کائناتِ عالم میں ہم انسانوں کی عام طور پر دو اقسام مرد اور عورتیں وجود رکھتیں ہیں، لیکن ہم سب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک اور قسم بھی اپنا پورا وجود رکھتی ہے، جو مردوں کے ساتھ مرد اور عورتوں کے ساتھ عورت کہلاتی ہے، مطلب کہ وہ نہ مردوں میں آتی ہے اور نا ہی عورتوں میں بلکہ کوئیر کمیونٹی کے وہ افراد ہوتے ہیں، جن کو ہم زوجان، ہیجڑا، کھسرا، زنانہ، زنخا، فرقہ، نربان، اکروی، مورت، خواجہ سرا، شی میل، لیڈی بوئے، مخنث، خنثی، کیک، ففٹی ففٹی، چھکا، میٹھا فروٹ اور پتہ نہیں کیا کیا نام دیتے ییں!
میں نے شہرِ ادب میں
پاۓ کے شعراء دیکھے تھے!
شاعرات بھی اچھی خاصی تھیں!
پر اس شہر میں اب کے میں نے
اک ایسا بھی محلّہ دیکھا ہے!
جہاں پہ خواجہ سرا بستے ہیں!
یہ ہیجڑے مظلوم نہیں ہیں!
یہ ظالم ہیجڑے شاعری کے ہیجڑے ہیں!
شاعری کے جگ میں ٹھگ ہیں سارے!
اس کوچے میں جانے والا!
شاعر ہو یا شاعرہ ہو , خواجہ سرا ہے!
بھئ! چونکے کیوں ہو ؟
سچ ہی تو بولا ہے!
کوڑے دان میں آخر کُوڑا ہی تو جاتا ہے!
ارے ارے نظم چھوڑو مت!
حقیقت بھی تو دیکھو!
ان کی حقیقت بانجھ ہے ساری
یہ ہیں الہام کی پیداوار سے عاری!
لیکن ان میں بھی جنس دو طرح کی ہوتی ہے!
کچھ کے تخیل کے پستاں بنجر ہیں!
کچھ کے وجدان کے عضو معطل ہیں یا فاسد ہیں!
لیکن پھر بھی یہ سب
شعری ہمبستری کر لیتے ہیں!
سرقہ بازی سے جزبہ بھر لیتے ہیں!
اور تو اور اس بستر پر ہی
تال بے تال مجرا کرتے ہیں
یہ مجرا گاہ ہی ان کی جنازہ گاہ ہے!
اب ان کے بچے تو پیدا ہونے سے رہے!
جن کو یہ غزلیں، نظمیں کہتے ہیں!
میری نگاہ سے دیکھو تو
نہ تو مرد ہیں یہ نہ ہی مؤنث ہیں!
اعلی درجے کے مخنث ہیں!
نظم خواجہ سرا از شاہ میر ایلیاء
اب کوئیر کمیونٹی کے ہیجڑوں کی جنس میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں، میں فیضی ماں سے قبل از تحریر انتہائی عجز و انکسار سے معافی چاہوں گی کہ انہوں نے کہا تھا،
بہر حال میں نے آج تک کسی خواجہ سرا کو نہ گھوڑی چڑھتے دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی خواجہ سرا کی ڈولی اٹھتے دیکھی، اس کا مطلب کہ خواجہ سرا شادی نہیں کرتے اور خواجہ سرا کی اولاد نہیں ہوتی
اگر ہم قرون اولیٰ کے ہیجڑوں کی تاریخ ماضی کے اوراق کی چھان بین کریں تو ہم حیران ہونگے کہ قرون اولیٰ میں ہیجڑوں کی آپس میں نا صرف شادیاں ہوئیں بلکہ ہیجڑوں کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوئی، ایسے ہیجڑے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں بھی پائے جاتے تھے، جیسے طواس یا طاؤس نامی مشہور و معروف ہیجڑا تھا، جس کی نا صرف شادی ہوئی بلکہ بعد میں اس کی اولاد بھی ہوئی، یہاں تک کہ حافظ ابو حنظلہ نے ہیجڑوں سے متعلق اپنے ایک مضمون جس کا عنوان تاریخ اسلام کے ہیجڑے ہے، اس میں حافظ ابو حنظلہ نے ان 22 نامی گرامی ہیجڑوں کے نام لکھے، جن کی شادیاں اور اولاد ہوئی، ان کا کہنا ہے کہ اسلام سے قبل جن چند عورتوں کا ذکر ملتا ہے، وہ درحقیقت عورتیں نہیں بلکہ ہیجڑے یا ٹرانس تھے، جو خود کو عورتوں کے ناموں سے پکارا جانا پسند کرتے تھے، بہر حال ان ہیجڑوں کی اکثریت اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم رہ جاتیں ہیں!
خواجہ سراؤں کی شادیوں اور اولاد کے لیے ہمیں قرون اولیٰ اور قرون وسطی کے ہیجڑوں/خواجہ سراؤں کی زندگیوں کے بارے ضرور پڑھنا چاہیے، قرون وسطی کے ہیجڑوں کی شادیوں کے بارے سیف الرحمن نے ہیجڑوں کی نجی زندگی پر اپنی کتاب درمیانے میں بڑی تفصیل سے لکھا، دور حاضر میں خواجہ سراؤں کی شادیاں ہوئی اور ہوسکتا ہے، بچے بھی پیدا ہوئے ہوں، لیکن شاید وہ شادیاں ہماری توجہ کا مرکز نہ بنی اور نہ ہی ہم نے کبھی اس پر غور کیا!
تاریخی اعتبار سے برصغیر پاک وہند میں جن ہیجڑوں کو سلطنت مغلیہ کے سلطانوں نے محلات میں سرکاری عہدوں پر فائز کیا تھا، انہیں خواجہ سرا کہا جاتا تھا، اور جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی تو وہ ہیجڑے جن ہیجڑوں سے مانوس تھے، ان سے شادیاں کرکے اپنا گزر بسر کرنے لگے، ان ہیجڑوں کی شادیاں بھی عام مردوں اور عورتوں کی طرح ہوا کرتیں تھی، چاہے وہ مہندی ہو، بارات ، نکاح یا پھر ولیمہ، ان کی شادیوں میں چیلوں کے گرو کو خصوصی مدعو کیا جاتا تھا، شادی ہونے کے بعد چیلے اپنے گرو کے پاؤں چومتے تھے۔
یہ ہیجڑے کوئی الگ قسم نہیں بلکہ مرد اور عورت کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور یہ ہم انسانوں میں سے ہی ہیں، یہ اگر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے تو کیا ان پر شادیاں حرام ہو گئیں، ہرگز نہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی مرد اور عورت کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تو وہ کسی کا بچہ گود لے لیتے ہیں، کیا کبھی کسی نے ایسے مردوں اور عورتوں پر، جو بانجھ پن کا شکار ہوں اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں، ان پر شادیاں نہ کرنے کا فتویٰ صادر کیا ہو؟
اسلامی نظریاتی کونسل کا اس پر متفقہ فیصلہ موجود ہے کہ جس خواجہ سرا میں زنانہ خواص ہوں وہ اس خواجہ سرا سے شادی کا حق رکھتا ہے، جس میں مردانہ خواص ہوں!
یہاں اس امر کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ خواجہ سرا ہیجڑوں کی شادیاں خواجہ سرا ہیجڑوں میں ہی ہونی چاہیے لیکن چونکہ اب دور حاضرہ میں زنانہ خواص والے خواجہ سرا ہیجڑوں کی تعداد مردانہ خواص والے خواجہ سرا ہیجڑوں سے بہت کم ہے، ان زنانہ خواص والے خواجہ سرا کی تعداد 5 فیصد ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق ان ہیجڑوں کے جوڑے بننا مشکل ترین امر ہے اور وہ شادیاں نہیں کر سکتے!
لکڑی جلی، جل کوئلہ بنی اور کوئلہ جلا بنیو راکھ!
میں پاپن کچھ ایسی جلی نہ کوئلہ بنی نہ راکھ!
کافی از خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن
کوئیر کمیونٹی کے زوجان ہیجڑوں/خواجہ سراؤں یا انٹر سیکس کی چار اقسام ہیں:
1-پہلی قسم ان افراد کی ہے ،جن کے جنسی اعضاء مکمل نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے وہ شادی کے قابل نہیں ہوتے، یہ نقص لڑکا اور لڑکی دونوں میں پایا جاسکتا ہے۔اعضائی نقائص کے حامل بچوں میں سے ایسے بچوں کی تعداد صرف 2 فیصد ہے۔
2- دوسری قسم ان افراد کی ہے جن میں بیک وقت مرد و عورت دونوں کے جنسی اعضاء ہوتے ہیں، ان کے لیے ٹیسٹ کا طریقِ کار اپنایا جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں یہ علم ہو جاتا ہے کہ دونوں میں سے کون سا عضو زرخیزی لیے ہوئے ہے اور کون سا عضو بےکار ہے، جو بھی عضو زرخیزی کے قابل نہ ہو اسے آپریشن کے ذریعے ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود بخود جنس بھی متعین ہوجاتی ہے، اس سب کے بعد ایسے بچے دیگر بچوں جیسے نارمل اور بےنقص ہو جاتے ہیں۔
3- تیسری قسم ان افراد کی ہے جن کا بظاہر عضو واضح نہیں ہوتا مگر حقیقت میں داخلی طور پر ان میں بچہ دانی اور بیضہ دانی جیسے اعضاء موجود ہوتے ہیں، سرجری کے بعد وہ نارمل لڑکی بن جاتے ہیں، اعضائی نقائص کے حامل بچوں میں سے ایسے بچوں کی تعداد 98 فیصد ہوتی ہے!
4- چوتھی قسم ان افراد کی ہے جن کی پیدائش کے وقت چھوٹا سا سوراخ یا ہلکا سا ابھار ہوتا ہے، ایسے بچوں کے بارے میں ان کے ماں باپ شدید تذبذب کا شکار ہوتے ہیں، کچھ اپنی دانست میں انہیں بیٹا قرار دیتے ہیں اور کچھ بیٹی، بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ والدین ایک بچے کو بیٹی سمجھ کر پرورش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ حقیقت میں بیٹا ہوتا ہے۔ بعض اوقات والدین ایک بچے کو بیٹا سمجھ کر پال رہے ہوتے ہیں مگر وہ حقیقت میں بیٹی ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بچے خود کو وہی صنف سمجھنے لگتے ہیں جو ان کے والدین طے کرتے ہیں، ٹیسٹ پراسیس کے بعد ڈاکٹر یہ طے کرتا ہے کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی، جنس کے تعین کے بعد مختلف طرح کی ہارمون تھراپی اور انجیکشنز کے بعد جنسی عضو بن جاتے ہیں، اس کے بعد متعدد آپریشنز کیے جاتے ہیں، جن کے نتیجے میں وہ نارمل لڑکا یا لڑکی بن جاتے ہیں۔
اگر یہ ہیجڑے علاج سے محروم رہ جائیں تو معاشرے میں اسے جسمانی نقائص کی وجہ سے تضحیک، ٹھٹھول اور تمسخر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو رحم و کرم، شفقت و عنایت اور اچھے رویے کا متقاضی ہوتا ہے۔
ان ہیجڑوں کی جسمانی وضع قطع تھوڑی مختلف ضرور ہوتی ہے، مگر دل و دماغ اور اس میں پنپتے احساسات و جذبات بالکل عام مردوں اور عورتوں جیسے ہوتے ہیں، جو انسان کی نفسیات، جسمانی ساخت، فطرت، مزاج و میلان کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اور انسان کو محض اس لیے حقارت یا نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ ان سے مختلف جسم یا روح رکھتے ہیں!
دوسری طرف ہمارے ہاں جسے ہیجڑا یا خواجہ سرا کہا جاتا ہے وہ دراصل متجنس یا ٹرانس جینڈر ہے۔
جو لڑکے یا لڑکیاں خود اپنا جنسی رجحان اور جنسی خواہشات مخالف جنس کا رکھتے ہیں، ان کو متجنس یا ٹرانس جینڈر کہتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ کو 2017 میں پیش کیا گیا اور مئی 2018 میں اسمبلی سے پاس کرکے باقاعدہ قانون ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کا نام دیا گیا، اس ایکٹ کے لبادے میں صرف 3 سالوں میں قریباً 30,000 کھسروں نے جنس کی تبدیلی کے لئے درخواست دی، ان میں صرف 30 ہیجڑے تھے۔
قدیم دور میں اردو و فارسی میں ہیجڑہ ان افراد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جو مردانہ جسم رکھنے کے باوجود مردانہ جنسی کارکردگی میں عمدہ نہ ہوں اور ہمیشہ ان کو ایک گالی کی طرح سمجھا گیا کیوں کہ ہمارے یہاں مرد ہونے کی واحد دلیل جنسی کارکردگی ہی سمجھی جاتی ہے۔
قصہ مختصر کہ موجودہ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 ہیجڑوں سے متعلق ہے نہ کہ متجنس یا ٹرانسجینڈر افراد کے۔!
فطری طور پر ان ہیجڑوں کے عورتوں کی طرح پستان اور مرد کی طرح عضو تناسل ہوتا ہے،
ہم جن کو اکثریت میں دیکھتے ہیں یہ ہیجڑے نہیں، متجنس یا ٹرانسجینڈر ہوتے ہیں!
اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک بڑی تعداد اس سے نفی کی جا سکتی ہے، جو نہ تو ہیجڑے ہیں اور نہ لسبین، گے، بائی سکچول، ٹرانس جینڈر یا کوئیر خواجہ سرا بلکہ صرف مرد ہیں!
ہمارے ہاں یہ جو تصور پایا جاتا ہے کہ ہیجڑا یا خواجہ سرا وہ ہوتا ہے جو اولاد پیدا نہ کر سکے، سراسر غلط ہے، اصل میں وہ مرد کھسرے ہوتے ہیں، جو اپنی مردانہ کارکردگی کی کمی کی بنا پر ہیجڑوں کا روپ اختیار کر لیتے ہیں، جس سے یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ ہیجڑا وہ ہے، جو اولاد پیدا نہ کر سکے، ان زوجان ہیجڑوں اور مرد کھسروں کی جنسی لذت اور شادیوں کے موضوع کو دوسری تحریر کے لیے موخر کر رہی ہوں، اگلی تحریر میں دور حاضرہ میں ہیجڑوں اور کھسروں کی شادیوں اور جنسی لذت پر لکھوں گی، بہر حال ابھی مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے میں مضمون کو یوسف شہزاد انصاری کی اس نظم پر ختم کر رہی ہوں!
سنو لوگو !
ہاں میں ہیجڑا ہوں!
ہاں میں کنجر ہوں!
پر میں دکھی ہوں،مظلوم ہوں، بے چارا ہوں،سماج کا دھتکارا ہوا، نفرتوں کا مارا ہوں، میں ایک جنسی کھلونا بھی ہوں!
ہاں میری بناوٹ مضحکہ خیز ہے، مگر جذبات، احساسات اور خواہشوں سے عاری تو نہیں!
مانا کہ میں بشر نہیں،
پر ملائکہ تُو بھی نہیں،
بھگوان کو، خدا کو مانتا ہے تُو، بہشت کا اور حُوروں کا طلب گار بھی ہے تُو، پر خُدا کی تخلیق سے مُنکر بھی ہے!
کیا یہ تیرا دوغلا پن نہیں، بڑی بے شرمی سے، بڑی ڈھٹای سے
انسانیت کے منبر پر براجمان ہے تُو!
میں نے تو سب رشتے کھو دیے، اب نفرتوں اور طعنوں کا اک مرقع ہوں،لیکن پھر بھی خوشیاں بانٹ کر، تمہیں جنسی تفریح دے کر، اپنے حصے کا دیا جلاتا ہوں، اور اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں!
لیکن اے انساں تُو بتا!
تُو نے خدا کو سوائے دھوکہ دینے کے
کیا سیکھا ہے؟

( افادات از عثمان انجم زوجان، فیضی ماں ٹوبہ ٹیک سنکھ، صبور گل، سلطان محمد، سید عامر الحسینی، نعیم گل زر، محمد قاسم خان، ابصار فاطمہ، سارنگ سعید، اعظم خان )
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں