فقہ اسلامی اور مکاتب فقہ۔۔۔تبصرہ: ڈاکٹر طفیل ہاشمی

مصطفی زرقا نے یونیسکو کی درخواست پر الفقہ الاسلامی و مدارسہ کے عنوان سے 144 صفحات کا ایک مقالہ لکھا جو پہلی بار 1955 میں بیروت اور دمشق سے بیک وقت شائع ہوا۔
مقالہ کا آغاز فقہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف اور مشمولات فقہ سے ہوتا ہے۔ فقہ اسلامی اور فقہ وضعی کا فرق بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فقہ وضعی میں صرف قانون کی نظر میں ناقابل مواخذہ ہونا مطلوب ہے جب کہ فقہ اسلامی کی بنیاد اللہ اور قیامت پر ایمان پر ہے اس لیے عنداللہ بری الذمہ ہونا بھی ضروری ہے۔ شریعت اور فقہ کے فرق کے ضمن میں رقم طراز ہیں کہ منصوص احکام اور ان کی نبوی تبیین شریعت ہے اور ان سے استنباط و اجتہاد فقہ۔ فقہ اسلامی کے بنیادی اور ثانوی مآخذ کا ذکر کرنے کے بعد ضرورت اجتہاد کے دو پہلوؤں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
1_نص کے مفہوم کے تعین کے لیے اجتہاد
2-غیر منصوص مسائل میں حکم شرعی جاننے کے لیے اجتہاد

عہد نبوی اور عہد صحابہ کے انفرادی اجتہادات اور ان کی بنا پر تطبیقی اختلافات کی مثالیں بیان کر کے اہل الرائے اور اہل حدیث مکاتب کے آغاز و ارتقا پر روشنی ڈالتے ہوئے اہل سنت اور دیگر فقہی مذاہب کا اجمالی تعارف اور ان کے جغرافیائی اثر و نفوذ کی تعیین کرتے ہیں۔ اس بحث میں دو امور اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ مولف نے ظاہریہ کو اہل سنت میں شمار کیا ہے اور دوسرے انہوں نے اپنی سابقہ رائے سے کہ عراق میں ذخیرہ احادیث کم ہونے کے باعث رائے کا چلن ہوا رجوع کرتے ہوئے کوفہ میں اقامت اختیار کرنے والے اجلہ فقہاء صحابہ کے نام گنوائے ہیں۔
اہل سنت کے فقہی مکاتب کے اجمالی تعارف کے بعد اس تحریک کا ذکر کیا جس کے نتیجے میں اہل الرائے اور اہل حدیث مکاتب میں قربت و تعاون میں اضافہ ہوا، جس کا آغاز امام ابویوسف سے ہو گیا تھا
اس کے بعد انہوں نے دور حاضر کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا کہ کیا سارے عالم اسلام کو ایک فقہ پر جمع کرنے کی کوشش سودمند نہیں ہو گی؟

اس پر ان کی رائے یہ ہے کہ فقہی اختلافات مسلمانوں کے پاس ایک وقیع علمی اثاثہ ہے اسے نظر انداز کرنا درست نہیں البتہ یکساں عدالتی قوانین کی علمی سطح پر تشکیل کی کوشش کرنی چاہیے جیسا کہ ترکی خلافت کے دوران مجلہ احکام عدلیہ کی تدوین کے ذریعے ہوا۔ اب بھی عدالتی استعمال کے لیے تمام فقہی لٹریچر سے استفادہ کر کے یکساں عدالتی قوانین بنائے جائیں۔
ضمناً  پچھلے سالوں میں اجتہاد کا دروازہ بند ہونے اور اس کے اسباب و نتائج کی طرف اشارہ کرنے کے بعد انہوں نے فقہ اسلامی کی تدوین جدید کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے 1951 میں پیرس یونیورسٹی کے ہفتہ فقہ اسلامی اور اس کے نتیجے میں عرب ممالک میں بننے والے فقہی اداروں کی نشاندہی کی جو شورائی اجتہاد اور فقہی موسوعات مدون کرنے میں مصروف ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فقہ اسلامی کی مختصر اور جامع تاریخ پر ایک وقیع مقالہ ہے
ممکن ہے یونیسکو نے اسے دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کروایا ہو۔ میرے پیش نظر عربی ایڈیشن ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply