کابل دھماکے:نئی گریٹ گیم کا حصّہ۔۔خالد امین میانی

نہ زمین ہلی ، نہ آسمان ٹوٹا ۔ نہ خدا طیش میں آیا ، نہ سامراج کی تشنگیِ خونِ انسانی بجھی۔ پرسوں رات کابل میں پانچ سے سات بم دھماکے ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں سو سے زائد معصوم افغان عوام شہید ہوئے ، کوئی دس کے قریب امریکی اہلکار ہلاک ہوئے اور اسی طرح چند ایک طالبان  بھی ہلاک ہوئے۔ قیامت کی جو نشانیاں دینی لٹریچر میں بیان کی گئی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ خوفناک اور دردناک منظر تھا۔ ہر طرف بے یار و مدد گار خون میں لتھڑی لاشیں پڑی تھیں۔

ہم نے آج تک صرف انگریزی لٹریچر کی ٹریجڈیز t  میں پڑھا تھا یا پھر خوفناک انگریزی فلموں  میں دیکھا تھا کہ غیر انسانی مخلوق   آپس میں لڑتی ہیں تو بارش ہوجاتی ہے اور خون بارش کے پانی سے ملکر بہنے لگتا ہے ۔ یا پھر تاریخ کی کتابوں میں بعض اوقات لکھا ہوا دیکھا گیا ہے کہ فلاں جنگ میں انسانی خون کی ندیاں بہائی گئیں ۔ یہ سب سن دیکھ کر انسانی ذہن تسلیم نہیں کرتا تھا کہ یہ کیسے ممکن  ہے کہ انسانی خون کی ندیاں بہائی جائیں ۔ مگر کل کابل میں جب حقیقی طور پر انسانی خون کہ ندی بہتی دیکھی تو یقین آیا کہ واقعی ایسا ممکن ہے ۔ بے بس ماؤں بہنوں کی فلک شگاف چیخوں سے یوں محسوس ہوتا تھا  جیسے وہ چِلّا چَلّا کر  صور  پھونکنے کی التجاء کر رہی ہوں۔ یا پھر خدا سے آسمان گرا دینے کا مطالبہ کر رہی ہوں۔ اکیسویں صدی ہے ٹیکنالوجی اور سہولیات اپنی  انتہاء کو پہنچی ہوئی ہیں اور افغانستان میں  لاشوں کو ہاتھ ریڑھی  پر   ہسپتال پہنچایا جا رہا  تھا ۔ ہسپتال میں طالبانی قبضہ کی وجہ سے سٹاف بھی موجود نہیں اور خود طالبان بھی منظر سے غائب  ہیں ۔اس پر مجھے اپنا اک بہت پرانا شعر یاد آیا
“کیوں خلقت نے بنایا ہے میری نیستی کو شعار اپنا
خاموش لوح دنیا پہ حرف مکرر تو نہیں ہوں میں ”

یہ انسانی تذلیل اور بے بسی و بےحسی  قابلِ یقین تھی ۔ نالیوں میں   پڑی خون میں لت پت لاشوں کی تصویریں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ شاید ایسے ہی احساسات میں جکڑ کر معروف فلسفی فریڈرک نطشے نے ایک بار کہا  تھا” خدا مر چکا ہے”۔   معروف مصنفMark Manson اپنی کتاب every thing is f*ked کے ابتدائی ابواب میں ایک ٹریجک واقعے کو ان الفاظ سے شروع کرتا ہے

“the most Hitler thing happend was that” گویا کہ ہٹلر کو بربریت کی علامت کے طور پر لیا گیا ہے ۔ مجھے امید ہے مستقبل کے لکھاری کچھ یوں لکھیں گے
“the most talibani thing happend was that”

اب آتے ہیں یہ کھوج لگانے میں کہ ایسا  کس نے کیا ؟ اسکا ذمہ دار کون  ہے؟ کیا امریکہ اسکا ذمہ دار ہے ، طالبان ذمہ دار ہیں ، پڑوس ممالک کی ایجنسیاں ذمہ دار ہیں یا داعش ذمہ دار ہے ؟ اس کے پیچھے جو کوئی بھی ہے ذمہ دار امریکہ و طالبان ہیں کیونکہ کابل پر فی الحال یہی دو (اصل میں ایک) قابض ہیں۔ چونکہ یہ کھوج لگانا مشکل ہے مگر یہ بات اٹل  ہے کہ جس نے بھی کیا ہے یا  کروایا ہے ،کسی متشدد اسلامسٹ کے ذریعے ہی ایسا ہو  ا ہے ۔ یقیناً  موصوف  کو  یہ کہہ کر موٹیویٹ کیا  گیا ہوگا کہ یہ جو ائیرپورٹ پر جمع ہیں یہ بے دین ہیں اور کافر ملک جانے کی کوشش کر رہے ہیں انکا قتل واجب ہے۔

طالبان نے چند روز قبل عندیہ دیا تھا کہ جو لوگ ائیر پورٹ کی جان نہیں چھوڑ رہے  ہیں وہ جلد نتائج دیکھ لیں گے ۔ امریکہ نے بھی کئی دفعہ ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ کی۔ مگر کہا جاتا ہے کہ دہشتگرد تنظیم  نے ذمہ داری قبول کرلی۔ میں نے پہلے بھی کسی جگہ لکھا تھا کہ یہ جتنی بھی مسلح تنظیمیں ہیں چاہے طالبان ہیں ، داعش ہے یا کوئی اور یہ سب سکّے کے   ایک رُخ پر نگار شدہ دہشتناک نقوش ہیں اور سکّے کے  دوسری رُخ پر عالمی سامراج اور اسکے مقامی چیلے ہیں ۔ یہ سب سامراجی کمپنی کی پیدوار none state actors sponsored terrorist organisations ہیں۔

یہ نئی گریٹ گیم کا آغاز تھا سو ہوگیا ۔ یہ سب کچھ سکرپٹڈ ہے اور آنے والے دنوں میں متواتر ایسے سانحات رونما ہونگے ، میرے منہ میں خاک۔ اصل میں یہ کام تین چار ماہ بعد ہونے والا تھا ۔ یہ اس گیم کا دوسرا راؤنڈ ہے ، گیم کا پہلا راؤنڈ اشرف غنی کی چالاکی اور امن پسندی نے شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ۔ امریکہ نے اس نئی  گیم کی ابتدا میں طالبان اور غنی حکومت کو لڑوانا تھا ۔ زبردست قسم کی خونریزی کے بعد ان میں سے ایک ، ظاہر ہے طالبان  کو جتوانا تھا کیونکہ سامراج نے طالبان پر اتنی بڑی انویسٹمنت کی ہی اسی لئے تھی کہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ اسی طرح غنی حکومت سے لڑے ہوئے قدرے کمزور طالبان کو de fecto اقتدار تک پہنچا کر انہیں داعش سے لڑوانا تھا جیسے آپ دیکھ رہے ہیں  ۔ یہ گریٹ گیم کا دوسرا راؤنڈ تھا ۔ شاید اسکے بعد انہیں طالبان کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرکے آپس میں لڑوایا جاتا ۔ اس ساری صورت حال میں امریکہ نے صحیح سلامت باہر رہ کر لائیو تماشا  دیکھنا تھا اور خطے کو آگ میں دھکیل کر مقامی طاقتوں جیسے چین ، روس و ایران کو نامعلوم مدت تک اس خونریزی اور عدم استحکامی کے حالات میں انگیج کرنا تھا اور پھر شاید  آخر میں دوبارہ خود بھر پور طاقت سے کود پڑے۔ اشارہ آپ نے دیکھ ہی لیا کہ دھماکوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ، طالبان نے تشویش کا اظہار کیا اور الجزیرہ نیوز کی شہ سرخی کے مطابق ؛
we will hunt you down ,biden warns kabul attackers.
گویا کہ اب امریکہ ، طالبان اور داعش کے ترتیب وار یعنی chain attack شروع ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

اب بھی اگر اس خطے کے باسیوں نے آنکھیں نہ کھولیں تو شاید مستقبل قریب میں یہ خطہ مکمل طور پر جل کر راکھ بن جائے۔ یہ دنیا کی بڑے ہاتھیوں کی آپس کی رسہ کشی ہے ۔ یاد رکھنا ہوگا کہ اس جنگ سے سپر طاقتوں کا نہ  پہلے کچھ بگڑا ہے اور نہ بعد میں بگڑے   گا ۔ اس میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنا اپنا حصہ وصول کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ جلنا ہے ، پسنا ہے ، برباد ہونا ہے تو اس خطے نے ہونا  ہے،یہاں کے عوام نے ہونا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم  ہی میں لوگ انسانیت کی اس تاریخی بربادی پر جشن منا رہے ہیں کوئی طالبان کو مجاہدین اسلام قرار دیکر شریعت کی آڑ میں (یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاں ان کو شریعت قبول نہیں) ، کوئی اپنے مکروہ سٹریٹجک اہداف کے  پورا ہونے کی آڑ میں اور کوئی اسے پرائی جنگ سمجھ کر۔۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پورے  خطے کی جنگ ہے اور پورے خطے نے ڈوب جانا ہے ۔

Facebook Comments

محمد عثمان
اجی بے نام سے لوگ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply