شکار ہو گیا،اور ایم اے او کالج لاہور کی انتظامیہ ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کر کے اس پورے واقعے سے بری الذمہ ہو گئی،رہی وہ محترمہ خاتون طالب علم جنھوں نے اپنے اُستاد پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا تو وہ بھی اب پردہ سکرین سے غائب ہیں،جب کہ دیکھا جائے تو اس سارے فساد کی جڑ وہی ہیں۔

لاہور میں واقع ایم اے او کالج کے لیکچرار افضل محمود نے خودکشی کرلی،اتوار کے دن کے اخبارات میں سنگل کالمی خبراور سوشل میڈیا پر دن بھر اس بارے میں ہونے والی بحث سے اب کیاحاصل؟جانے والا چلا گیا،ایک بے حس مردہ معاشرے پر ایک اور داغ لگ گیا،لیکن کیا فرق پڑتا ہے،پہلے کون سا یہاں ایسے واقعات پر کوئی ٹھوس اور مستقل حل نکالا جاسکا ہے جو اب ایسا ہوگا،ہمارے دین کا حکم ہے کہ بلاتحقیق کسی بھی خبر کو مت پھیلاؤ،کیونکہ اس سے معاشرے کا امن خراب ہوتا ہے اور کئی قیمتی انسانی زندگیاں داؤ پر لگنے کے ساتھ ساتھ گھروں کے گھر اُجڑ جاتے ہیں،لیکن صاحب کہاں،دن رات اسلام کا نام استعمال کرنے والے ہمارے مذہبی ٹھیکیدار ہوں یا معاشرے کا کوئی عام فرد،بس کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات پتہ لگنے کی دیر ہے پھر دیکھیں چل سو چل،اور اب تو سوشل میڈیا نے رہی سہی اخلاقی قدروں کا بھی جنازہ نکال دیا ہے،دوسروں کی دیکھا دیکھی می ٹو مہم نے جو اثرات ہمارے ہاں مرتب کئے ہیں یہ خودکشی کا واقعہ بھی ان میں سے ایک ہے۔

ابھی   علی ظفر اور میشا شفیع کیس جس میں اُمید ہے کہ علی ظفر کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا،اور اگر بالفرض میشا شفیع بھی کیس جیت جاتی ہے تو پھر بھی ایسے واقعات جن کو می ٹو مہم کا نام دیا گیا ہے اور کسی عورت کو ہراساں کیا گیا ہو تو اس کے لئے مناسب فورم عدالت ہے،نہ کہ سوشل میڈیا،دونوں فریقین الزام لگانے والا اور جس پر الزام عائد کیا جائے کو چاہیے عدالت کادروازہ کھٹکھٹائیں،اور اگر الزام سچ ثابت ہوجائے تو ملزم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے،کسی بھی انسان کے جرم کی سزا اسکے خاندان اور اہل خانہ کو دینا کسی طور درست عمل قرار نہیں دیا جاسکتا،ایم اے او کالج لاہور کے انگریزی کے لیکچرار افضل محمود پر ایک خاتون طالب علم نے اُسے ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جس کی تحقیقات کالج انتظامیہ نے کیں  اور تحقیق کے بعد الزام جھوٹا ثابت ہوا،اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الزام لگانے والی خاتون طالب علم کے خلاف کارروائی کی جاتی جیسا کہ قذف یعنی جھوٹا الزام لگانے والے کو اسّی کوڑے مارنے کا حکم ہے،اور افضل محمود کو بے گناہ ثابت ہونے پرتصدیقی خط جاری کیا جاتا لیکن ایسا نہ ہوا،اور 9اکتوبر کو مذکورہ لیکچرار افضل محمود نے خودکشی کرلی،اس معاملے کی تحقیق کرنے والی کالج کی کمیٹی کی سربراہ عالیہ رحمان کا موقف ہے کہ ان کا کام تحقیق کرنا تھا،بے گناہی کا تصدیقی خط جار ی کرنا کالج کے پرنسپل کی ذمہ داری ہے،ہم نے اپنی رپورٹ مکمل کرکے تین ماہ قبل پرنسپل صاحب کو بھجوا دی تھی۔

کالج کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ افضل محمود میرے پاس آیا ہی نہیں، آتا تو میں کلیئرنس لیٹر جاری کر دیتا،خودکشی کرنے والے افضل محمود کی نعش کے پاس ملنے والے اسکے آخری خط میں تحریر تھا کہ وہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کررہے ہیں،اور ان کی موت کے بارے میں کسی سے تفتیش نہ کی جائے،اور نہ ہی کسی کو زحمت دیں،افضل محمود کے دوست نے ایک خط بی بی سی کو دکھایا،جو اپنی خودکشی سے ایک دن قبل انھوں نے ہراساں کیے جانے کے الزام کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمان کو لکھا تھا،اپنے  خط میں انھوں نے شکایت کی کہ مجھے خاتون طالب علم کو ہراساں کئے جانے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کے باوجود ابھی تک تحریری طور پر کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا،یہ بات ہر طرف پھیل چکی ہے،جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور جب تک کمیٹی مجھے تحریری طور پر اس الزام سے بر ی نہیں کرتی،میرے بارے میں یہ تاثر رہے گا کہ میں ایک برے کردار کا شخص ہوں۔

افضل محمود اس خط کے آخر میں لکھتے ہیں کہ اگر کسی وقت میری  موت واقع ہو جائے تو میری تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط میری والدہ کو دے دیا جائے،اندازہ لگایا جائے افضل محمود کی سوچ کا کہ جس کو یہ پتہ تھا کہ یہ معاشرہ ان کی موت کے بعد ان کے خاندان کا جینا دوبھر کردے گا اسی لئے اپنی والدہ کو اپنی بے گناہی کا کلیئرنس لیٹر دینے کی بات کی،بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ بنا تصدیق کے کسی پر جھوٹا الزام لگا دینا،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسکے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں،نوجوان نسل خاص طور سوشل میڈیا پر ا یسے واقعا ت کی بھنک ملتے ہی سارے کام چھوڑ کر اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہے،اور اس مہم میں لڑکو ں سے زیادہ لڑکیاں زیادہ تیزی دکھاتی ہیں،آج کسی بھی صوبے کسی بھی علاقے کے تھانوں اور اخبارات کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں،آئے دن گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو چکا ہے،لڑکی کے لواحقین ایک دن اغواء کا مقدمہ درج کرواتے ہیں اور چند دن بعد وہی لڑکی مقامی عدالت میں پیش ہو کر اپنے شوہر کے حق میں بیان دے دیتی ہے،اب اس سب میں قصور کس کا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسے واقعات کو لے کر خاندان سے سوشل میڈیا تک ایک ہنگامہ بر پا ہو جاتا ہے،کئی بار نوبت قتل غارت تک پہنچ جاتی ہے،سوال یہ ہے کہ کوئی گھر سے بھاگ کو شادی کرے یا کسی پر جھوٹا الزام لگائے،ہر دو معاملات فوری توجہ کے متقاضی ہیں،وگرنہ یہی صورتحال رہی تو کئی افضل محمود ایسے ہی خودکشیاں کرتے رہیں گے،ہماری نوجوان نسل کی تربیت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply