عروج اشتراکیت۔۔۔عدیل عزیز

چندے سے بنی مسجد میں بیٹھ کر دیوار برلن گرائے جانے سے لے کر سوویت روس کے ٹکرے کرنے کا دعویٰ کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ میاں ابھی چند یوم پہلے دیوار برلن کے گرائے جانے کے تیس برس مکمل ہونے پر تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔۔غازیان اسلام مدعو تھے اس میں؟

جس سوویت کے ٹکرے کیے تھے آج وہی ٹکرے شام سے بوسنیا تک میں برس رہے ہیں۔۔ تو پھر کیسی شکست؟

پاکستان سے سرخ سیاست کے خاتمے کا جشن منانے والوں.

سرخ سیاست کا تبوت سر بازار نکالنے والوں.

وہ نظریہ جسے تم مردہ سمجھ بیٹھے تھے.

اس کی اک للکار سے تم پر بوکھلاہٹ کیوں طاری ہے.

یہ تو محض چند انقلابی نعرے تھے نہ؟ تو اس سے تمھارے ذہنی جمود میں ارتعاش کیوں پیدا ہوگیا ؟

سنو تم جسے شور سجھ رہے ہو وہ نوید انقلاب ہے.

تیری نخوت جس کو خاطر میں کبھی لائی نہیں.
نا سمجھ۔۔یہ سب اُسی مرد یہودی کا ہے کام.
تیرے کہنے سے جسے محکم سمجھ بیٹھا تھا میں
نکلا تار عنکبوت آخر وہ ابلیسی نظام.

جو تعفن پچھلی تین دہائیوں سے اس دھرتی میں تم پھیلا رہے تھے اس سے معاشرے میں سانس لینا بھی مشکل ہوچکا تھا۔۔
تم ہماری نسلوں کو فنا کرنے کے درپہ تھے.
تم ہمارے ذہنوں کو بانجھ کرنے کے درپہ تھے.
تم ہر آواز حق کو دبانے کے درپہ تھے.
تم ہماری ثقافت و روایات مٹانے کے درپہ تھے

مگر سلام ہو ان چند انقلابی نوجوانوں پر.

جنہوں نے تمھارے سڑے ہوئے نظام کو ہلا ڈالا.

وہ نظام جس کی بنیاد تم نے ظلم و جبر پر رکھی تھی

وہ نظام جس کی بنیاد تم نے مذہب کے فریبوں پر رکھی تھی.

وہ نظام جس کی بنیاد تم نے مظلوموں کے خون پر رکھی تھی.

وہ ابلیسی نظام جس کی مضبوطی پر تم نازاں تھے

وہ نظام ان فاقہ مست نوجوانوں کے سامنے تارعنکبوت ثابت ہوا.

بن گئے ہونٹوں تک آتے آتے شور انقلاب
عصر نو کو یاد تھے جتنے بھی حرف احتجاج

ان نوجوانوں کے نعرہ انا لحق نے تمھارے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا ہے۔۔

تمھارے فالج زدہ ذہن تغیرات زمانہ کو سمجھنے سے قاصر رہے.
اسی لئے فضاوں میں گونجتے سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ کے نعروں سے تم پھر ہسٹیریا کے مریض بن گئے یو.

ہر قدم ہوتا جارہا ہے تجھ سے اور دور
چل پڑا کس راستے پر یہ جہاں رنگ و بو
کررہے ہیں عصر حاضر کی وہی مشاطگی
جن کو تو کہتا تھا کل آشفتہ مغز آشفتہ ہو

کیا کہا ایشیاء سبز ہے؟؟

پردہ استعمار میں لپٹا ایشیا سبز ہے کا نعرہ….

یہ وہی نعرہ ہے نہ جو تمھاری زبانوں میں ہنری کسنجر و ریگن نے ڈالا.؟

یہ وہی نعرہ ہے نہ جو عیش و عشرت میں ڈوبے صیہونی غلام عرب شیوخ نے تمھارے منہ میں ڈالا.؟

تیل کے چشموں میں خاکستر ہی ان کی تہہ نشیں
جن کی خاکستر میں چمکا تھا شرار آرزو
آج صہبائے تعیش میں ہیں وہ ڈوبے ہوئے
کرتے تھے اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو.

کیا کہا حاملین قرآن تم ہو۔۔۔؟

تم اگر حاملین قرآن ہوتے تو حاکم و محکوم کے فرق کو مٹاتے.

تم اگر حاملین قرآن ہوتے تو سرمایہ دار و مزدور کے اختلاف کو مٹاتے.

تم اگر حاملین قرآن ہوتے تو جاگیردار و مزارعہ کے تضادات کو مٹاتے۔۔

مگر تم نے محکوموں کی غلامی کو جائز کہا.

تم نے مزدوروں کی سسکیوں کو آخرت میں نجات کی کنجی قرار دیا.

تم نے مزارعین کی بدحالی و بے بسی کو میثیت ایزدی سے تعبیر کیا..

کیا تم فرمان رب العالمین بھی فراموش کر بیٹھے؟

وَيَسْاَلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ؕ قُلِ الْعَفْوَ”
“اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں، کہہ دو جو زائد ہو،”
(البقرۃ 219)

تم نے بجائے رٹنے کے قرآن کریم کی آیات کو سمجھا ہوتا تو تمھارے دلوں میں پردے نہ پڑے ہوتے اور اس بشارت نبی اکرم (ص) کا مصداق نہ بنتے.

“یَقْرَ أُ وْنَ القراٰن ولا یجاوز حنا جر ھم،”

”وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا” (بخاری)

ان نوجوانوں کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والوں

نظریاتی کشمکش کو ذاتیات تک لے جانے والوں

الکاسب حبیب اللہ کی عملی تعبیروں کیے کردار پر رکیک حملے والوں.

جنس کی بنیاد پر تفریق کرنے والوں

تمھاری پستی کی بھی کوئی حد ہے؟

اے غلامان استعمار

اے دائمی نخوت کے مریضوں..

اے تسبیح کے دانوں پر ڈالر شمار کرنے والوں

تمھارے پیٹ میں کشکول اور تمھاری داڑھیاں زنبیل ہیں.

تم ان کا مقبالہ کرو گے؟.

تم منبر و محراب کی آڑ میں قائم اپنے عالی شان حجروں سے نکل سکتے نہیں

آو سر مقتل آؤ۔۔۔آؤ  ہم تو بازو قاتل کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں.

مگر کیا کبھی ذلت و پستی نے بھی عروج کا مقابلہ کیا ہے؟

کیوں فروغ اشتراکیت سے ہے تو درد مند
اب ہیں مسلم بھی اسی پرچم کے نیچے سربلند.
ہاتھ بندھوا کر پڑھائی جن سے ملاُ نے نماز
پھینکتے ہیں آج وہ چاند و تاروں پر کمند

تم جہالت و اندھیروں کے پست درجوں میں غرق رہو.

اور پرچم سرخ ایک بار پھر بلندی و عروج پر ہے.

جو کبھی مزدک نے دیکھا تھا وہ بے شک خواب تھا
ایک حقیقت بن گیا لینن نے وہ دیکھا جو آج.
اس کو چھونے کی دوبارہ ہمت کرکے دیکھ لے.
اشتراکیت کا پرچم کتنا بلند ہے آج.

Advertisements
julia rana solicitors london

(اشعار کیفی اعظمی)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply