• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سانپ کا زہر ، سانپ کا تیل، کینچلی عملیات اور ویکسین۔۔ثنااللہ خان احسن

سانپ کا زہر ، سانپ کا تیل، کینچلی عملیات اور ویکسین۔۔ثنااللہ خان احسن

پاکستان میں پائے جانے والے سانپ:
سنگچور کوبرا جلیبیہ اور کوڑیالہ:
مکلی کی وجہ شہرت سانپ اور قبرستان:
سات کلو وزنی سانپ کی قیمت پچاس لاکھ!
سانپ کاٹے کی ویکسین سانپ کے زہر سے تیار!
قومی ادارہ صحت میں گھوڑوں کو سانپ کے زہر کے انجکشن کیوں لگائے جاتے ہیں؟
سانپ کا تیل برائے گٹھیا و گنج :
سانپ سے تیار شدہ ہومیوپیتھی دوا:
سانپ کی کینچلی اور عملیات:

سانپ یا ناگ کا نام ہی ایک دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے- دنیا بھر میں سانپ کو بدی اور شیطانیت کے نشان کے طور پر جانا جاتا ہے، اس جانور سے انسان کی ناپسندیدگی کی وجہ اس کا زہر ہے، نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی اس سے ڈرتے ہیں۔ اس خوف اور دہشت میں ہندو دیومالائی داستانیں مزید پراسراریت کا تڑکا لگاتی ہیں اور سانپ کو ایک خطرناک و پراسرار مخلوق سمجھا جاتا ہے جبکہ درحقیقت سانپ بھی ایک زمینی مخلوق ہے جو انسانوں سے دور بھاگتی ہے اور اپنے دفاع کے لئے ہی حملہ کرتی یا ڈستی ہے- سانپ کے کیونکہ ھاتھ پاؤں یا دوسرا کوئی  ایسا عضو نہیں ہوتا کہ جس کی مدد سے اپنی خوراک کے کئے شکار کو پکڑے یا دبوچے تو اللہ تعالی نے اس کو زہریلا بنایا تاکہ یہ اس کی مدد سے اپنے شکار کو مفلوج کر کے ثابت نگل جائے کہ اس کے منہ میں چبانے والے دانت بھی نہیں ہوتے-
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تین ہزار سے زائد سانپوں کی نسلیں ہیں، جبکہ پاکستان میں دو سو پچاس سے تین سو کے قریب سانپوں کی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف پندرہ فیصد سانپ زہریلے ہوتے ہیں جن میں ایک سو ستر 170 مختلف اقسام کے سانپ شامل ہیں- جبکہ دیگر سانپ زہریلے نہیں ہوتے یا یہ کہیے کہ ان کا زہر اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ وہ انسان کے لئے مہلک نہیں ہوتا- سانپ کے جبڑے میں ایک چھوٹی تھیلی ہوتی ہے اور جبڑے میں انجکشن کی سوئی کی طرح دانت ہوتے ہیں۔ جب سانپ کاٹتا ہے تو جبڑے کی تھیلی پر ایک قسم کا دباؤ پڑتا ہے جس کی وجہ سے سرنج نمادانتوں میں سے زہر انسان کے جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔مختلف سانپوں کا زہر انسانی خون اور اعصاب پر مختلف اثر ڈالتا ہے- کچھ سانپوں کا زہر خون کو جما کر کلیجی کی شکل کا کردیتا ہے یا کچھ کا زہر خون کو انتہائی پتلا کردیتا ہے اور مارگزیدہ کے منہ ناک اور جسم کے مسامات سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے- کچھ سانپوں کا زہر اعصاب کو مفلوج کردیتا ہے-
پاکستان میں صحرا، خشکی، پہاڑی اور میدانی علاقوں میں زیادہ تر چار اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں۔جن میں کوڑیالہ، سنگچور، کالا ناگ (کوبرا) اور جلیبیہ شامل ہیں- یہ چاروں زہریلے سانپ ہیں اور اکثر ان میں سے ہی کسی ایک کے کاٹنے سے انسان مر بھی سکتا ہے- پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں پر ایک انتہائی تفصیلی کتاب جناب شریف محمد خان نے The Snakes of Pakstan کے نام سے تحریر کی ہے جو انگریزی زبان میں ہے- اس کو اردو ترجمہ بھی شائع ہونا چاہیے تاکہ عام عوام بھی اس سے مستفید ہو سکیں-

پاکستان میں پائے جانے والے عام سانپ:

سانپوں کی مختلف اقسام پاکستان کے طول و عرض میں پائی جاتی ہیں، جن میں کچھ زہریلی اور باقی غیر یا معمولی زہریلی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں صحرا، میدان، پتھریلی، پہاڑی، نمی والی جگہ، دریا اور سمندر میں بھی سانپوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے، سمندری سانپ نہایت زہریلے ہوتے ہیں، جو اکثر کراچی کے ساحلوں پر بھی آجاتے ہیں۔ بلوچستان میں سانپوں کی کچھ منفرد اقسام پائی جاتی ہیں، کراچی میں ملیر کے علاقے میں سانپ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مجھے آج تک صرف 5 دفعہ ہی سانپ ملیں ہیں جن میں دو سمندر کے تھے، اور تین دریا کے پانی اور دریا کے پانی والا سانپ غیر زہریلا ہوتا ہے۔

رفنی رسل (Russel’s Viper ):پورے پاکستان میں یہ سانپ زیادہ تر میدانی علاقوں میں ملتا ہے۔ اس کی کچھ اقسام پہاڑوں پر بھی رہتی ہے، پنجاب میں یہ سانپ، کوڑیوں والا سانپ اور سندھ میں کرار کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ یہ اپنے جسم کی نمایاں بناوٹ کے باعث پہچانا جاتا ہے۔ اس کے کاٹنے سے انسان چند گھنٹوں یا چند دنوں میں مرجاتا ہے۔
منشار سفنوں والا سانپ (ایکس کاری نیٹس):یہ بھی تقریباً پورے ملک میں ہی پایا جاتا ہے، لیکن خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے صحرائی اور میدانی علاقوں میں بکثرت ملتا ہے۔سندھ میں اس کو کھپرا اور پنجاب میں جلیبی سانپ یا پشتی سانپ کے نام سے پکارا جاتا ہے، اس کی لمبائی دو فٹ تک ہوتی ہے، براؤن رنگ کی پشت پر اطراف سے ہلکے رنگ کی دھاریاں، سر پر پرندے کے پاؤں کی طرح کے نشان ہوتے ہیں اور یہ اکثر دن کے اجالے میں نظر آتے ہیں۔ اس کا ڈسا ہوا انسان چوبیس گھنٹوں میں یا زیادہ سے زیادہ دو دن میں مر جاتا ہے۔
ناگ راج(ناجا بنگیرس) کوبرا : یہ سانپ ہمارے ملک میں بہت کم تعداد میں ہوتا ہے۔ ہمالیہ کا شمالی پہاڑی علاقہ اس کا مسکن ہے۔ یہ میدانی اور پہاڑی جنگلوں میں کثرت سے ملتا ہے۔ سپیرے اس کو شیش ناگ کہتے ہیں۔ یہ تقریباً آٹھ سے سولہ فٹ تک لمبا ہوتا ہیاس کے کاٹنے سے انسان چند گھنٹوں کے اندر اندر ختم ہوجاتا ہے۔
ہندوستانی ناگ یا کالا ناگ (ناجانا جا): یہ سانپ پاکستان کے جنگلوں اور دیگر سرسبز جگہوں پر بکثرت پایا جاتا ہے۔ خصوصاً پنجاب کی تحصیل چیچہ وطنی اور دریائے سندھ کے کنارے گھنی سبز جھاڑیوں میں ملتا ہے۔ یہ دیکھنے میں ایک خوبصورت رنگوں والا سانپ ہے۔ عام طور پر اسے ناگ پھنٹر اور کالا ناگ کہتے ہیں۔

عام کریٹ یا سنگ چور (Krait) : یہ نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ پورے برصغیر میں عام پایا جاتا ہے۔ پنجاب میں یہ چت کوریا اور سندھ میں پی ان کہلاتا ہے۔ یہ چمکدار سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور اس کی پیٹھ پر سفید رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں۔ اس کی لمبائی تین سے چار فٹ تک ہوتی ہے۔ اکثر اوقات یہ پانچ فٹ تک لمبے بھی دیکھے گئے ہیں۔ یہ سانپ اکثر انسانی آبادیوں کے قریب ہی ملتا ہے۔ اس کے کاٹنے سے مریض چھ سے آٹھ گھنٹہ میں ختم ہوجاتا ہے۔
اژدھا (Python ): بڑی جسامت والا ناگ آٹھ سے بیس فٹ تک لمبا اور تین سو پچاس پونڈ تک وزنی ہوتا ہے۔ اس کی عمومی خوراک پرندے، ہرن اور دودھ دینے والے جانور ہوتے ہیں۔ ڈھمن سانپ یا چوہا سانپ:یہ سانپ کافی موٹا اور مضبوط ہوتا ہے۔ اکثر کھیتوں اور جھاڑیوں میں ملتا ہے۔ جسم کا اوپری حصہ سنہری اور بھورا اور نیچے کا حصہ پیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ اس کی پسندیدہ غذا تو چوہے ہیں لیکن یہ مینڈک اور پرندے بھی شوق سے کھا لیتا ہے۔
رسل مینی سانپ:یہ موٹا اور گول سانپ ایک سے تین فٹ لمبا ہوتا ہے۔ سب سے نمایاں اس کی دم ہوتی ہے۔ جو سوا انچ لمبی اور تکونی شکل کی ہوتی ہے۔ جس کا سرا نوکدار ہوتا ہے۔ اس کی خوراک دودھ دینے والے چھوٹے جانور ، گلہریاں اور چوہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ایک بے ضرر جانور ہے۔
دو منہ والا سانپ:یہ ایک عام سانپ ہے لیکن اس کی خاص اور انوکھی بات یہ ہے کہ اس کا منہ اور دم ایک جیسی ہوتی ہیں مگر دم کا حصہ نوکدار ہونے کے بجائے کند ہوتا ہے۔ پنجاب میں عام طور پر یہ دو مونہی کہلاتا ہے۔

پشاور سے تقریبا” 25 30 کلومیٹر جنوب کی طرف درہ آدم خیل اور اس کے آس پاس بیابان علاقوں میں ایک سانپ پایا جاتا ہے جسکی لمبائی  چھ سے آٹھ انچ ہوتی زہریلا اتنا کہ اس کا ڈسا سچ مچ پانی نہیں مانگ ۔سکتا۔یہ رینگتا نہیں بلکہ دم کی طرف آٹھ دس فٹ الٹی چھلانگ لگاتاہے۔

سانپوں کی اسمگلنگ:
ٹھٹھہ میں سانپوں کی اسمگلنگ کا دھندہ عروج پرہے ۔ سانپوں کے شکاری روزانہ بڑی تعداد میں سانپ پکڑ کر ملک اور بیرون ملک اسمگل کرنے میں مصروف ہیں جبکہ محکمہ جنگلی حیات خاموش ہے۔مکلی ملک بھر میں دو حوالوں سے معروف ہے۔ پہلا تاریخی قبرستان اور دوسرا سانپوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ مکلی اور ٹھٹھہ کی پہاڑی اور ساحلی پٹی میں بڑی تعداد میں نایاب اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ جن میں کوبرا، واسینگ، کوبرا، وائپر، رسیلی، کھپرا، لنڈی، سنگچور او ردیگر اقسا شامل ہیں۔ مکلی کے جوگی شکاری ہر مہینے ایک ہزار سے لیکر پندرہ سو سانپ پکڑ کر ملک اور بیرون ملک اسمگل کر رہے ہیں۔ سانپ سے نکالا گیا زہر زیادہ تر سانپ کے کاٹے کے علاج یا تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سانپ کا زہر چند کاسمیٹکس میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ سات کلو وزن کے سانپ کی قیمت پچاس لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ سرد مودسم میں ان کی اسمگلنگ میں تیزی آجاتی ہے۔

سانپ کا طبی استعمال:
روایتی چینی طریقہ علاج میں سانپ کا تیل (Snake Oil) صدیوں سے مستعمل ہے اور انتہائی مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ سانپ کا تیل گٹھیا اور جوڑوں کے درد کے لئے اکسیر خیال کیا جاتا ہے۔ دیسی طب میں حکیم حضرات سانپ کی چربی اک مردانہ طاقت کے طلاؤں میں بھی استعمال کرتے ہیں بلکہ اب تو سنیک آئل بالوں کی بڑھوتری اور گنج پن کے خاتمے کے لئے بھی بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کشتہ جات بھی کالے ناگ کے منہ میں دوائی  رکھ کر اس کو ایک خاص طریقے سے جلا کر بنائے جاتے ہیں۔ کالے جادو میں بھی سانپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ہومیو پیتھی میں کوبرا سانپ کے زہر سے ناجا ٹرپ naja tripudians نامی دوا بنائی  جاتی ہے جو سانپ کے کاٹے کے علاوہ دیگر بیماریوں کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے میٹریا میڈیکا میں تفصیل دیکھیے۔
ہومیو پیتھک کی ایک دوا Vipra بھی وائپر سانپ کے زہر سے بنتی ہے ۔۔جو خون میں بننے والے clots کو ختم کرنے کے کام آتی ہے۔ہومیوپیتهی میں سانپ کے زہر بنائی گئی سب سے پڑی دوا لیکسس ہے،یہ برازیل میں پائے جانے والے ایک نہایت خطرناک سانپ سے تیار ہوتی ہے.اس دوا زیر اثر مرد و خواتین کی بہت سی بیمار یاں آتی ہیں۔

سانپ اور عملیات:
سانپ کو کئی عملیات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں نوری یعنی اچھے عملیات بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ جن میں کالا جادو شامل ہے۔ ازل سے اچھائی اور برائی کی جنگ ہوتی آتی ہے۔ اسی طرح جنات سانپ کو عملیات یا تعویذات سے تسخیر کرکے ان سے کام لینے کا طریقہ بھی صدیوں سے استعمال ہوتا آیا ہے۔ عربی کی کافی قدیم کتابوں میں ایسے عملیات لکھتے ہوئے ہیں۔ عاملین کے مطابق عربی کی ایسی قدیم کتابوں کا کافی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جن میں جنات سانپ کو تسخیر کرکے ان کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنے کے طریقے لکھتے ہیں۔ سانپ کو عملیات میں کسی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کچھ معلومات میں یہاں پیش کررہا ہوں۔ جنات سانپ کے عملیات میں جو چیز سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ وہ سانپ کی کینچلی ہے جو ایک طرح سے مردہ کھال ہوتی ہے۔ اسے بعض سانپ سال میں ایک بار اور بعض سانپ کئی بار اپنے جسم پر نئی کھال آنے کے بعد اتار کر جسم سے الگ کردیتے ہیں۔ اسے انگریزی میں سنیک شیڈ کہا جاتاہے۔ سانپ کی کینچلی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر سانپ کے جسم سے اترتی رہتی ہے۔ دوسری قسم وہ جو بالکل صحیح سالم حالت میں سانپ اپنے جسم سے اتارتا ہے۔ ٹکڑوں کی شکل میں اترنے والی سانپ کی کینچلی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ البتہ سالم بہت کارآمد ہوتی ہے۔ اپنی کینچلی اتارتے ہوئے سانپ بہت سست اور اندھا ہوجاتاہے۔ کینچلی اتارتے وقت وہ کسی نوکیلی چیز یا کانٹے وغیرہ میں مردہ کھال اڑا کر گردن پیچھے کو ہٹاتا جاتا ہے۔ جس سے رفتہ رفتہ تمام کینچلی غلاف کی طرح اترتی جاتی ہے اور سانپ میں پہلے جیسی چستی اور پھرتی آجاتی ہے۔ سانپ کی کینچلی کے کافی فائدے ہیں۔ اسے اگر تعویذ کی طرح گلے میں پہنا جائے تو نظر بد سے انسان محفوظ رہتا ہے اور اس پر جادو کے اثرات بھی کارگر نہیں ہوتے۔ بلکہ کچھ عامل حضرات تو سانپ کی کینچلی کو کالے جادو کے خلاف موثر ترین ہتھیار بھی قرار دیتے ہیں- اس کے علاوہ یہ حکمت میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ اگر کوئی زخم ہوجائے اور ٹھیک نہ ہوتا ہو یا کوئی زخم ناسور بن جائے تو سانپ کی کینچلی کو جلا کر اس کی راکھ زخم پر ڈالنے سے پرانے سے پرانا زخم بھی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ زمانہ جہالت میں یہودی سانپ کی کینچلی سے مسلمان پر جادو کیا کرتے تھے کیونکہ سانپ کی کینچلی والا جادو بہت اثر رکھتا ہے۔ سانپ کی کینچلی کا عمل بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس کے برے ا ثرات میں کولی آجائے تو وہ ہر طرح سے تباہ برباد ہوجاتا ہے۔ آج بھی یہودی اس عمل کو بہت معتبر مانتے ہیں۔ یہودی سانپ کو اس لئے بھی زیادہ مانتے ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ کے عصا نے سانپ کی شکل اختیار کرلی تھی۔ مغربی ممالک میں آج بھی کچھ دکانوں پر سانپ کی کینچلی فروخت کی جاتی ہے اور ساتھ میں عملیات کا طریقہ بھی لکھا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
یہ تمام معلومات عامل حضرات کی فراہم کردہ ہیں اور قارئین کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

سانپ سے بچاؤ کا عمل:
سانپ یا کنکجھورہ یا کوئی زہریلی ایسی چیز سامنے آ جائے تو ایک آیت ہے
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ (الصافات-79)
چند مرتبہ پڑھ کر دم کر دیں یا سانپ کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کر دیں. وہیں رک جائےگا سست ہو جائے گا. پھر جو کرنا ہے کیجیے. ماریں یا دور پھینک دیں۔آزمودہ ہے.اور کئ افراد نے اس کو مجرب بتایا ہے۔

سانپ کاٹے کی ویکسین:
آپ میں سے اکثر کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ سانپ کے کاٹے کی ویکسین بھی ان سانپوں کے زہر سے ہی بنائی  جاتی ہے- پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع قومی ادارہ صحت میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین تیاری کی جاتی ہے جس کے لئے باقاعدہ سانپوں کو خریدنے کے لئے ٹینڈر جاری کیا جاتا ہے- مناسب تعداد میں اوپر بیان کردہ چاروں سانپوں کے حصول کے بعد ان کا زہر نکال کر اس کو مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ پھر ان چاروں سانپوں کا زہر پتلا اور خشک کرنے کے بعد اس کے ٹیکے گھوڑوں کی گردن میں لگائے جاتے ہیں۔ یہ ٹیکے لگتے ہی گھوڑے کا مدافعتی نظام اس زہر کے اثرات ختم کرنے کے لئے اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جو گھوڑے کے خون میں شامل ہوجاتی ہیں- ایک مقررہ حد تک اینٹی باڈیز پیدا ہونے کے بعد گھوڑے کے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔ عام طور پر ایک گھوڑے سے دس سے پندرہ لٹر خون نکالا جاتا ہے۔اس خون سے پلازما علیحدہ کر کے اس سے اینٹی وینم سیرم بنائی جاتی ہے جو انجکشنز کی صورت میں ہسپتالوں اور دیگر طبی اداروں کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں وہ ویکسین بھی شامل ہے جو حفاظتی ٹیکوں کی طرح لگائی  جاتی ہے- اس کے بطور حفظ ما تقدم لگانے سے سانپ کاٹنے کی صورت میں زہر کا اثر نہیں ہوتا۔ عالمی ادارۂ صحت نےقومی ادارۂ صحت میں بنائی گئی سانپ کاٹنے سے بچاؤ کی ویکسین اور اینٹی وینم سیرم کو عالمی معیار کی دوائی قرار دیتے ہوئے سانپ کاٹے کی 99.9 فیصد مؤثر دوائی بھی قرار دیا ہے۔ جن سانپوں سے زہر نکالا جاتا ہے ان میں بیس سے تیس دن کے دوران زہر دوبارہ پیدا ہوجاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق مطابق اگر سانپ کاٹنے کی جگہ پر دو یا تین باریک نوکدار نشان ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ کسی زہریلے سانپ نے کاٹا ہے۔ اگر کوئی سانپ کاٹے اور نوکدار نشان نہ ہوں تو پھر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سانپ زہریلا نہیں ہوتا۔ اگر کوبرا اور سنگچور کاٹے تو انسان کا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے- ایسی صورت میں مریض کو سونے نہیں دینا چاہیے۔
قومی ادارہ صحت میں سانپ کی ویکسین بنانے کے لئے باقاعدہ گھوڑے پالے جاتے ہیں جن کی بہترین نگہداشت کی جاتی ہے۔ ان کی صحت بہتر رکھنے کے لئے ان کو باقاعدہ مربے اور پھل و ڈرائی  فروٹس وغیرہ کھلائے جاتے ہیں۔ کچھ گھوڑے سانپ کے زہر کے انجکشن کے بعد مر بھی جاتے ہیں جبکہ اکثر گھوڑوں سے دس دس مرتبہ بھی خون نکالا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب، ویب سائٹس، بلاگز اور نسائیکلوپیڈیا سے مدد لی گئی ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply